سعودی صحافی کی گمشدگی، حقیقت کیا ہے؟

یہ بات اپنی جگہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ صحافی بڑی جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اور اس فرض شناسی کی وجہ سے وہ بعض اوقات بڑی مشکل میں پھنس جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ قتل تک کر دیئے جاتے ہیں۔ حقیقت کی تلاش میں ایسا ہوتا ہی ہے کیونکہ ہر حقیقت کسی نہ کسی کیلئے بہت تلخ ثابت ہوتی ہے۔ وہ فرد ہو، افراد ہوں، گروہ ہوں، پارٹیاں ہوں یا حکومتیں، سبکی سے بچنے کیلئے ہر حد تک جاسکتی ہیں۔

ترکی میں معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی پر اسرار طریقے سے لاپتہ ہو گئے ہیں۔ ایسا ہوا بھی ترکی ہی میں ہے۔ ترکی میں حکام نے معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ وہ گذشتہ منگل کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے تھے لیکن پھر اس کے بعد سے نظر نہیں آئے۔ جمال خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے کالم نویس ہیں اور وہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بڑے ناقد رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کو ترک حکام کی جانب سے دیے گئے بیان کے مطابق ان کو شبہ ہے کہ صحافی کو سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات ضرور ہے کہ خبر رساں ادارے نے نہ تو اس سلسلے میں کوئی ثبوت پیش کیا ہے اور نہ ہی اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ اگر ان کو قتل کیا گیا ہے تو کیسے کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں سعودی حکام کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان تو نہیں آیا ہے البتہ سعودی سفارت خانے کی جانب سے ترک حکام کے الزام کی تردیک ضرور کی ہے۔

صحافی بہت بڑا اثاثہ ہوتے ہیں اور اگر کسی دوسرے ملک میں ہوں تو ان کی حفاظت کی ذمے داری اسی ملک کی ہی ہوتی ہے جس میں وہ موجود ہوں۔ صحافی ہی کیا، کوئی بھی غیر ملکی اگر کسی ملک میں ہو اور اس کے ساتھ کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے تو جواب دہی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ اب کیونکہ سعودی صحافی ترکی میں لاپتہ ہوا ہے اس لئے ترک حکام کا پریشان ہونا بے معنیٰ نہیں۔ ان کیلئے ایسا ہونا سخت خفت کا معاملہ ہے اور یوں بھی ہے کہ ترکی اور سعودیہ کے خارجی تعلقات بہت مثالی بھی نہیں ہیں۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بلوم برگ نیوز سے بات کرتے ہوئے ترک الزامات کی نہ صرف تردید کی بلکہ انھوں نے ترک حکام کو دعوت دی ہے کہ وہ سفارت خانے کا جائزہ لے لیں۔

یہاں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں سعودی شاہی خاندان کے مشیر کی حیثیت سے کام کرنے والے صحافی خاشقجی سعودی ولی عہد کی حالیہ اصلاحات اور سنہ 2030 ویژن کے تحت ملک کو جدید بنانے کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مزید برآں سعودی حکومت نے گذشتہ سال تنقید نگاروں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تو جمال امریکا منتقل ہو گئے تھے۔ وہ اس وقت سے وہیں مقیم ہیں اور خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔

ترک میڈیا کے مطابق حکام اس کیس کو بغور دیکھ رہے ہیں اور توقع ہے کہ منگل تک جاری تفتیش کو بڑھایا جائے گا۔

ترک ذرائع نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا ابتدائی شک سعودی سفارت خانے میں عملے پر ہے جہاں ان کے مطابق جمال کو قتل کر دیا گیا ہے اور یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا اور قتل کے بعد ان کی لاش کو وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔

یہ ضروری نہیں کہ ترک حکام کے الزامات درست ہی ہوں لیکن یہ بات تو اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ بہر حال ترکی میں موجود ایک صحافی لاپتہ ہو گیا جبکہ اس کو آخری مرتبہ ترکی میں سعودی سفارت خانے کے اندر جاتے دیکھا گیا تھا۔

ابھی چند دن قبل امریکہ کے صدر ٹرمپ نے سعودیہ کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے بڑے طمطراق کے ساتھ یہ کہا تھا کہ سعودی شاہ اگر تخت پر متمکن ہیں تو وہ ہماری وجہ سے ہیں اگر ہم ان کے تحفظ پر مقرر فوجی دستوں کو واپس بلالیں تو وہ تخت شاہی پر ایک ہفتے بھی براجمان نہیں رہ سکتے۔ ان کے اس پر غرور بیان پر شاہ کی جانب سے ایک وضاحتی بیان آیا تھا جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ اس میں امریکہ کی کوئی خوبی نہیں اس لئے کہ ہم جو کچھ بھی ان سے لے رہے ہیں اس کے عوض ان کو معاضہ دے رہے ہیں۔ اگر اس نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے امریکہ اس موقع سے ضرور کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھائے گا۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ جمال خاشقجی کو ایک 15 رکنی سعودی ٹیم نے قتل کیا ہے جو بالخصوص اسی مقصد کے لیے سعودی عرب سے ترکی آئی تھی۔ یہ دعویٰ اس بات کا غماز ہے کہ امریکہ اس نازک موقع سے فائدہ اٹھا کر ترکی اور سعودی عرب کے بیچ خلیج کو اور بڑھانا چاہتا ہے تاکہ سعودی حکومت کو مزید دباؤ میں لے سکے۔

بی بی سی کے مارک لووین نے کہا کہ اگر جمال خاشقجی کی موت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات جو پہلے سے ہی سرد مہری کا شکار ہیں، مزید خراب ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ گذشتہ سال سعودی عرب نے مشرق وسطی میں اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر پڑوسی ملک قطر کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں لیکن اس سفارتی جنگ میں ترکی نے قطر کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ ترکی نے ایران کے ساتھ بھی تعلقات استوار کیے ہیں جسے سعودی عرب خطے میں اپنا سب سے بڑا حریف تصور کرتا ہے۔

ایک جانب امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ترک حکام کو ایسے آڈیو اور ویڈیو شواہد ملے ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی پر تشدد کر کے انھیں استنبول میں سعودی سفارت خانے میں قتل کیا گیا ہے تو دوسری جانب تازہ امریکی رپورٹس کے مطابق سفارتخانے میں حملے اور لڑائی جھگڑا ہوا۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا ترک حکام کے علاوہ کسی اور نے یہ ریکارڈنگ سنی ہے یا نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ جمال خاشقجی پر تشدد کرتے ہوئے لوگوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں قتل کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔

ان رپورٹوں اور امریکہ صدر کے حالیہ بیان کی روشنی میں راقم یہ بات کہنے میں کوئی تردد کا شکار نہیں کہ امریکہ دونوں ممالک کے درمیان دوریوں کو بڑھانا چاہتا ہے اور اس گمشدگی کو بہر صورت قتل قرار دیکر ایک نیا فتنہ کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ ایسے نازک حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ دونوں جانب سے الزام تراشیوں کی بجائے اس واقعے کی مکمل تحقیق کی جائے۔ سعودی شاہ اور حکومت کی جانب سے تو پیشکش سامنے آہی چکی ہے لیکن ابھی تک ترک حکام کی جانب سے ایسی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔

فریقین کو چاہیے کہ وہ امریکی یا کسی غیر ملکی ایجنسی کی رپورٹوں کی جانب دھیان دینے کی بجائے از خود آزادانہ تحقیقات کریں۔ اگر یہ تحقیقات مشترکہ ہوں تو اور بھی اچھا ہے۔ معاملہ کیونکہ بہت اہم ہے لہٰذا برد باری کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔

ایک اچھی خبر یہ ہے کہ آج یعنی جمعے کو ایک سعودی وفد ترک انتظامیہ کے ساتھ مشترکہ تحقیقات میں شامل ہونے کے لیے انقرہ پہنچا ہے۔ یہ وفد ایسے وقت پہنچا ہے جب ایک دن قبل ہی سعودی شاہی شخصیت شہزادہ خالد الفیصل کے ترکی کے مختصر دورے پر پہنچنے کی خبر سامنے آئی تھی۔ ان کے آنے کی وجہ کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ سعودی شاہی خاندان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی بحران کا جلد از جلد حل چاہتا ہے۔

یہ ایک مستحسن قدم ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک خارجی تعلقات کے اس بحران سے اپنے آپ کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اگر اس میں امریکہ کی کوئی شرارت ہے تو اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں