“دنیا میں اتنے غم ہیں”

مالک مکان نے پریشان کرکے رکھا ہوا ہے ” وہ ممّا کو بتارہی تھیں۔ “ابھی شفٹ ہوئے صرف دس دن ہوئے ہیں کہ مکان مالکن کا میسج آگیا کہ بجلی کا بل دس دنوں کا 2300 آیا ہے، بجلی گیس کے علاوہ نو ہزار میں دو کمروں کا چھوٹا سا آسیب زدہ گھر ملا ہے شکایت پر مالکن کہتی ہے کہ جن نہیں بزرگ ہیں گھر میں۔۔۔۔یہ مہینا جیسے تیسے گزار لوں پھر گھر بدلوں گی پچھلی مالکن نے تو ایڈوانس واپس نہیں کیا اور یہ والی کہہ رہی ہے کہ چھ ماہ کا ایگریمنٹ ہوا ہے اُس سے پہلے گھر چھوڑا تو ایڈوانس واپس نہیں کروں گی۔۔اچھا میں چلتی ہوں اب ڈاکٹر سے وقت لیا ہوا ہے سانس لینے میں بہت مشکل ہورہی ہے آج کل۔ اُنہوں نے گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا اور۔۔۔۔۔وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرکے چلی گئیں۔

“بیچاری کتنی پریشان ہیں” انکے جانے کے بعد ہم نے ممّا سے کہا۔

“ہاں بہت دکھ ہے اسکی زندگی میں۔۔۔بچپن سے اس نے بہت سختی جھیلی ہے” ممّا بتانے لگیں ” جب چودہ سال کی تھی تو پورے گھر کا کام اکیلے کرتی تھی جھاڑو، پونچھا، برتن، کپڑا اور ساتھ تینوں وقت کا کھانا بنانا اور آٹھ چھوٹے بہن بھائی کو سنبھالنا۔۔۔۔۔

“یہ سوتیلی تھیں کیا ؟؟؟” ہم سے صبر نہ ہوسکا تو بات کاٹ کر پوچھا۔

“نہیں اس کے ابو اس سے بہت پیار کرتے تھے پر ماں سخت تھی”۔

“تو وہ اتنے سارے کام کرنے سے انکار کردیتیں” ہم نے فوراً کہا۔

جب انکار کرتی تھی تو اُس دن کھانا نہیں ملتا تھا اسے۔۔۔۔۔بچپن سے خالہ کے بیٹے سے رشتہ طے تھا پر بڑے ہوجانے پر بیٹے نے شادی سے انکار کردیا پھر ایک جگہ بات طے ہوگئی لڑکے والے میٹھائی وغیرہ لے کر آئےمنگنی کی رسم ہوئی اگلے روز ان لوگوں کو جانا تھا کہ انکے والد کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا لڑکے والوں نے منگنی توڑ دی، تین سال بعد ایک جگہ اور  بات پکی ہوئی شادی کی تاریخ بھی طے ہوگئی ، شادی سے چند دن پہلے جس کمرے میں اس کا جہیز تھا اس میں آگ لگ گئی اور سارا سامان جل گیا۔۔۔لڑکے والوں نے لڑکی منحوس ہے کہہ کر رشتہ توڑ لیا ، پھر کچھ عرصے بعد ایک اور رشتہ آیا اور شادی بھی ہوگئی۔۔۔۔۔

“شکر الحمداللہ ” ہم نا چاہتے ہوئے بھی بیچ میں بول اُٹھے۔

“آگے سنو۔۔۔۔اُس مرد نے شادی کے بعد دوسری اور پھر چند سالوں کے وقفے کے بعد تیسری شادی کرلی اور اسے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا، اس کا بڑا بیٹا میٹرک میں آیا تو باپ نے اپنے پاس بلا لیا دو بیٹے اور ہیں جو ابھی چھوٹے ہیں۔” ممّا نے اُن کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

“ممّا ایسا کیوں ہے کہ کسی کو بچپن سے کبھی کوئی خوشی نہیں ملتی؟؟؟ آخر کسی کسی کا نصیب اتنا بُرا کیوں ہوتا ہے ؟؟” ہمیں دل سے اُن کا دکھ محسوس ہورہا تھا۔

“نصیب بُرا نہیں ہوتا۔۔۔ اللہ نے کسی کا نصیب بُرا نہیں بنایا۔۔۔اللہ تعالیٰ تو انسان کو تکلیف میں اس لیے مبتلا کرتے ہیں کہ وہ اُس سے قریب ہو، اُس سے لو لگائے، اپنی پریشانی کو اس کے بارگاہِ الٰہی میں پیش کرے، دعا کے ذریعے اپنے نصیب کو بدلے کیونکہ ” دعا انسان کی تقدیر بدل دیتی ہے ” لیکن افسوس کہ اس نے کبھی اس بات کو نہیں سمجھا اور نماز اور دعائوں سے دوری نے آج اِسے دربدر کی ٹھوکر کھانے پر مجبور کیا ہوا ہے ۔” ممّا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

بے شک اللہ کے سامنے جھکنے اور اس سے ماگنے میں ہی سرور و سکون ہے۔۔۔۔اور اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اُس نے ہمیں اس بات کا شعور عطا کیا ہے اور ایمان کے ساتھ اپنی ہر نعمت سے نوازا ہے۔۔۔۔۔اللہ رب العزت ہمیں اپنا شکر گزار بنائیں ۔ ” ہم نے اپنی زندگی کا جائزہ لے کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں