’’آنے والا دور نوجوانوں کا ہے‘‘

سالو ں پہلے ہمارے گاؤں کے ایک لڑکے نے کباڑ کا کام شروع کیا۔چند ہزار روپے سے اس نے شیشے اور پلاسٹک کی بوتلیں خریدنا شروع کیں،وہ کئی سال تک اسی طرح پلاسٹک کے شاپربھی لیتا رہا اور اِس کام کو معیوب سمجھے بغیر دل جان سے کرتا رہا۔یہ اس کا اپنے کام سے بے حد محبت کا ثبوت تھااور ہمیں اس کا یہ کا م ایک آنکھ نا بھاتاتھا۔ہم نے اسے جب بھی دیکھا کام میں جتا دیکھا۔سردی، گرمی، خزاں، بہار کا فرق محسوس کیے بغیروہ کاٹھ کباڑ ،لوہا، پیپا ،ردی پیپر لیتارہا ۔لوگوں کی باتیں ،طعنے ، طنزیہ فقروں سے بے نیاز وہ اپنے کام سے محبت کرتا رہا ۔کچھ سالوں بعداس کی محنت رنگ لائی اور کامیابی اس کی باندی بن کر اس کے در پہ رہنے لگی۔ آج وہی لڑکا پلاسٹک کے برتنوں کا بہت برا ڈیلر ہے ۔ملک بھر میں اس کا کاروبار پھیلا ہوا ہے ۔ہمارے ہاں نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی جس طرح سے نا قدری کی جاتی ہے دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔اس گناہ میں حکومت کی بے حسی تو ہے ہی،خود نوجوان بھی اپنے ہنر کو ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔زندگی بتدریج گزررہی ہے اور اس نے جیسے تیسے منزل کی طرف سفر جاری رکھنا ہے ۔وقت کی لہریں بار بار اعلان کرتی ہیں کہ کچھ کرلو ۔مگر نوجوان مغربیت کی بھیجی کئی قسم کی لعنتوں میں گرفتار ہو کراپنا سرمایہ فن و ہنر دفن کررہے ہیں۔دنیا میں آج تک کسی ماہر استاد نے ایسا سبق،کسی سائنس دان نے ایسا فارمولااورکسی طبیب نے ایسا نسخہ ایجاد نہیں کیا جسے پڑھ کر ، تجربہ کرکے اور نسخہ کھا کر کوئی امیر یادولت مند بناہو۔شہرت ،نیک نامی اور بے تحاشہ دولت کے ساتھ آج ہر نوجوان کی خواہش ہے کہ وہ زندگی کی تمام رعنائیاں اپنی مٹھی میں لے کر گھومے اور اس کے لیے وہ شارٹ کٹ راستے تلاش کرتا ہے۔کبھی کسی کمپنی میں توکبھی کسی آفس میں۔اگر ایک بنک نے دوسری بنک سے اسے اچھا آفر کیا تو ٹھک سے یہ نوجوان دوچار ہزار یا مہران گاڑی سے کارولا گاڑی کی طرف اڑان بھر تا ہے۔اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس میں کتنا ٹیلنٹ ہے اور وہ اپنے ہنر کو آزماکر اسی آفس ،اسی بنک کے ذریعے محنت کرکے اپنے آپ کو اپنے ہنر کو ڈسکور کرے ۔اسے بس اچھا لائف اسٹائل چاہیے۔اچھے بنگلے کی خواہش ،خوبصور ت گاڑی کا دیمک اسے اندر سے ناکارہ کردیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان آپ کو جگہ جگہ بے کار ملے گا۔اس کے پاس نہ کام ہے نہ وژن ہے۔اگراس کے پاس کام ہے تو وہ اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے وہ اپنے ہنر قابلیت کو بھول چکا ہے۔دنیا کے ہر کام میں محنت درکار ہوتی ہے اور محنت صبر والا درخت ہے جس کا پھل برسوں بعد ملتا ہے۔سفر جتنا طویل ہوگا تھکان اتنا زیادہ ہوگی ۔اس لیے لمبا سفر کرنے کے لیے جگہ جگہ آنے والے بریکر وں سے نہ گھبرائیں ،بلکہ تھوڑ ا سا سانس لیں ،ایک کپ چائے ،کافی پیئیں اور یہ کہتے ہوئے آگے کے سفر پہ نکل کھڑے ہوں کہ ابھی کچھ نہیں کیا ،ابھی اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔اگر ہم بغور اپنے آس پاس حالات ملاحظہ کریں تو حیرت کے کوہ ہمالیہ ٹوٹ پڑیں گے کہ اس دورجدید کا نوجوان ایک صدی پیچھے کھڑا نظر آتا ہے۔جب کے اس دور میں ترقی کے مواقع وہ اپنی جیب میں لے کر گھوم رہا ہے ۔تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس کے پاس کرنے کو سوائے نوکری کے کچھ نہیں۔معاشرہ بھی اسی انسان کو کامیاب تصور کرتا ہے جس کے پاس نوکری ہو ۔جو روز صبح پتلون ٹائی لگا کر کام پہ جاتا ہو۔جس کو مہینے کے آخر میں بیس پچیس ہزار روپے کا چیک ملتا ہوبھلے بیس تاریخ کے بعد وہ ادھاری پہ کیوں نہ چل رہا ہو۔مگر معاشرے کی نظر میں وہ کامیاب ہے اور جس کے پاس عزائم ہوں حوصلہ ہو،نہ ہارنے اور دائمی محنت کا جوہر ہو ۔جو زندگی میں آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتا ہواور دنیا کے سامنے پیش ہوکر رول ماڈل بننا چاہتا ہواسے دھتکار، حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نوجوان دنیا سے بے نام ہی چلا جاتا ہے۔اور اس کے خواب چکنا چور ہو کر فضا میں بکھر جاتے ہیں ،یا پھر لحد میں اس کے جسد کی طرح خاک بن جاتے ہیں۔
محنت سے جی چرا کر کامیابی کسی کی جھولی میں آج تک نہیں آئی۔کامیابی وقت مانگتی ہے اور وقت نوجوانوں کے پاس بالکل بھی نہیں ہے۔ہم دور کے زمانوں کے کامیاب لوگوں کی مثال نہ بھی لیں تو اسی صدی میں ہمیں کئی ایسے چہرے نظر آئیں گے جن کی زندگی کا سفر روڈ سے ، ٹیوشن سینٹر چلانے سے،کسی بڑے صحافی کے جوتے سیدھے کرنے سے شروع ہوا تھا اور آج ان کی جہد مسلسل ، محنت نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ہر شعبے میں ایسے لوگ بھرے پڑے ہیں جن کا ماضی آج کے نوجوان کا مستقبل ہونا چاہیے۔ان سے سیکھنے کا عمل شروع کرنا اور ان کے نکو بن کر ان سے کامیابی کا فلسفہ پڑھنا چاہیے۔مگر جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ نوجوان کوکچھ دنوں کی چکاچوندیوں میں تو لے جائے گا مگر اس میں اس کی کامیابی نہیں ہوگی۔کام سے محنت کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔لہذا نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنا وژن بنائیں ۔ایک شعبہ مختص کریں اور اسی میں جی لگا کر کام میں لگ جائیں ۔ہر کام میں نا مساعد حالات مشکلات آتے ہیں۔ان سے ڈرے بغیر کام میں چستی جاری رکھیں اور دوام برقرار رکھیں ۔اگر نوکری پیشہ ہیں تو بھی اپنے ہنر کو پہچان کر متعلقہ شعبے کی تعلیم جاری رکھیں۔اوراگر اپنا کام ہے تو اس میں مزید بہتری کی کوشش کریں۔آنے والا دور نوجوانوں کا ہے اس لیے ابھی سے اپنے آپ کو تیار کریں۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں