مثل مشہور ہے کہ ایک صحت مند جسم میں صحت مند دماغ پایا جاتا ہے اور ایک کمزور جسم کمزور دماغ کا مالک ہوتا ہے۔صحت مند جسم کے لئے ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔بغیر ورزش اور کثرت کے ہمارا جسم کسل مندی ،سستی کاہلی اور کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔تعلیم کا مقصد ایک ہمہ جہت شخصیت کی تیاری ہوتا ہے۔ تعلیم میں جسمانی تعلیم کی اہمیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے۔معیاری تعلیم کے لئے جسم اور دماغ کی نشوو نماکو لازمی تصور کیاگیا ہے۔جسمانی ورزش اور کھیل کو د سے احتراز کی وجہ سے کئی جسمانی اور ذہنی عوارض جنم لینے لگتے ہیں۔ تعلیم کا مقصد صرف دانشمندی کا حصول نہیں ہے بلکہ زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کے لئے اچھی صحت اور تندرست جسم کی تیار ی بھی مقصود ہے۔اسی لئے جسمانی تعلیم اور کھیل کود تعلیمی نصاب کا ایک جزو لاینفک قرار دیا گیا ہے۔جسمانی تعلیم (کھیل کود ) کے بغیر تعلیمی نصاب کوو ادھورا کہاجاتا ہے۔جسمانی تعلیم (Physical Education)اور مختلف قسم کے کھیل (Sports and Games)طلباء کی جسمانی اور ذہنی نشو ونما کے لئے بے حد ضروری ہیں۔کھیل بچوں کے جسمانی اعضاء کو ورزش فراہم کرتے ہیں جو بچوں میں جسمانی نشوونما کا ایک اہم وسیلہ ہے۔کھیل بچوں کی جسمانی نشوونما کے علاوہ کردار سازی اور نفسیاتی تربیت میں معاون و مددگار ہوتے ہیں۔کھیل صحت مند زندگی کی علامت ،صحت و عافیت کے ضامن ،نشوونما میں معاون اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔بچے ایک ہی جگہ ساکت و جامد بیٹھے رہنے سے ذہنی طور پر تھک جا تے ہیں اور ان کا تعلیمی مظاہرہ بھی متا ثر ہوتا ہے۔کھیل کھیل میں تعلیم کے ذریعہ نہ صرف بچوں میں تعلیمی رغبت کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے بلکہ اسپورٹ مین اسپرٹ کے فروغ کے ذریعہ ان میں صبر و تحمل جیسی کیفیت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔تعلیمی کھیلوں کے استعمال سے نہ صرف بچے کھیل کھیل میں سیکھ لیتے ہیں بلکہ وہ درس و تدریس اور کھیل دونوں کی لذت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آج کے جد ید تعلیم ماحول میں کھیل کھیل میں تعلیم کا نظریہ موثر تدریس کے طور پر شرف قبولیت حا صل کرچکا ہے۔کھیلوں سے بچے نہ صرف چاق و چوبند اور صحت مند رہتے ہیں بلکہ کھیلوں سے و ہ محظوظ ا ور لطف اندوز ہوتے ہیں۔حقیقی مسرت کے حصول سے پڑھائی کا دباؤ بھی کم ہوجاتا ہے۔منفی رجحانات کا تدراک ہوتا ہے۔مایوسی کا سدباب اور غم غلط ہوجاتے ہیں۔بچوں کی الجھنیں اور پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔چہرے ترو تازہ ،شگفتہ اور خوشی سے سرشار نظر آتے ہیں۔کھیل کے ذریعہ بچے اپنے جذبات کی تسکین اور آسودگی کو یقینی بناتے ہیں۔کھیلوں سے بچوں کی شخصیت میں ہم آہنگی اور توازن پیدا ہوتا ہے۔بڑی جماعتوں کے بچوں میں صحت کی برقراری اور بہتری کے لئے کھیلوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔کھیل بچوں میں مسابقتی جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔بچوں میں پائے جانے والی توانائیوں کو صحیح سمت موڑا جا سکتا ہے۔اس نو خیز عمر میں بچوں کی توانائیوں کو اگر صحیح رخ نہیں دیا جاتا ہے تب وہ بے راہ روی کا شکا ر ہوکر اپنی صلاحیتوں کو تبا ہ و برباد کرلیتے ہیں۔ماہرین تعلیمات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کھیل بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔کھیل بچوں کو صحت مند ،تندرست،توانا اور چست رکھنے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہوئے ہیں۔بچوں میں دوستی کرنے کی صلاحیت کھیلوں کے ذریعہ فروغ پاتی ہے۔کھیل ان میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔کھیل بچوں کو ایک گوناں گو مسرت فراہم کرتے ہیں۔کھیل حصول علم میں لگن و رغبت پیدا کرتے ہیں۔بچوں میں جوش و جذبہ اور ولولہ کھیلوں کے ذریعہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔بچوں میں جوش و ولولہ کو مہمیز کرتے ہوئے ان کے تعلیمی سفر میں آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔ماہرین تعلیم،نفسیات ومعالجین کے مطابق کھیل بچوں کے مدافعتی نظام کو مضبوط اور طاقتور بناتے ہیں۔کھیل بچوں کو جسمانی تفریح کے علاوہ ذہنی سکون اور مسرت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔کھیل بچوں میں پڑھائی کے دباؤ کو ختم کرنے میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔کھیلوں سے بچوں میں مختلف الجھنوں اور پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اورمشکل سے مشکل حالات میں بھی ذہنی طو ر پر مفلوج نہیں ہو نے پاتے ۔تجربہ کار اساتذہ اور ماہرین تعلیم کھیل کو صرف کھیل کے نظریے سے نہیں دیکھتے ہیں بلکہ کھیل کو ایک مفید مصروفیت اور اہم سرگرمی کے درجے میں رکھتے ہیں۔بچوں کے ہاتھ پیر اور دماغ کے تمام افعال و سرگرمیاں کھیل کی وجہ سے مصروف عمل رہتی ہیں۔کھیل کے دوران بچوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی اصلاح کے ذریعہ بچوں میں اغلاط کی اصلاح کا جذبہ اور سیکھنے کا عمل فروغ پذیر رہتا ہے۔دوران کھیل حاصل ہونے والی کامیابیاں بچوں میں خوداعتمادی اور قلبی مسرت کے فروغ کا باعث ہوتی ہیں۔کھیل میں ناکامی بچوں میں صبر و تحمل اور قوت برداشت کو پروان چڑھاتی ہیں۔مشکل سے مشکل حالات میں بھی حوصلہ نہ ہارنے کی تعلیم کھیلوں کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے۔انفرادی کھیلوں کی بہ نسبت اجتماعی کھیلوں سے بچوں میں رغبت پیدا کرنا اہم ہوتا ہے۔اجتماعی کھیلوں کے ذریعہ بچوں میں سماجی تعلقات کو نبھانے اور معاشرتی زندگی کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ اجتماعی کھیل بچوں میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے سے صلاح مشورے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ان جذبات کے زیر سایہ بچے اپنی آنیوالی زندگی کے مسائل کو بڑی حد تک کامیابی سے حل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔کھیل کو د کے دوران فروغ پانے والے تعلقات اور بچپن کا یہ میل جول بچوں کو ایک ذمہ دار شہری اور اعلی اوصاف کا حامل انسان بنادیتے ہیں۔ان اوصاف کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنی ذات کو مستفیض کر تا ہے بلکہ ہر گھڑی دوسروں کی مدد کے لئے بھی تیار رہتا ہے۔کھیلوں کی نگرانی کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اس احساس کو جا گزیں کریں کہ وہ جن کے ساتھ کھیل میں حصہ لے رہے ہیں وہ ان کے ساتھی اور دوست ہیں تاکہ ان میں حسد ،عداوت ،نفرت اور جلن کے جذبات نہ سراٹھا سکیں اور صحت مند مقابلہ کا جذبہ ان میں پروان چڑھیں۔کھیلوں کے ذریعہ بچوں کی قوت تحیل کو بال و پر دینے کے علاوہ اساتذہ ان میں نظم و ضبط کو بھی فروغ دیں۔کھیل بچوں کے احساس اذیت ،غم و اندوہ اور احساس محرومی کو دور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔بچوں میں پائی جانے والی ناامیدی کو کھیلوں کے ذریعہ جوش و ولولے میں تبدیل کیاجاسکتا ہے۔کھیل بچوں میں مجروح جذبات اور منفی جذبات و رویوں کے اندمال کا سامان فراہم کرتے ہیں۔مغربی معاشرے میں احساس محرومی اور کمتری کے حامل طلباء کے لئے ماہرین تعلیمات و معالجین نے کھیل کو ایک بہترین مثبت اور محفوظ علاج کے طور پر تجویز کیا ہے۔جو بچوں میں نئی زندگی اور ولولہ پیدا کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔کھیل مجروح جذبات و ذہن کے لئے مرہم کا کام انجام دیتے ہیں۔جدید آلات (Modern Gadgets)کی وجہ سے بچوں کی جسمانی صحت کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ متعدد بیماریوں کے علاوہ موٹاپہ ،سستی ،کاہلی اور دیگر مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔کمپیو ٹر ،موبائیل اور آئپیڈ سے ان کی دلچسپی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔بچے ان آلات کو اپنے سامنے سے بٹانا بھی گوارہ نہیں کر رہے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ کسی دوسری جسمانی سرگرمی (کھیل کود) میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں اور خود کو چاردیورای تک محدود کر رہے ہیں۔یہ رجحان بچوں کی صحت کے لئے بہت ہی خطرناک ،مضر، اور نقصان دہ ثابت ہوگا۔ہماری نسل نو مختلف جسمانی عوارض و معذوریوں کا شکار ہوجائے گی ۔یہ ملک و قوم کی بہترین صلاحیتوں اور سرمایے کا اتلاف ہوگا۔تعلیم قوم کی تعمیر کا ایک اہم وسیلہ ہے اسی وجہ سے اساتذہ کو معماران قوم کہا جاتا ہے۔قوم و ملت کی تعمیر تعلیم ہی کے مرہون منت ہوتی ہے۔ قوم کو خوشحال ،طاقتور اور مہذب بنانے کے لئے جن عوامل کی ضرورت ہوتی ہے وہ تعلیم ہی فراہم کرتی ہے۔ہماری نسل نو جنھیں ہم آج بچوں سے تعبیر کررہے ہیں وہی کل معلم،مفکر ،سائنسدان ،سیاستدان،قانودان،ڈاکٹر،انجینئر اور دیگر فرائض کو انجام دیں گے۔قوم کو ہمیشہ اچھے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو حق پرست،حق کے دائی،ذمہ دار قابل بھروسہ و لائق اعتبار ،جذبہ انسانی رحمدلی و مروت اور خدمت خلق سے آراستہ و پیراستہ ہوں۔کھیل انسان میں یہ اوصاف پیداکرنے میں نمایا ں کردار انجام دیتا ہے۔تعلیم کا مقصد جہاں نظام کائنات کو بہتر بنانا اور بہتر انسانوں کی کھیپ تیار کر نا ہے وہیں کھیل کے مقاصد بھی کم و بیش انہی اغراض و مقاصد کی غمازی کرتے ہیں۔ تعلیم میں کھیل کی اہمیت و افادیت کے تمام مغربی و مشرقی ماہرین تعلیم موئید نظر آتے ہیں۔امام غزالی کا قول ہے کہ ہر وقت پڑھائی بچوں کو کند ذہن بناتی ہے، دلچسپی و توجہ کو کم کرتی ہے،بیزاری اور اکتاہٹ پیدا کرتی ہے۔جس سے بچے تعلیم سے باغی بھی ہوسکتے ہیں۔بچوں کی تعلیم میں دلچسپی اوررغبت کی برقراری کے لئے پڑھائی کے دوران کھیلنے کودنے کے مواقع بھی فراہم کیئے جانے چاہئیے جس سے وہ اپنے آپ کو تازہ دم اور خوش گوار محسوس کر سکیں اور خوش دلی اور غایت درجہ کی دلچسپی سے اپنے تعلیمی مصروفیات کی تکمیل کر سکیں۔ماہرین تعلیمات کے عمیق تجربہ سے معلو م ہوتا ہے کہ پڑھائی کے بعد یا پڑھائی کے دوران کھیل بچوں میں فرحت و راحت کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔فٹبال ،والی بال، ہاکی یا بیڈمینٹن کے کھیل طلباء میں ذہنی، جسمانی توانائی اور چستی کو بحال کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔جسمانی کھیل آکسیجن کے وافر حصول ،خون کے دوران اور ہاضمہ کو بہتر بناتے ہیں۔ کھیل کے میدان تازہ ہوا اور مظاہر قدرت کے ذریعہ طلباء کے ذہن وقلب اور جسم کو راحت حاصل ہوتی ہے۔دوڑنا،بھاگنا،کودنا،پیراکی وغیرہ کا طلباء کی صحت پراچھا اثر ہوتا ہے۔ اس سے ہاتھ پیر اور دیگر اعضائے جسمانی کی نہ صرف ورزش ہوتی ہے بلکہ ان کو توانائی اور مضبوطی بھی حا صل ہوتی ہے۔کھیل کو د سے نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ کھیل کودبچوں میں صبر و تحمل ،قوت برداشت ،آپسی تال میل اور اجتماعیت(Team Spirit) پیدا کرنے میں نہایت ممد و معاون ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کھلاڑی بہت زیادہ چاق و چوبند اور نظم و ضبط(ڈسپلن) کے پابند ہوتے ہیں۔ کھلاڑیوں میں یہ نظم و ضبط اور چستی کھیل کو د کے مرہون منت ہوتی ہے۔ تعلیم اور کھیل کود بچوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے علاوہ زندگی کے مسائل کا پامردی سے مقابلہ کرنے کی جرات و ہمت عطا کرتے ہیں۔ کھیل کودایک بہترین طریقہ تعلیم ہے جوطلباء کی صلاحیتوں، ہنر اور مہارتوں کے فروغ میں نمایا ں کردار انجام دیتے ہیں۔کھیل کود کے اصول قواعد اور ضابطے بچوں میں اصول اور قوانین کے احترام کا جذبہ پیدا کر تے ہیں ۔ کھیل کود قانون کا احترام کرنے والے بہترین شہریوں کی تیاری میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔کھیل کے میدان طلباء میں انفرادیت پر اجتماعیت کو فوقیت دینے کی تعلیم دیتے ہیں ایثار و قربانی کا یہ جذبہ ملک و قوم کی ترقی کے لئے نہایت اہم ہوتا ہے۔ہار جیت کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا کھیل کو د کی تعلیم کے ذریعہ ہی بچوں کو سکھایا جاسکتا ہے۔کھیل کو د ہی بچوں کو ناکامی اور ہا ر پر نا امیدی ،مایوسی اور ذہنی و قلبی خلفشار سے محفوظ رکھتے ہیں۔کھیل بچوں کی کچلی ہوئی اور پامال توانائی کی بازیابی میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔کھیل جہاں بچو ں میں اطمینان ،سکون اور راحت کا جذبہ پیدا کرتے ہیں وہیں تشدد ،تنفر جیسے منفی اور غیر پسندیدہ جذبات کو کچل دیتے ہیں۔بچوں کی توانائیوں کو جب کچلاجاتا ہے یا نظر انداز کردیا جاتا ہے تو وہ چڑچڑے پن ،عدم تحمل،غنڈا گردی اور عدم فرمانبرداری کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔کھیل کے میدان اور جسمانی سرگرمیوں ان منفی جذبات کو مثبت سمت عطا کرنے میں اہم کردار انجام دیتے ہیں۔کھیل کے میدانوں میں زندگی رواں دواں نظر آتی ہے۔کھیل کے میدان زندگی کے پرتو ہوتے ہیں جہاں بچے ہنر و مہارت ،تیزی چستی ،محنت و کوشش ،لیڈر شپ ،قوانین کا احترام ،صبر و تحمل ،اپنے حریفوں اور تماشہ بینوں کا احترام سیکھتے ہیں ۔کسی بھی فرد کے لئے یہ جذبات معاشرتی زندگی کے اساس ہوتے ہیں۔جس کے بل بوتے وہ ایک کامیاب اور مطمئین زندگی گزار سکتے ہیں۔ماہر تعلیم کے مطابق جس ملک کے پارک اور کھیلوں کے میدان آباد ہوتے ہیں اس ملک کے دواخانے ویران ہوتے ہیں۔اسی لئے جسمانی تعلیم کھیل کود کو اسکولوں میں ایک لازمی مضمون کا درجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
اہم بلاگز
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...