عالمی یوم خوراک

1979ء سے ہر سال 16 اکتوبر کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں “عالمی یوم خوراک” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنا اور اس کے ساتھ خوراک کی کمی کے مسئلہ پر عوام میں آگاہی پیدا کرنا، بھوک، ناقص خوراک اور غربت کے خلاف جدوجہد میں عالمی اتحاد قائم رکھتے ہوئے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے۔

فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن “FAO” اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے جو اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات اور سیمینار کا انعقاد کرتا ہے۔

دنیا بھر میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، مختلف ممالک میں خانہ جنگی کی صورت حال اور قحط سالی کے شکار خطوں میں کروڑوں افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ بالخصوص یمن، شام، اور میانمار (برما) سے ہجرت کرکے بنگلہ دیش آنے والے مہاجرین کی حالت ابتر ہے۔

گلوبل ہنگر انڈیکس 2018ء جائزہ رپورٹ کے مطابق خوراک کی کمی کے شکار دنیا کے 119 ممالک میں پاکستان 106ویں نمبر پر ہے۔ خطے کے دیگر ممالک میں ہندوستان 103، بنگلادیش 86، جبکہ افغانستان 111 ویں نمبر پر ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں غذائی قلت کا اس سطح پر ہونا انتہائی تشویشناک ہے۔ خوراک میں کمی کی ایک بڑی وجہ غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ بھی ہے، مہنگائی کے باعث غریب افراد اپنی آمدنی کا 70 فیصد خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستانی عوام ایک ایسے استحصالی اور شرمناک نظام میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں، جہاں اُنہیں “IMF” ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملک کے وسائل پر مسلط چند فیصد مافیا نے زندہ درگور کر رکھا ہے۔ نہ علاج کرانے کےلیے پیسے ہیں اور نہ پیٹ بھرنے کا کوئی مستقل سہارا۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ ”ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق پاکستان کے 60 فیصد افراد کی آمدن یومیہ دو ڈالر یا اڑھائی سو روپے سے بھی کم ہے، جبکہ 21 فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے بھی ملک میں خوراک کی قلت اور اس کے عام لوگوں پر پڑنے والے اثرات پر متعدد بار تشویش کا اظہار کیا ہے۔

 غذائی قلت کے حوالے سے سندھ میں تھر کا علاقہ عالمی سطح پر شہ سرخیوں میں رہا ہے، رواں سال اب تک خوراک کی کمی کے باعث 400 سے زیادہ بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔ہزاروں حاملہ خواتین بدستور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اسپتالوں میں زیر علاج بچوں میں سے بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جن کا پیدائشی وزن ایک کلو گرام تک ہوتا ہے۔ ان بچوں کے وزن کو بڑھانے کے دوران وہ بچ نہیں پاتے اور وفات پا جاتے ہیں۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو اموات سے بچانے کے لیئے ان کی ماؤں کو دوران حمل اچھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ تا کہ زچگی کے دوران کم وزن کے بچے پیدا نہ ہوں۔ جن بچوں کا پیدائشی وزن کم ہوتا ہے انہیں بچانا مشکل ہوتا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے ہزاروں بچوں کی اموات کے باوجود حکومتوں نے حاملہ خواتین کی غذائیت کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ غیر سرکاری فلاحی ادارے “فلاح انسانیت فاؤنڈیشن” نے تھر میں اس حوالہ سے مختلف منصوبہ جات پر کام کرتے ہوئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، جس کی بدولت بچوں کی اموات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک طرف جہاں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ میسر نہیں وہیں دوسری طرف روزانہ لاکھوں ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے، بدقسمتی سے مسلم ممالک کھانا ضائع کرنے میں بھی سرفہرست ہیں۔

 ایک تحقیق کے مطابق کھانے کی بربادی میں سعودی عرب دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب کے غذائی بینک نے مملکت میں کھانا ضائع کرنے پر ایک ہزار ریال جرمانے کی تجویز پیش کی ہے، تاکہ بچ جانے والے کھانے کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ پاکستان میں بھی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں 40 فی صد تک کھانا ضائع کیا جاتا ہے۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

 ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے اور ایک روٹی کا ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا دیکھا آپﷺ نے اس کو اٹھایا، صاف کیا اور کھالیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا اچھی چیز کا احترام کیا کرو، روٹی جب کسی سے بھاگتی ہے تو لوٹ کر نہیں آتی۔

اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں رزق کے ضائع کرنے اور کفرانِ نعمت سے بچائے۔ اسراف اور کنجوسی سے بھی بچا کر درمیانی راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں