صحافت ،کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے

صحافت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کرہ ا رض پر انسانی زندگی کی داستان۔صحافت کی داغ بیل اسی دن ڈالی جا چکی تھی جب انسان نے اپنے خیالات کو اشاروں، رنگوں ،روشنیوں اور تصویروں کی شکل میں دوسروں تک پہنچانے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔ بعد مرور زمانہ زبانوں اور رسم الخط کی ایجاد کے بعد کاغذ کی تیاری اور چھاپہ خانوں کا قیام عمل میں آیا اور صحافت و ابلاغ کا سفر اور تیز سے تیز تر ہوتا چلاگیا۔لفظ صحافی اور صحافت عربی لفظ صحیفہ سے مشتق ہیں ۔صحیفہ اللہ رب العزت کی جانب سے انسانی رہنمائی کے لئے نازل کردہ کتاب کو کہتے ہیں۔اس اعتبار سے صحافت درست رہبری و رہنمائی والاپیشہ اور صحافی ایک رہبر و رہنماکے کلیدی منصب پر فائز قابل احترام شخص ہوتا ہے۔ صحافی وقت پر نہ صرف اپنے حصے کا سچ بولتا ہے بلکہ سچ کے اظہار، عوامی رہنمائی اور صراط مستقیم پر قائم رہنے پر پیش آنے والی مشکلات کا ثابت قدمی سے سامنا بھی کرتا ہے۔صحافی انسانی مسائل کے حل میں اپنے قلم کو ایک موثر ہتھیار کے طورپر استعمال کرتا ہے۔ صحافت کا قلم سے لیکر کمپیوٹر تک کا سفر مصائب ،صبر و تحمل ایثار و قربانی اور تبدیلیوں سے بھرا ہوا ہے۔صحافت کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ آمریت پسند افراد،حکومتوں اور سرمایہ داروں کے عتاب کے باوجود پورے استقلال اور جذبے سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ اولوالعزم ،بہارد صحافیوں نے پریس سنسر شپ اور ان پر قاتلانہ حملوں کے باو جود صحافت کی اعلیٰ اقدار کا ہمیشہ تحفظ کیا ہے۔ بے شمار مسائل مصائب اور متعدد سامراجی ہتھکنڈوں کے باوجود صحافت دنیا کو امن و سکون کا مسکن بنانے میں مصروف عمل ہے۔ صحافیوں نے اپنی قربانیوں سے پیشہ صحافت کے وقار و احترام میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ صحافت(Jounalism/Media) ریاست کے چار بنیادی ستون مقننہ (Legislation)، عدلیہ(Judiciary) اورانتظامیہ(Administration) میں چوتھا ستون ہے۔ملک کے عوام جن اعلیٰ دماغ افراد کو ایوان مقننہ تک قانون سازی کے لئے بھیجتے ہیں وہ عوامی فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال کر خواص کے مفادات کے تحفظ کے لئے قانون سازی میں توانیاں صرف کرتے ہیں یا پھر اپنے فرائض سے منہ موڑ کر حکومت بنانے،بچانے اور توڑنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔عدلیہ کی تقدیس و عظمت تو ایسی اعلیٰ ہے کہ اس پر تنقیدکا مطلب ہی توہین اور غداری نکلتاہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں انتظامیہ (Administration)کا کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن یہ بھی سست روی،کام چوری اور رشوت کا شکار ہے۔انتظامیہ عوام دشمن رویوں کی وجہ سے ہر دم تنقید کے نشانے پر ہے ۔اچھے لوگوں کی کارکردگی نے جہاں انتظامیہ کی نیک نامی کو متاثر ہونے سے بچا ئے رکھا ہے وہیں کام چور اور راشی عہدیداروں سے عوام نالاں و پریشاں ہیں۔چوتھا ستون صحافت یا میڈیا جس سے عوام کو کم سہی لیکن شکایت ضرور ہے یہی ایک واحد ادارہ ہے جو فلاح و بہبود اور عوامی مسائل کے حل میں اپنا کلیدی کردار انجام دے رہا ہے۔عوامی نمائندے اور قانون ساز افراد تک سماجی مسائل کو پہنچانے اور انھیں حل کروانے میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ذرائع ابلاغ کی وجہ سے عدالتیں ازخود نوٹ لیکر قانونی اور دستوری عمل کو نافذ کرتی ہیں۔انتظامیہ کو مستعد اور قابو میں رکھنے میں میڈیا کا فعال کرداررہا ہے۔میڈیا مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ کوفعال رکھنے میں اہم کردار انجام دیتی ہے۔ صحافت جسے معاشرے کا چوتھا ستون کہا گیا ہے در حقیقت دیکھاجائے توباقی تین ستوں کی صحت و برقراری اسی چوتھے ستون کی کارکردگی پر منحصر ہے۔زیر نظر مضمون میں معاشرے کے چوتھے ستون(صحافت) کا اجمالی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

صحافت کا اصولی پیمانہ

دور حاضر میں عو امی مسائل اور نظریات کی ترویج میں صحافت کے کردار کا سبھی نے اعتراف کیا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کے مطابق “If You Want to Change the World,Pick Up Your Pen and Write”(اگر آپ دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں تو اپنا قلم اٹھاؤ اور لکھنا شروع کردو)۔ لوگ صحافت کوجتنا آسان سمجھ رہے ہیں درحقیقت یہ پیشہ اتناآسان نہیں ہے بالخصوص عہد حاضر میں جہاں ہر شئے بکاؤ بن چکی ہے اور مال بٹورنا ہر کسی کا شیوہ و شعار بن گیا ہو۔بہ زبان علامہ اقبالؒ
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
تاریخ کا ایک مشہور واقعہ اہل علم حضرات کیذہنوں میںیقیناًتازہ ہوگا۔افلاطون ایک دن اپنے استاد سقراط کے پاس دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا ،استاد بازار میں ایک شخص آپ کے بارے میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔سقراط افلاطون سے پوچھتا ہے کہ اس نے کیا کہا ہے۔افلاطون کے جواب دینے سے پہلے ہی سقراط اسے روک دیتا ہے اور پوچھتا ہے ’’ کیاتمہیں یقین ہے کہ جو بات تم مجھے بتا نے جارہے ہو وہ بات سو فیصد سچ ہے؟افلاطون نفی میں سرہلاتا ہے۔ سقراط کہتا ہے ’’پھر جو بات سچ نہیں ہے اسے بتانے کا کیا فائدہ؟ اور پوچھتا ہے ’’جو بات تم مجھے بتانے جارہے ہو کیا یہ اچھی بات ہے؟‘‘ افلاطون کہتا ہے کہ’’ نہیں استاد محترم یہ توبری بات ہے۔‘‘سقراط کہتا ہے ’’ کیا تمہیں اپنے استاد کو بری بات بتانی چاہئے؟افلاطون انکار میں سر ہلاتا ہے۔سقراط افلاطون سے پھر سوال کرتا ہے ’’جو بات تم مجھے بتانے جارہے ہو کیا یہ میرے لئے فائدہ مند ہے؟‘‘افلاطون پھر انکار میں سر ہلاتا ہے ۔سقراط مسکرا کر کہتا ہے ’’ جو بات میرے لئے فائدہ مند نہیں تو پھر اسے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
سقراط افلاطون کو نصیحت کرتا ہے کہ کوئی بھی بات عام کرنے یا بتانے سے پہلے اسے تین اصولوں پر جانچ لینا چاہئے۔(1)کیا بات سو فیصد درست ہے؟(2)کیا بتائی جانے والی بات اچھی ہے؟(3) کیا بتائی جانے والی بات سننے والوں کے لئے مفید ہے ؟
سقراط نے ہزاروں سال قبل صحافت کے تین نہایت معتبر اصول وضع کیئے ہیں جن پر آج اور ہرزمانے کے صحافی کو کاربند ہوناضروری ہے۔خبروں کی اشاعت سے قبل صحافی خبر کی صداقت کا پتا لگائے۔خبر کی اچھائی برائی اور حسن و قبیح پر نظر دوڑائے۔خبر کی افادیت اور سود و زیاں پر بھی غورو خوض کرے۔آج صحافت کو ان تین کسوٹیوں سے گزرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ صحافی خود کو فضول نکتہ چینی،چغل خوری،تہمت بیانی اور گمراہ کن پروپگنڈے سے محفوظ رکھ سکیں ۔پیشہ صحافت سے وابستہ ہر شخص کو عقل و دانش سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔خبروں کے لئے سرگرداں و پریشاں رہنے والے فرد کو صحافی نہیں کہتے ہیں بلکہ صحافی وہ ہوتا ہے جو نوشتہ دیوار پڑھ لیتا ہے۔حالات کی تبدیلی سے عوام کو باخبر رکھتا ہے۔واقعات میں نہاں پس منظر اور پیش منظر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔واقعات کا حقیقی اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتا ہے۔صحافی کے قلم سے نکلا ہر حرف اور زبان سے نکلا ہر لفظ سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے۔صحافی صرف حالات و واقعات کو اپنی خبروں کی زینت نہیں بناتا ہے بلکہ واقعات کے ظہور کے اسباب اور اس کے سد باب کے لئے تجاویز بھی پیش کرتا ہے اور ارباب مجاز کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی جانب متوجہ کرتا ہے۔عصر حاضر کے ذرائع ابلاغ مادہ پرستی کی دوڑ میں تہذیب،شائستگی،رواداری ،اخلاقیات اور مذہبی نظریات کو پس پشت ڈال رہے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان نسل بے راہ روی اور گمراہی کا شکار ہورہی ہے۔میڈیا خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یاالکٹرانک میڈیا بے بنیاد ،جھوٹی ،اشتعال انگریز خبروں،متصادم جذباتی سیاسی اور مذہبی نظریات کے فروغ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں لگے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں مذہبی،طبقاتی ٹکراؤ ،قتل و غارت گری ،نفرت وانتقام کے جذبات کا دوردورہ ہے۔برہنگی و فحش نگاری کو اخلاقی اقدار پر ترجیح دینے سے سماج بحران کا شکار ہوچکا ہے۔

صحافت کا دائرہ اثر وفکر سازی

آج عوامی فکر میڈیا کے زیر اثرپروان چڑھ رہی ہے۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ میڈیا کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔رائے عامہ ہموار کرنے و بگاڑنے میں میڈیا اہم کردار انجام دے رہا ہے۔حقیقی تناظر میں حق و سچ کو پیش کرنا ہی دراصل حقیقی صحافت ہے۔صحافت آزادی اظہار کا نام ہے ۔ باشعور سماج کی تعمیر صحافت کی اہم ذمہ داری ہے۔ صحافت معاشرے کو ظلم و استبداد کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر روشنی سے متعارف کرنے کا نام ہے۔صحافت قوموں کی فکر سازی اور نظریاتی تبدیلی میں ایک کارگر وسیلے کا کام کرتی ہے۔قوموں کے عروج و زوال میں صحافت کا اہم رول ہوتا ہے۔عوامی ذہن سازی اور فکر سازی میں صحافت کے کردار کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔معلومات کی پیش کشی کے دوران حقیقت بیانی ،سچ جھوٹ،صحیح غلط،خبر کے تمام ممکنہ زاویوں اور امکانات پر روشنی ڈالنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔معلومات کے حصول اور عوام تک اسے پہنچانے کے دوران کس طبقے کے مفادا ت کا خیال رکھنا،کس فرقے کے لئے نرم گوشہ رکھنا اور کسے نظرانداز کرنا کے پیچھے خبر بنانے ،نشر کرنے اور ادارے کو چلانے والے افراد کے ذہن کارفرما ہوتے ہیں۔ عوام تصویر کا وہی رخ دیکھ پاتے ہیں جو انہیں دکھایا جاتا ہے، پرنٹ میڈیا ہویا الیکٹرانک، غیر معیاری اور من گھڑت معلومات عوامی رائے کو ہمیشہ آلودہ کر دیتے ہیں۔صحافت سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرتے ہوئے انسانی دماغوں کو اپنی چنگل میں قید کرلیتی ہے پیرس سے شائع ہونے والا جریدہ ’ ’این کاؤنٹر ‘‘(پیرس ریویو) اس کی ایک عظیم مثال ہے۔’’این کاؤنٹر‘‘دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں کمیونزم اور مارکسی نظریات کا سب سے بڑا نقیب بن کر طلوع ہوا۔انتہائی باشعور اور بالغ مارکسی ذہنوں کی توانیاں اس جریدے کی مقبولیت کے پیچھیکارفرما تھیں۔دنیا بھر سے موصول ہونے والے مضامین کا بین الاقوامی مارکسی نظریات کے قدآور افراد پر مبنی ادارتی کمیٹی جن کا جائزہ لیتی اورتجزیہ و تبدیلی کے بعد میگزین کی زینت بنایا جاتا اور مضمون کے ترجمے کے ساتھ اس کے اصل متن کو بھی من و عن شائع کردیا جاتا تاکہ کوئی شائبہ نہ رہے۔یہ حیرت کی بات ہے کہ ’’این کاؤنٹر‘‘ کی اشاعت کے دس پندرہ سال بعد معلوم ہوا کہ دنیا جسے کمیونزم کی بائبل سمجھ رہی تھی دراصل وہ امریکی سی آئی اے(CIA)ایجنسی کا منصوبہ تھا۔امریکی خفیہ ادارے کے چند معمولی کارندے پوری کمیونسٹ دنیا کو بے وقوف بناتے رہے ۔عرصے بعد امریکی عہدیدار نے انکشاف کیا کہ بلاشبہ’’ این کاؤنٹر ‘‘ جریدے میں کوئی امریکی شامل نہیں تھا لیکن امریکی خفیہ ادارے کے کارندے دنیا کے کونے کونے سے کمیونزم کے بارے میں غیر لچکدار اور کڑے مضامین لکھایا کرتے تھے جس کی وجہ سے این کاؤنٹر کے پلیٹ فارم سے اشتراکی نظریات کے حامل لوگوں کوبے لچک،متشدد اور سخت موقف کا حامل گردانتے ہوئے عوام نے انہیں رد کردیا اور ان کے خلاف مزاحمتی تحریکیں شروع ہوئیں اور امریکی کاز کو تقویت حاصل ہوئی۔
اس واقعہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو آج مذہبی منافرت ،اسلام دشمنی ،اسلام کو دہشت گردی سے وابستہ کرنے میں ایسی ہی صحافتی فکر کارفرما نظر آتی ہے۔صحافت کا انسانی ذہن سازی میں کلیدی کردار ہوتا ہے جو شخص اس فرض منصبی سے انصاف نہیں کرسکتا ہے ضروری ہے کہ وہ اس پیشہ کے تقدس کو پامال نہ کرے اور اس سے دورہی رہے۔صحافت سچ و حق کو پیش کرنے کا نام ہے۔تعمیر انسانیت اس کا وصف خاص ہے۔گمراہی اور عدم آگہی کی ظلمتوں سے معاشرے کو حقائق کے روشن میدان میں لانا صحافت کا اہم کام ہے۔مکر و فریب پر مبنی صحافت صحافتی اعتبار کو پامال کرنے کے ساتھ واقعات کی تاریخی حقیقتوں کو بھی بے وقعت کردیتی ہے اسی لئے خبروں کو اعتبار کے لائق اور متوازن بنانے کے لئے صحافتی اخلاقیات کاتعین نہایت ضروری ہے۔آج کل صحافت پر سیاسی اثرات کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔آج کوئی نہ کوئی صحافی ،کالم نگار،اینکرکسی سیاسی جماعت کا موید و ہمدرد نظر آتا ہے۔سیاسی جماعتوں کے فریب و لغو کو جان بوجھ کر اپنے خوب صورت الفاظ میں چھپا کر ایسا پیش کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قد اور شان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ان مکروہ افعال کی انہیں منہ مانگی قیمت حاصل ہوتی ہے ۔اس کے برعکس ایسے باضمیر صحافی بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے صحافت محترم اور پروقار کہی جاتی ہے۔آج کے ذرائع ابلاغ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشے سے جڑے افراد کی ایک بڑی تعداداس احساس سے عاری ہے کہ ان کی ذراسی کوتاہی،غیر ذمہ داری امن و سلامتی اور ملک و قوم کے لئے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔ہرمعاشرے میں برائیاں اور اچھائیا ں پائی جاتی ہیں۔.برائیو ں کو حکومت کی نوٹس میں لانا اور اچھائیوں کی تعریف کرنا ایک صحافی کی ذمہ داری ہے۔.ایک صحافی میں یہ اوصاف ضرور ہونے چاہئے کہ وہ ایمان دار ، سچا ، بہادر ، اور حکومت کی آنکھوں میں آنکھ ڈالنے والا ہو۔سماج کے ادنیٰ سے لیکر اعلیٰ افراد ایک صحافی کو سر آنکھوں پر بیٹھاتے ہیں اس کا لحاظ کرتے ہیں بالفاظ دیگر خوف کھاتے ہیں۔ صحافی کو چاہئے کہ وہ اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کرے۔اقتدار کی غلام گردشوں کی دربانی نہ کرے ورنہ پورے کا پورا معاشرہ تباہ و برباد ہوجائے گا۔

صحافت کا اسلامی تصور

اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیا کو صحیفے عطاکیئے۔ ان صحیفوں کو قرآن میں ’’ صحف مطہرہ ‘‘ (البینہ: 2) اور ایک مقام پر’’صحف مکرمۃ (عبس:31)کہا گیاہے۔ ن دو آیات کی روشنی میں جہاں ہمارے سامنے صحافت کی خصوصیات ابھر کر آتی ہیں وہیں اس کی آزادی کے حدود بھی صاف اور متعین نظر آتے ہیں۔اسلامی نظریہ کے مطابق صحافت کی آزادی وہاں تک ہے جہاں تک اس کی طہارت اور پاکیزگی متاثر نہ ہو۔ صحافت کو اسی قدر ہی آزادی حاصل رہے جو اسے پاکیزہ خیالات ، احساسات او رجذبات سے دور نہ کرے۔ جوخیالات و نظریات پاکیزگی کے عنصر سے مبر ا ہوں ، ایسی آزادی اسلام کے تصور صحافت کے خلاف متصور ہوگی۔دوسروں کی طہارت و پاکیزگی پر حملہ آور صحافت بھی اسلامی اصولوں اور اسلام کے تصورآزادی صحافت کے مغائر ہے۔کوئی صحافی کسی کی ذاتیات کو اپنی صحافت کا موضوع نہ بنائے بلکہ حکمت اور دانائی سے ہر برائی کو منظر عام پر لائے ۔معاشرے کی ہر برائی پر نظر رکھے اور کبھی بھی کسی بات سے غافل نہ رہے۔صحف مکرمہ سے مراد صحافت کا ایسا تصور ہے جو اعزاز و اکرام کا نہ صرف سرچشمہ ہے بلکہ اس پیشے سے وابستہ افراد ایسی سنجیدگی اور متانت کے حامل ہوں کہ لوگ انھیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھیں۔اسلامی صحافت کا تصور صحافیوں سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ آزادی صحافت کی ایسی حدود میں رہیں جہاں دوسروں کی عزت پامال نہ ہو۔ آزادی صحافت کی آڑ میں اسلام کسی کی بھیعزت اچھالنے کی اجازت نہیں دیتا۔اسلامی صحافت کا نظریہ صحافیوں کوکسی بھی شخص کے تمسخر سے باز رکھتا ہے۔اسلام صحافیوں سے تقاضہ کرتا ہے کہ ان کے قول و فعل سے کسی کی شخصیت پر حرف نہ آئے اور آزادی صحافت کے نام پر کسی قوم کے جذبات و احساسات ہرگز مجروح نہ ہوں۔
موجودہ صحافت خاص کر اردو صحافت اپنے بنیادی اصول اور مقاصد سے منحرف و برگشتہ ہوچکی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہے ۔آج اردو اخبارات و جرائد مسلمان بن کر رہ گئے ہیں۔یہ صرف مظلومیت ،احتجاج اورمطالبات کی زبان جانتے ہیں۔یہ عوام میں تعمیری جذبات،مثبت فکر،جذبہ عمل اور الوالعزمی پیداکرنے سے کوسوں دور ہیں۔ اگر اس رجحان پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے نتائج بے حد خطرناک آسکتے ہیں جس کا اندازہ قائم کرنا بھی مشکل ہوگا۔

صحافت اور صحافتی ذمہ داریاں

سماج صحافیوں سے صرف قصیدہ سرائی کا مطالبہ نہیں کر تا بلکہ یہ صحافیوں سے مثبت ،تعمیر ی تنقید کا طلب گار ہے جو ایک صالح معاشرے کی تعمیر و تکمیل میں معاون ہو۔ صحافت معاشرتی ناہمواریوں کو مٹانے میں اپنا احسن کردار اداکرے۔ خبروں پر تحدید عائد کرنے کے بجائے صحافی ملک و قوم کے مفادات کوپیش نظررکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ بے شک صحافی بھی اسی مادی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں ان کی اپنی زندگی اور مسائل بھی ہیں جن کا حل بے حد ضروری ہے ۔معاشرے میں بسنے والے ہر فردکے مسائل جب تک حل نہیں ہوں گے ہم نہ تو ترقی کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہمارے بنیادی مسائل حل ہو پائیں گے۔صحافیوں کے زبان و قلم سے نکلے ہوئے حرف و لفظ سے جہاں قوم کی تقدیر سنوارسکتی ہے وہیں بگاڑ اور خرابی کا احتمال بھی لگا رہتا ہے اسی لئے صحافیوں کو غایت درجہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔صحافت کی ذمہ داریوں کواللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت سمجھ کر اسے احسن طریقے سے اداکریں تاکہ روز قیامت اللہ کے حضور شرمندگی سے بچاجاسکے۔صحافی قلم و زبان کی اہمیت کو سمجھیں اس کی حرمت و عصمت کا پاس رکھیں اور خیال رکھیں کہ جو بھی خبر بیان لکھیں اس کو غیر جانبدرانہ انداز میں من و عن لکھیں ۔خبر میں اپنی مرضی اور مفاد کو شامل نہ کریں۔قوم و ملت کو آج سچے ایماندار صحافیوں کی اشد ضرورت ہے۔سچ لکھیں،سچ پیش کریں۔منفی خبروں کے بجائے مثبت خبروں پر توجہ مرکوز کریں اور مثبت خبروں کو اہمیت دیں۔سچ کہنا ،حق لکھنا کسی جہاد سے کم نہیں ہے صحافی قوم و ملت کی فلاح و بہبو د کے لئیخود پراس جہادکو لازم کرلیں۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں