خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں

جسارت بلاگ میں ہفتے کے روز شائع ہونے والے کالم میں میں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکہ سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی یا قتل کئے جانے کے ممکنہ امکانات کی وجہ سے امریکہ سعودی عرب سے اپنے تعلقات کشیدہ کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میں نے امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا تھا کہ ایک بڑی تقریب میں صدر ٹرمپ نے بہت تضحیک آمیز انداز میں ایک بات کا ذکر کیا تھا کہ سعودی شاہ کا تخت و تاج امریکہ کی وجہ سے بچا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم (امریکہ) ان کی حفاظت پر مامور اپنے شیطانوں کو واپس بلالیں تو سعودی عرب کے بادشاہ اپنے تخت و تاج کو ایک ہفتے بھی نہیں بچا سکتے۔

صدر ٹرمپ کا یہ بیان کس پس منظر یا کس سیاق و سباق کے حوالے سے تھا اس کا علم شاید ہی کسی کو ہو اس لئے اس بیان سے قبل کوئی ایک بات بھی ایسی سامنے نہیں آئی تھی جس کو یہ سمجھا جاتا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کسی رنجش نے سر ابھار نا شروع کردیا ہے۔ معاملات بالکل درست سمت جاتے ہوئے نظر آرہے تھے کہ صدر امریکہ کے اس بیان نے دنیا بھر کے کان کھڑے کر دیئے۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد سعودی حکومت کی جانب سے رد عمل تو آنا ہی تھا۔ سعودی حکومت نے صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد صاف صاف اور واضح الفاظ میں جو بات کہی وہ بہر لحاظ درست تھی۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ہم امریکہ سے جو کچھ بھی لے رہیں وہ بلا معاوضہ نہیں۔

ان دونوں بیانات کی روشنی میں راقم نے قیاس کیا تھا کہ سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی یا ممکنہ قتل کئے جانے امکانات سے امریکہ سعودی عرب پر اپنا دباؤ بڑھا سکتا ہے اور سعودی حکومت کی جانب سے دیئے گئے بیان پر امریکہ لازماً اپنا رد عمل سعودی عرب سے دور ہوجانے کی صورت میں دے سکتا ہے۔ راقم نے اس خدشے کو کچھ اس طرح دیکھا تھا کہ سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ایک طویل مدت سے کبھی مثالی نہیں رہے اور جبکہ یہ واقعہ ترکی میں پیش آیا ہے امریکہ اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کریگا اور سعودی حکومت پر اپنے دباؤ میں اضافہ کرکے یا تو سعودیہ سے کئے گئے بہت سارے معاہدوں کو توڑنے کا جواز بنائے گا یا پھر اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کریگا۔

راقم نے لکھا تھا کہ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں سعودی شاہی خاندان کے مشیر کی حیثیت سے کام کرنے والے صحافی خاشقجی سعودی ولی عہد کی حالیہ اصلاحات اور سنہ 2030 ویژن کے تحت ملک کو جدید بنانے کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مزید برآں سعودی حکومت نے گذشتہ سال تنقید نگاروں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تو جمال امریکا منتقل ہو گئے تھے۔ وہ اس وقت سے وہیں مقیم ہیں اور خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ترک میڈیا کے مطابق حکام اس کیس کو بغور دیکھ رہے ہیں اور توقع ہے کہ منگل تک جاری تفتیش کو بڑھایا جائے گا۔ ترک ذرائع نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا ابتدائی شک سعودی سفارت خانے میں عملے پر ہے جہاں ان کے مطابق جمال کو قتل کر دیا گیا ہے اور یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا اور قتل کے بعد ان کی لاش کو وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔

یہی نہیں، خاشقجی کی اس پر اسرار گمشدگی کے متعلق امریکہ نے نہ صرف اس گمشدگی کو قتل قرار دیا تھا بلکہ امریکی حکومت نے اس بات کا دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس کے پاس آڈیو اور ویڈیو، دونوں طرح کی ریکارڈنگ موجود ہے جس اے یہ بات صاف صاف ثابت ہوتی ہے کہ خاشقجی کو قتل کر دیا گیا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کی لاش کو سفارت خانے سے کسی اور جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔

ترکی اور سعودی عرب کے درمیان برس ہا برس کی کشیدگی کی خلیج کو مزید بڑھانے کا موقع امریکہ کیلئے اور کیا ہوسکتا تھا سو ثابت ہو رہا ہے کہ امریکہ اس سنہری ( امریکی نقطہ نظر سے) موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھا نے پر تیار ہو گیا ہے۔

اتوار 14 اکتوبرکو امریکی سینیٹ میں یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے کہ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں کہ سعودی صحافی کو ترکی میں قائم سعودی ایمبسی کے اندر قتل کیا ہے تو سعودی عرب پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوا کہ سعودی عرب کا ہاتھ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے موت میں ہے تو وہ اسے ‘سخت سزا’ دے گا تاہم انھوں نے یہ نہیں کہا کہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ کیے جانے والے بڑے فوجی معاہدے منسوخ کر دے گا یا نہیں۔ یہ تازہ ترین بیان راقم کے اس خدشے کی کہ امریکہ سعودی صحافی کے قتل کو جواز بنا کر سعودی عرب سے یا تو دوری اختیار کرنا چاہتا ہے یا اس پر مزید دباو ڈالنا چاہتا ہے، کو تقویت ملتی ہے۔

قارئین کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ امریکہ کے مشورے پر ہی سعودی عرب نے تمام عرب ممالک کی ایک مشترکہ فوج تشکیل دی تھی اور ایک بہت بڑی تقریب میں صدر ٹرمپ نے کھرب ہا کھرب ڈالرز کے عوض اس فوج کیلئے جدید ترین ہتھیار فراہم کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ اگر اس کو یوں دیکھا جائے کہ امریکہ کو اپنی بگڑتی ہوئی اقتصادی صورت حال کو بہتر کرنے کیلئے ڈالرز چاہئیں تھے تو وہ تو ایک ہی جھپٹے میں حاصل ہو گئے تھے۔ اب مزید کیلئے اس کی منصوبہ بندی کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ ڈالرز کے تحت اگر سعودیہ کو ہتھیار دئے جاسکتے ہیں تو سعودی مخالف ممالک کو کیونکر فراہم نہیں کئے جاسکتے؟

اب آگے کی صورت حال کیا ہوگی یا کیا نہیں، امریکہ کی اس بدلتی ہوئی پالیسی پر سعودی عرب کی جانب سے جو بیان سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کی وجہ سے اس پر کسی بھی قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے خلاف کسی بھی کارروائی کے جواب میں اس سے بڑا ردعمل سامنے آئے گا۔ سعودی حکام اس الزام کی تردید کرتے ہیں صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا ہے۔

یہ صورت حال کوئی اچھی نہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بڑی دراڑ پڑ چکی ہے اور فی الحال اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ پڑنے والی دراڑ پاٹی جا سکے۔ اس صورت میں مزید کیا ہونے والا ہے اس بات کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ سعودی حکام نے رد عمل کے طور پر جو یہ کہا ہے کہ وہ “اگر سعودی صحافی کی گمشدگی یا قتل کو جواز بنا کر سعودیہ کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو وہ امریکہ کے خلاف شدید رد عمل دے گا” تو شدید رد عمل کیا ہو سکتا ہے کیونکہ بظاہر سعودی عرب اس پوزیشن میں نظر نہیں آتا کہ وہ امریکہ کے خلاف کوئی موثر کارروائی کر سکتا ہے۔

رد عمل کے طور پر اگر سعودی عرب کوئی جوابی کارروئی کر سکتا ہے تو وہ تیل کا ہتھیار ہے۔ شاہ فیصل کے زمانے میں ایسا ہو بھی چکا ہے جس کی وجہ سے امریکہ بہت دباؤ میں آگیا تھا لیکن یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس نازک گھڑی (امریکہ کے نقطہ نظر سے) میں ایران ہی وہ واحد ملک تھا جس نے امریکہ کیلئے تیل کی سپلائی بند نہیں کی بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بہت تیزی کے ساتھ اپنی پیداوار میں اضافہ کرکے امریکہ کی گرتی ہوئی اقتصادی صورت حال کو سنبھالا دیا۔ اگر سعودی عرب تیل کا ہتھیار استعمال کرتا ہے جو اس کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ امریکہ اب بھی ایران میں بیٹھا ہوا ہے اور ممکن ہے کہ درپردہ وہ ایران کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ بھی کرچکا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا، یہ بہت غور طلب بات ہے جس پر بلا سوچے سمجھے قدم اٹھا لینا غیر دانشمندانہ کارروائی ہوگی۔

سعودیہ امریکی پابندیوں کے خلاف کیا کرسکتا ہے اور کیا کیا کئے جانے کے آپشنز ہیں، اس سے صرف نظر کرتے ہوئے جو گھمبیر صورت حال سعودیہ کو سامنا ہے وہ یہ ہے کہ جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد بین الاقوامی برادری کے ساتھ کشیدہ ہوتے ہوئے تعلقات کے باعث آج یعنی اتوار کو سعودی عرب کی سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان رہا۔ تقریبا ًدو گھنٹے کی تجارت کے انڈیکس سات فیصد تک گر گیا جو دسمبر 2014 کے بعد سب سے بڑی گراوٹ ہے، جب تیل کی قیمتیں گر رہی تھیں۔ خطے کی سب سے بڑی تیل کی کمپنی سعودی بیسکس انڈسٹریز کی حصص میں 7.9 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔

سعودی حکومت کیلئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خاشقجی کے معاملے کی آزادنہ تحقیق کرائے اور جو بھی حقیقت ہو وہ دنیا کے سامنے لائے۔ اگر ترکی میں سعودی سفارت خانہ اس جرم قبیح میں ملوث ہے تو سعودی قوانین کے مطابق فیصلہ سنایا جائے اور جو جو بھی سیاہ سفید ہو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ امریکہ سے تعلقات بے شک توڑے بھی جاسکتے ہیں لیکن ہر بات کے ہر ہر پہلو کا خوب اچھے انداز میں جائزہ لینا ضروری ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ کسی بھی معاملے میں کوئی فیصلہ نہ تو جلد بازی میں کیا جائے گا اور نہ ہی جذباتی انداز میں کیا جائے گا بلکہ ہر معاملے کا خوب جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی حتمی قدم اٹھایا جائے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں