احتساب کیسا ہونا چاہیے؟

کہتے ہیں کہ”تن سکھی تو من سکھی” جب کھانے کو ملتا ہے تو عقل ٹھکانے رہتی ہے۔ہمارا ملک اس وقت معاشی بحران سے دوچار ہے۔ملک میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے۔قومی خزانہ خالی ہے۔سٹاک ایکسچینج میں نقصان در نقصان ہورہا ہے۔جب ملک میں خزانہ خالی ہے تو ملک کیسے ترقی کرے گا اور کیسے معاشی نظام کو بہتر بنائے گا۔بدقسمتی سے جو بھی اس ملک کے اقتدار پر قابض ہوا ہے اس نے اپنی جمع پونجی کی اور نکل پڑے۔موجودہ حکومت بھی اپنے دعووں اور 100 دن والے پروگرام میں ناکام نظر آرہی ہے۔بہر کیف جب تک سانس تب تک آس۔

ملکی معیشت کو بہتر بنانےکیلئے احتساب کا عمل تیز ہونا چاہیے اور یہ احتساب کا عمل بلاتفریق ہونا چاہیے۔جس ملک میں کرپشن کم ہو وہ ملک بہت تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے احتساب کا عمل بہت ضروری ہے۔احتساب ایسا ہو کہ جس سے ملک اور عوام کا فائدہ زیادہ ہو نہ کہ ایسا احتساب ہو کہ جس سے مخصوص مفادات کا فائدہ ہو۔

ہمارے ملک میں بھی احتساب کے لیے “نیب” کا ادارہ قائم کیا گیا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ یہ ادارہ وہ کام سرانجام دینے میں کلی طور پر ناکام رہا ہے جو کام سرانجام دینے چاہیے تھے۔6 مئی 2016 کو سابق مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین پر نیب نے 462 ارب روپے کی کرپشن میں فرد جرم عائد کیا۔ڈاکٹر عاصم حسین پر الزام تھا کہ اس نے گیس کی مصنوعی قلت پیدا کی،سی سی آئی کو غلط معلومات دیں،غلط معلومات دینے سے یوریا کی قیمتوں پر اثر پڑا جس سے یوریا کی فی بوری قیمت 850 روپے سے بڑھ کر 1830 تک پہنچ گئی،ضیاء الدین ہسپتال کی تعمیر کے لیے غیر قانونی طور پر زمین حاصل کی۔ان سب کے نتیجے قومی خزانے کو 2012 سے 2013 تک 450 ارب سے زائد کا نقصان پہنچا۔مزے کی بات یہ ہے کہ انکی پیشیاں ہوتی رہیں،کبھی تو استثناء ملا،کبھی تو پیش نہیں ہوئے اب اتنا عرصہ دراز ہوگیا لیکن نتیجہ تک نہیں نکلا۔احتساب کا عمل بہت سست روی سے جاری ہے اور اس سست روی سے قومی خزانے کو مزید نقصان ہورہا ہے۔اس احتساب سے عوام اور ملک کا کیا فائدہ ہوا  اور کتنی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی گئی؟۔

14 مارچ 2015 کو بینظیر انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے دبئی جاتے ہوئے ایان علی کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب دوران تلاشی ان کے سامان سے 5 لاکھ 6 ہزار آٹھ سو امریکی ڈالر برآمد ہوئے۔اس پر منی لانڈرنگ کیا چلا اور ایسا چلا کہ اب تک چل ہی رہا ہے۔ایان علی کی منی لانڈرنگ کے تانے بانے بلاول ہاوس سے ملے جہاں سے اس نے چودہ کالز کیں۔6 اکتوبر 2018 کو سماعت کے دوران ملزمہ ایان علی غیر حاضر رہی اور کیس کی مزید سماعت 22 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔ ملزمہ اب تک بیماری کی بناء پر حاضر ہونے سے استثناء پر تھیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ جب کسی بڑے مگر مچھ پر ھاتھ ڈالا جاتا ہے تو وہ جلدی سے بیمار ہوکر بیرون ملک علاج کے لیے چلاجاتا ہے؟۔اور علاج یا کاروبار کے بہانے موج مستی کی زندگی جی رہا ہوتا ہے۔کیا اسی احتساب سے ملک ترقی کرے گا؟۔عدالت اور عوام کا وقت ضائع کیا جاتا ہے اور ملزم جان بوجھ کر پیش نہیں ہوتے،یہاں تک کہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد بھی مزے سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔احتساب کا یہ عمل عوام اور ملک کیلئےکسی صورت موزوں نہیں۔

یاناما کیس میں 400 سے زائد پاکستانیوں کا نام آیا۔ان میں سے ایک سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی تھے۔ نواز شریف پر الزام تھا کہ انھوں نے برطانیہ میں غیر قانونی رقم سے ایون فیلڈ کے مقام پر فلیٹس خریدے۔نواز شریف کی کرپشن پر لکھی گئی امریکی مصنف”ریمنڈ ڈبلیو بیکر” کی کتاب “capitalism,s archilles hell” میں نواز شریف کی کرپشن کے بارے میں دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے گئے ہیں۔کتاب میں لکھا گیا ہے کہ”نواز شریف نے اپنے ادوار حکومت میں قومی خزانے سے 418 ملین امریکی ڈالرز کی کرپشن کرکے بیرون ملک اثاثے بنائے۔140 ملین ڈالرز کی نواز شریف نے بنکوں سے قرضہ کے نام پر لوٹ مار کی ہے۔چینی کی سبسڈی کے نام پر نواز شریف نے 60 ملین ڈالر قومی خزانے سے لوٹے”۔ کتاب میں حدیبیہ پیپرز مل کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے۔ جبکہ منی لانڈرنگ کے ذریعے 643 ملین روپے کا فراڈ بھی شامل ہے۔ریمنڈ ڈبلیو بیکر مزید لکھتا ہے کہ:نواز شریف نے بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کی خریداری میں کرپشن کے ذریعے مری میں جائیداد خریدیں۔کوہ نور مل کے نام پر 450 ملین لوٹے گئے”۔ اب حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب یہ کرپشن ہورہی ہوتی ہے تو  اس وقت ہمارا احتسابی ادارہ کہیں خراٹے مارتا ہوا گہری نیند سو رہا ہوتا ہے۔جب ملک کو لوٹ لیا جاتا ہے تو اس وقت اپنی بیداری کا ثبوت محض کیس چلا کر اور ہلکی پھلکی سزا دیکر دیا جاتا ہے۔اور ٹھوس ثبوت حاصل کرنے کے بجائے کمزور ثبوت پر فیصلہ دیکر اپنی حثیت عوام میں کم تر کرتا جارہا ہے۔اب دیکھیں نواز شریف نے کتنی کرپشن کی، اور اسے کتنی سزا دی گئی،کتنا جرمانہ عائد کیا گیا کیا ان سب سے عوام اور ملک کو کوئی خاطر خواہ فائدہ ہوا؟۔نواز شریف پر آٹھ ملین پاونڈ جرمانہ لگایا گیا اور 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔لگتا یہی ہے کہ یہ سزا صرف سنانے تک ہی محدود تھی۔

ملک میں جاری پکڑ دھکڑ سے غریب عوام کو نہیں بلکہ مخصوص مفادات کو فائدہ ہوگا۔کرپشن کی روک تھام اور احتساب کو مزید شفاف بنانے کے لیے تمام طبقات کا حساب ہونا چاہیے۔اور الزام ثابت ہونے پر کڑی سزا ہونی چاہیے اور جتنی کرپشن کی ہو وہ پوری دولت واپس لیکر قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔جن کرپٹ افراد کے خلاف ثبوت مل جائیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے۔تاکہ ملک کی معیشت مضبوط ہو اور کرپشن کی روک تھام ہوسکے۔احتساب کے عمل کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے اور روایتی طریقوں سے ہٹ کر سعودی ماڈل کو اپنا کر احتساب کا عمل جاری رکھا جانا چاہیے۔اور ہاں یہ احتساب کا دائرہ پرویز مشرف تک بھی وسیع ہونا چاہیے۔وگرنہ ہم یہی سمجھیں گے کہ “نیب” کسی کے اشاروں پر ناچ رہاہے۔احتساب ہو لیکن سب کا ہو۔

اب اس احتساب سے عوام اور ملک کا فائدہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس احتساب سے لوٹی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں جمع کرائی جائے، کرپٹ افراد سے کسی قسم کی نرمی نہ برتی جائے، احتساب کا عمل سالوں کے بجائے دنوں میں مکمل کیا جائے،آئے روز پیشیوں پر خرچ سے گریز کیا جائے،جو سزا سنائی جائے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے،کرپٹ نظام کے خلاف بے دریغ و بلا امتیاز کاروائی کی جائے،ٹھوس شواہد حاصل کرے انکی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔اب تک کے احتساب سے عوام اور ملک کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا کیونکہ کرپٹ افراد پر انکی کرپشن سے بہت کم مارجن کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔یک طرفہ احتساب سے نہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا اور نہ ہی عوام کا فائدہ اس لیے احتساب سب کا ہونا چاہیے۔”طویلے کی بلا بندر کے سر” والا کام نہیں ہونا چاہیے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں