جنرل مشرف آئین سے بالاتر ہیں؟

بغاوتیں تو پاکستان کی ایک تاریخ ہے جس کا آغاز 1958 کے ایوبی مارشل لا سے ہوا تھا لیکن جنرل مشرف کا مارشل لا ان تمام مارشل لاؤں سے بہت ہی مختلف اور پاکستان کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ اس مارشل لا نے پاکستان کا مزاج ہی بدل کر رکھ دیا اور ایک ادارے کو بہرلحاظ اتنا خود مختار بنا دیا کہ وہ اب شاید ہی کسی حکومت کی دسترس میں آ سکے۔

پاکستان کے قانون کے مطابق آرمی چیف کا تقرر پاکستان کی حکومت ہی کیا کرتی تھی۔ ملک کا وزیر اعظم کسی بھی وقت بنا عذر یا بوجوہ، دونوں صورتوں میں جب بھی چاہتا آرمی چیف کو عہدے سے سبک دوش کرسکتا تھا اور کسی جنرل کو بھی ترقی دے کر آرمی چیف کے عہدے پر متمکن کر سکتا تھا۔ صدر مملکت وزیر اعظم کے فیصلے کی توثیق کردیا کرتے تھے۔

آئین و قانون کے مطابق ہوتا اب بھی ایسا ہی ہے لیکن اب آرمی چیف کی تقرری کا اصل فیصلہ آرمی ہی کرتی ہے، وزیراعظم فیصلے کو قبول کرتا ہے اور صدر تو محض دستخط ہی کیلئے ہوا کرتا تھا سو اب بھی وہ اسی کام کی تنخواہ وصول کرتا ہے۔

آرمی چیف کی تقرری یا سبک دوشی پاکستان میں کبھی بھی کوئی برامنانے کی بات سمجھی ہی نہیں گئی تھی اور ملک کا نظام 1999 تک اسی طرح چلتا رہا تھا۔

جنرل مشرف کے زمانے میں نواز شریف کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ آرمی چیف سے اختلافات کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پاکستان میں ہی کیا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں اور توقع کی جارہی تھی کہ اس ڈرامے کا پردہ کسی وقت بھی گر سکتا ہے۔ اس وقت کی حکومت نے آرمی چیف کی سری لنکا میں سرکاری مصروفیت کا فائدہ اٹھا تے ہوئے ایک جانب مشرف کے سبکدوشی کے احکامات جاری کئے تو دوسری جانب جنرل ضیا الدین کی تقرری کے احکامات جاری کرتے ہوئے پاک فوج کی کمان ان کے حوالے کردی۔ جنرل ضیاالدین نے نہ صرف فوری طور پر اسی قبول کر لیا بلکہ ایکشن لیتے ہوئے اہم سرکاری عمارتوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ یہ بات آرمی کے اس وقت کے سیٹ اپ کو شاید گوارہ نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی حکومت نے اس سے قبل ایسا اہم فیصلہ اتنی عجلت اور بھونڈے انداز میں کیا تھا چناں چہ جنرل پرویز مشرف کو، جو اب قانونی اعتبار سے جنرل ہی نہیں رہے تھے کیونکہ جن اتھارٹیز نے ان کو اس عہدے پر متمکن کیا تھا ان ہی اتھارٹیز نے ان کے سارے اختیارات واپس لیکر جنرل ضیاالدین کو آرمی چیف بنا دیا تھا، اپنا دورہ مختصر کرکے واپس پاکستان آنا پڑا۔ ان کے پاکستان آنے سے قبل ہی یہاں کے کورکمانڈرزمشرف کے حق میں متحد ہوچکے تھے اور حالات پر قابو پا چکے تھے۔ وہ مشرف جو اب قانونی لحاظ سے آرمی چیف تھے ہی نہیں، اس کی سرکردگی میں صحیح معنوں میں مارشل لا نافذ کر چکے تھے۔ اگر ان حالات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ سولین حکومت اور خود فوج کے خلاف فوج نے مارشل لا کا لگا یا تھا۔ یہ اللہ کا بہت بڑا کرم اور احسان ہے کہ اس دوہرے مارشل لا کے باوجود پاکستان خونریزی سے بچ نکلا ورنہ پاکستان کا نہ جانے کتنا نقصان ہوتا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کے مقدمے میں ان کا بیان قلمبند کرنے کے لیے خصوصی عدالت کی جانب سے کمیشن کی تشکیل کے فیصلے پر پاکستان میں اردو ذرائع ابلاغ نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ پیر کو عدالت نے کہا تھا کہ چونکہ جنرل مشرف نے ویڈیو لِنک پر بیان دینے سے انکار کر دیا ہے لہذا اس مقصد کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔

دنیا جانتی ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف بغاوت کا یہ کیس بھی نواز شریف کی حکومت نے ہی قائم کیا تھا لیکن اب دونوں کا فاصلہ اگر برسوں میں کیا جائے تو 14 برس بنتے ہیں اور اگر حکومتوں کی ٹوٹ پھوٹ کو سامنے رکھا جائے تو درمیان میں کئی حکومتوں کی تبدیلیاں آتی ہیں۔

بغاوت کے اس مقدمے کی بنیاد آئین پاکستان کو توڑنا ہے۔ آئین پاکستان کی پامالی آئین میں غداری جیسا جرم ہے اور غدار کی سزا موت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ اس سلسلے میں پرویز مشرف کو بہت پریشانیوں سے گزرنا پڑا اور آخر کار ان کو ملک سے باہر ہی پناہ لینا پڑی۔ ملک سے باہر جاکر کسی بھی صورت واپس نہیں آنے کا ارادہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شاید ان کیلئے آئینی راستہ کوئی نہیں ہے علاوہ اس کے کہ وہ اپنے آپ کو آئین و قانون کے حوالے کردیں اور پھر جو بھی عدالت حکم سنائے اسے قبول کر لیں۔

خیال یہی ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسا راستہ نہیں جس پر چل کر وہ رہائی کی منزل تک پہنچ سکیں اس لئے اب وہ کسی بھی آئینی بات کو قبول کرنے میں احتراز سے کام لے رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل مشرف گزشتہ تین چار سال سے شدید ذہنی دباؤ میں ہیں۔ ان پر 3 نومبر 2007 کو ہنگامی حالت نافذ کرنے کے جرم میں بغاوت کا مقدمہ چل رہا ہے۔ ویسے تو ان پر دوہری بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے جس کا آغاز 1999 کے اس مارشل لا کی صورت میں ہوا تھا جس میں انھوں نے بیک وقت فوج اور سول حکومت کے خلاف قدم اٹھایا تھا لیکن کیونکہ مارشل لا کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات کو بزور شمشیر عدالت کے ذریعےجائز قرار دلوادیا تھا اس لئے 2007 کے قدم کو ہی جواز بنانا شاید حکومت وقت کی مجبوری تھی۔ سنہ 2007 کی ایمرجنسی کے نفاذ کو بنیاد بنا کر سنہ 2014 میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں جنرل مشرف پر بغاوت کے اس مقدمے کو وقت ضائع کرنے کا نام دیا ہے۔ ان کے خیال میں وہ عدالت کے محبوب اور قانون کے لاڈلے ہیں۔ راقم کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر یہ بات سچ ہوتی تو ان پر قائم مقدمات کسی نہ کسی طرح ختم ہو سکتے تھے جبکہ جنرل مشرف بے شک ملک سے باہر ہیں لیکن ان پر قائم مقدمات اسی طرح موجود ہیں جن کا سامنے بہر صورت ان کو کرنا ہی پڑے گا۔

ایک پروگرام میں ماہرِ قانون بابر ستار کا کہنا تھا کہ اگر ملزم عدالت میں پیشی سے معذور ہو تو وہ ویڈیو لِنک پر اپنا بیان ریکارڈ کرنے کی استدعا کر سکتا ہے۔ قانون میں کس چیز کی کتنی گنجائش ہے اور کتنی نہیں، اس کا جواب تو قانونی ماہر بابر ستار کے جیسے ہی جانتے ہوں گے لیکن فی الحال جو بات سامنے کی ہے وہ یہی ہے کہ پرویز مشرف نے ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کروانے سے بھی انکار کردیا ہے۔

ماضی قریب میں یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ ایسے سارے ملزمان جو عدالت میں پیش ہونے سے بچنے کیلئے دوسرے ملکوں میں پناہ لے لیتے ہیں ان کو کسی نہ کسی طرح گرفتار کرکے ملک میں لایا جاتا رہا ہے۔ کیا سابق جنرل مشرف کو بھی ایسے ہی لایا جائے گا یا لایا جاسکتا ہے؟۔

اب جبکہ عدالت جنرل مشرف کو مفرور قرار دے چکی ہے اور ایف آئی اے کو حاضر عدالت کرنے کا حکم بھی صادر کر چکی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایف آئی اے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی قدم اٹھائی گی جیسا دیگر مطلوبین اور ملزمین کے لئے اٹھاتی رہی ہے یا پرانا امتیازانہ سلوک کا رویہ جاری رکھا جائے گا؟۔

یہ بات بھی محسوس کی گئی ہے کہ کیونکہ جنرل مشرف پاک فوج کے سالار بھی رہے ہیں اس لئے فوج اس بات میں مانع ہے کہ ان پر کوئی مقدمہ چلایا جائے اور خاص طور سے بغاوت جیسا مقدمہ تو ایک گزاش تو یہ ہے کہ قانون کو اپنا راستہ خود نکالنے دیا جائے اور اس کے راستے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ خواہ کسی بھی لاجک کو پیش کرکے ایک ادارہ کو اتنا اہم کردیا جائے کہ اس کے خلاف کسی بھی شکایت کو ملک اور ریاست کی سلامتی بنادیا جائے، پھر بھی اس بات کو تسلیم کئے بغیر کہ ملک کی سلامتی ممکن نہیں جب تک پاکستان کا ہر ادارہ بہر کیف حکومت ہی کے تحت کام کرے۔ اگر حکومت کا سب سے بڑا عہدہ (وزارت عظمیٰ) بھی قانون اور آئین سے ماوریٰ نہیں تو پھر کسی حاضر یا ریٹائرڈ جنرل کا بھی آئین و قانون سے بڑا ہونا نہیں بنتا۔ لہٰذا اگر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کسی مقدمے میں عدالت کو مطلوب ہیں تو اداروں کو ان کی موجودگی اور عدالت میں ان کی حاضری کو یقینی بنانے کیلئے کسی لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہیے اور عدالت میں ان کی حاضری یقینی بنانا چاہیے۔

یہ بات ایک طے شدہ اصول ہے کہ انصاف جب تک سب کیلئے یکساں نہیں ہوگا ظلم کا راستہ کسی بھی صورت نہیں روکا جاسکتا۔ جب تک امیر، غریب، کالے، گورے، با اختیا اور بے اختیارکوانصاف ایک آنکھ سے نہیں دیکھے گا اس وقت عوام میں پائی جانے والی بے کلی اور بے چینی ختم نہیں ہو سکتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان میں صحیح معنوں میں قانون اور انصاف کی حکومت قائم ہو سکے گی؟۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں