آخر ایسا کیوں؟

            ایک دن اونٹ اور اُس کے بچے کے درمیان مکالمہ شروع ہو گیا۔ بچے نے اونٹ سے پوچھا کہ ہماری کوز (کُب) کیوں ہوتی ہے؟ تو اونٹ نے جواب دیا تاکہ ہم صحرا میں پانی کی قلت سے متاثر نہ ہوں اور زندہ رہ سکیں ۔بچے نے کہا اچھا یہ بتائیں کہ ہمارے پاؤں گول کیوں ہوتے ہیں؟ تو اونٹ نے جواب دیا تاکہ ہم صحرا میں آسانی سے چل سکیں اور ہمیں کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے۔ بچے نے کہا ٹھیک ہے لیکن ہماری آنکھوں کی پلکیں اتنی لمبی کیوں ہیں؟ تو اُونٹ نے بہت ہی اطمینان سے جواب دیا کہ یہ لمبی پلکیں صحرا کی ریت سے ہماری آنکھوں کی حفاظت کرتی ہیں ۔ اونٹ کا بچہ تھوڑی دیر خاموش رہا اور پھر کہنے لگا کہ اگر اِن سب چیزوں کا فائدہ ہمیں صحرا میں ہوگا تو پھر ہم چڑیا گھر میں کیا کر رہے ہیں۔

            میاں شہباز شریف اِس وقت زیر حراست ہیں ۔ یہ دس سال لگاتار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ اگر یہ واقعی ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ اگر واقعی اِن کے دور میں پنجاب نے ترقی کی ہے۔ اگر واقعی  لوگ اِن کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں تو پھر انہیں اسمبلی میں ہونا چاہیے تھا۔ یہ جیل میں کیا کر رہے ہیں۔

            جواب ہے کرپشن !

            اگر انہوں نے کرپشن کی ہے تو پھر اِس کی سزا ان کو ضرور ملنی چاہیے ۔ کیونکہ ملک پہلے اور افراد بعد میں آتے ہیں لیکن اگر محض نواز شریف کی طرح الزام لگا کر بعد میں کچھ ثابت نہ ہو سکا تو پھر یہ  شہباز شریف کےساتھ زیادتی ہوگی۔

            شریف برادران کچھ عرصے سے یکے بعد دیگرے مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ممکن ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہو۔ کسی کو اقتدار دے کر اور کسی سے اقتدار لے کر۔ میاں نواز شریف پہلے پانامہ لیکس کی وجہ سے وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پھر پارٹی قیادت اِن کے بھائی کو منتقل ہوگئی۔ الیکشن میں اِن کی پارٹی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پھر بیگم کلثوم نواز کا انتقال اور اب شہباز شریف زیر حراست ۔ یہ سب واقعات اپنی جگہ لیکن اِن سب سے ہٹ کر میں آپ کی توجہ اُس ایک پوائنٹ کی طرف لے کر جانا چاہتا ہوں جو کافی عرصے سے ہمارے ملک کی سیاست اور میڈیا کے ٹاک شوز میں زیر بحث ہے اور وہ پوائنٹ ہے۔

کیا نوازشریف اور شہباز شریف گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی سیاست کر رہے ہیں یا پھر واقعی اِن دونوں کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ میاں برادران ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ اِن کی سیاست دو اصولوں پر ٹکی ہوئی ہے۔

لیڈر شپ اور ریلیشن شپ۔

اگر ان دونوں بھایئوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کا ساتھ چھوڑ دے تو اِن کی سیاست کا اختتام ہو جائے گا۔ شریف فیملی کے اِس حال کا ذمہ دار اور کوئی نہیں یہ خود ہیں۔ آپ موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیں تو اِن کی ناکامی کی وجہ اِن کا ساتھ ہو کر بھی ساتھ نہ ہونا ہے۔ اگر نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی کی ریلیشن شپ کی پالیسی اِن کو اختیار کرنے دیتے۔ اگر یہ بھائی کے مشوروں کو مان لیتے تو آج شاید حالات مختلف ہوتے۔ اِس کے برعکس اگر شہباز شریف اپنے بھائی کے بیانیے کو پوری طرح اپنا لیتے۔ اگر یہ اُس رات لاہور ائیر پورٹ پہنچ جاتے۔ اگر یہ بھائی کے جیل جانے کے بعد لیڈر شپ پالیسی کو فالو کرتے تو شاید ن لیگ کو اتنا نقصان نہ اُٹھانا پڑتا۔ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا  کہ چاہے جو بھی ہوا میاں شہباز شریف اپنے بھائی کے خلاف نہیں گئے۔ انہوں نے اپنے مختلف مؤقف کے باوجود اپنے بھائی کا ساتھ دیا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ اپنے بھائی کے بیانیے کوپوری طرح اپنا نہیں سکے۔ اِن کے قول و فعل میں ایک واضع تضاد تھا جو اِن کے اس حال کا باعث بنا۔

            آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ موجودہ حکومت جس راستے پر چل پڑی ہے اگر اِس نے یہ راستہ نہ چھوڑا اور ڈیلیور کرنے کی بجائے صرف باتیں کرتی رہی اور اپوزیشن پر تنقید کرتی رہی تو پھر شریف فیملی ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں ہوگی۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں