ترکستان کی سیاہ رات۔17

ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ

(۱۷)

ہم آگے چل پڑے، منصور درغا بڑبڑایا:
’’میں نے بہت سوچا کہ اپنے آپ کو ایک حد میں رکھوں، لیکن میرے خیال میں بزدلی اور فرار خود کشی ہے اور پھر یہ ہمارے دینِ حنیف کی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے .. مصطفی مجھے یہ تصور ہی تکلیف دیتا ہے کہ میں معرکے سے الگ ہو جاؤں .. میرا وجود .. اسی لمحے میرے سامنے ذلیل ہو جاتا ہے .. مجھے لگتا ہے کہ جو کچھ میرے ارد گرد ہو رہا ہے میں اس کے لئے جواب دہ ہوں .. تنہا ذمہ دار .. میں اسکے بوجھ تلے دبنے لگتا ہوں .. ‘‘
منصور شدید ڈیپریشن میں تھا، اسکی حالت پر مجھے رحم آرہا تھا، مجھے اندازہ تھا کہ اسکے ااندر کیا جنگ جاری ہے، اسکے سامنے بہت کچھ ڈوب رہا تھا .. انقلاب .. معزز لوگ، مساجد اور قبے، اسلامی تعلیمات جنکے سائے میں اس نے زندگی بسر کی .. اسکی بیوی اسکے ہوتے ہوئے اسکے سائے سے محروم رہی اور جسم فروشی پر مجبور ہو گئی، میں اپنے دکھوں اور غموں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا، بمشکل بولا:
’تم نے اپنے اوپر استطاعت سے بڑھ کر بوجھ لاد لئے ہیں .. ان بے رحم ظالم دنوں میں ہر قہر کے ذمہ دار تم کیسے ہو گئے؟؟ کیا تمہارے اختیار میں تھا کہ مغرب سے آتے روس یا مشرق سے در اندازی کرتے چین کا راستہ روک لیتے .. تم ایک کمزور انسان ہو منصور اور تم نے مقدور بھر اپنی ذمہ داری ادا کی ہے .. ‘‘
وہ اپنے آپ سے الجھتا رہا اور بوجھل نگاہوں سے وسیع وعریض راستے کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا:
’’میری ذمہ داری؟؟ ہا ہا .. ذمہ داری تو موت تک ہماری گردن میں لٹکی رہے گی .. جب تک جسم میں جان ہے تمہیں کوشش کرتے رہنا ہے ، جس روز تم مایوس ہو گئے اور تمہیں لگا کہ تمہارے کرنے کو کچھ نہیں بچا تو تم امانت میں خیانت کرو گے .. ‘‘
مجھے محسوس ہوا کہ بیوی کا غم اسے اندر ہی اندر گھلا رہا ہے میں نے اسے تسلی دی:
’’عورتیں بہت ہیں .. ‘‘
وہ ہیسٹریائی انداز میں ہنسا:
’’ہمارے وطن کا شرف مٹی میں مل رہا ہے .. میں نہیں جانتا ہم کیسے جئیں گے اور کھاناکھائیں گے اور ہمیں کیسے نیند آئے گی اور ہم کیسے بچے پیدا کریں گے .. ‘‘
دور ہمیں کلہاڑے اور کدالیں اٹھائے کچھ لوگ نظر آئے اور سپاہی اندر باہر آتے جاتے دکھائی دیے، ہم نے ایک راہ گیر سے ڈرتے ڈرتے پوچھا:
’’یہاں کیا ہو رہا ہے؟؟‘‘
’’کیمونسٹ اس مسجد پر قبضہ کرنا چاہتے تھے تاکہ اسے خام مال کا گودام بنا لیں .. لیکن امامِ مسجد نے دروازے پر انکا راستہ روک لیا .. .. انہوں نے انہیں پکڑ لیا اور مسجد کے سامنے ایک درخت سے باندھ دیا، اب یہ سب مل کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں، ان پر تھوک رہے ہیں اور درخت کی چھڑیوں سے انہیں مار رہے ہیں .. وہ لہو لہان ہو چکے ہیں .. ‘‘
ہم وہیں ٹھٹھک کر رک گئے، منصور نے پوچھا:
’’رک کیوں گئے؟؟‘‘
’’ہمیں دوسرا راستہ اختیار کرنا ہوگا .. ‘‘
منصور ہولے سے ہنسا اور بولا:
’’میرے پاس گن بھی ہے اور گولیاں بھی اور کوئی مائی کا لال مجھے آگے جانے سے نہیں روک سکتا‘‘
اس نے اپنی گن چھپا رکھی تھی اور گولیوں کے کچھ راؤنڈ اسکی بوسیدہ جیکٹ میں موجود تھے۔ قبل اسکے کے کہ میں اسے موقع کی نزاکت کا احساس دلا کر تنبیہ کرتا، میں نے اسے بھاگ کر آگے جاتے دیکھا، وہ مسجد کے عقبی راستے کی جانب گیا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا، میں اسکے پیچھے گیا مگر وہ کہیں نہ ملا۔ ابھی کیمونسٹ چھوکرے امام مسجد کے تمسخر میں ڈوبے ہوئے تھے اور نکتے اچھالتے ہوئے قہقہے لگا رہے تھے کہ اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دی اور ساتھ ہی تین کیمونسٹ امام مسجد کے پہلو میں ڈھیر ہو گئے، مظلوم شیخ پکارے:
’’اﷲ اکبر .. یہ اﷲ کا انتقام ہے .. ‘‘
لوگوں نے نظر اٹھا کر مسجد کی جانب دیکھا، منصور درغا اسکے گنبد کے پاس بیٹھا تھا، مجھے فقط اسکا سر اور بندوق کی نالی نظر آ رہی تھی، میں نے اسے بلند آواز میں چلاتے سنا:
’’او کتو .. یہ اﷲ کا گھر ہے اور یہاں تمہارے ناپاک قدم برداشت نہیں کئے جائیں گے .. ‘‘
میرا دل ڈولنے لگا اور مجھے شدید خوف لاحق ہو گیا۔ منصور موت کے نرغے میں کھڑا تھا، اس نے سانپ کے بل میں ہاتھ ڈال دیا تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، وہ مسلسل گولیاں چلا رہا تھا اور کتنے ہی کیمونسٹ زخمی حالت میں چلّا رہے تھے .. سپاہی چوکنا ہو چکے تھے اور کچھ کیمونسٹ ورکر بھی، وہ چلائے:
’’خائن .. خائن .. رجعت پسند .. رجعت پسند‘‘
کتنی ہی تڑتڑاتی گولیاں مسجد کی چھت اور گنبد پر برسیں،اور خاموشی چھا گئی، بکھرے ہوئے لوگ پھر ایک مرکزپر جمع ہونے لگے، چند لمحے بعد منصور نے سر اٹھایا اور چلّا کرکہنے لگا:
’’تم میری لاش سے گزر کر ہی مسجد میں داخل ہو سکتے ہو .. یہ اﷲ کا گھر ہے او بے ضمیرو.. ‘‘
نئے سرے سے گولیوں کا تبادلہ ہونے لگا، کچھ اور حملہ آور گر پڑے، بعض لوگوں نے ہینڈ گرنیڈاستعمال کرنے شروع کر دیے .. مسجد کی چھت سے دھواں اٹھنے لگا، یکے بعد دیگرے کئی دھماکے ہوئے۔ منصور کا بچنا محال ہے، تھوڑی دیر میں مزید کمک آجائے گی، اس نے اپنے آپ کو یکطرفہ معرکے میں ڈال دیا ہے، اس نے ایسا کیوں کیا؟؟
ہزاروں مساجد پر کیمونسٹ قبضہ کر چکے ہیں اور اس مسجد سے انکی بے دخلی بھی حقیقتِ واقعہ کی تلخی کو کم نہیں کر سکتی، میں ترکستانیوں کے چہرے پر عجب خوشی کی چمک دیکھ رہا تھا، مسجد کے گنبد کے عقب میں کھڑے اﷲ کے گھر کی حفاظت کرتے شخص کو وہ فاخرانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، کچھ گھڑیوں میں بہت سے لوگ جمع ہو گئے، انہوں نے کیمونسٹوں پر اینٹ روڑے برسانے شروع کر دیے اور انہیں لعنت ملامت کرنے لگے، اس چھوٹے سے قطعہ سرزمین پر اﷲ کے گھر کی خاطر معرکہ گرم ہو گیا …
کیمونسٹوں کے پاس فرار کے سوا کوئی راستہ نہ بچا، منصور مؤذن کی جگہ کھڑا ہو کربآوازِ بلندپکارا:
’’اﷲ اکبر .. اﷲ اکبر .. الصلاۃ جامعۃ .. الصلاۃ جامعۃ‘‘
میں نے مظلوموں کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے دیکھے، امامِ مسجد کی رسیاں کھول دی گئی تھیں، وہ اپنا لباس پہن رہے تھے، پھر وہ وضو خانے کی جانب بڑھ گئے، منصور منبر کے قریب آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا:
’’اے لوگو .. شائد یہ الوداعی نماز ہے .. لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ مساجد کو بے آبادنہ ہونے دو .. انکے ایک ایک انچ کا دفاع کرو .. ہر اینٹ کا .. اس میں .. اسکے معنی میں بڑی وسعت ہے .. وہ الہامی معنویت جسکے سائے میں ہم نے سینکڑوں برس زندگی گزاری .. آؤ اﷲ کے لئے دو رکعت نماز ادا کر لیں .. ‘‘
بعض مسلمانوں نے مقتولوں اور زخمیوں اور فرار ہونے والے کیمونسٹوں کا اسلحہ اٹھا لیا، ایک مشین گن اور کچھ بارود میرے بھی ہاتھ لگ گیا .. میں نے دور سے غبار اڑتے دیکھا، روسی لشکر کی گاڑیاں دور سے پہچانی جا سکتی تھیں .. مسجد اور اس کے ارد گرد آگ کے گولے برسنے لگے اور مقامی ترکستانیوں اور کیمونسٹوں کے بیچ کانٹے دار مقابلہ شروع ہو گیا‘‘
میں نے اپنے آپ سے کہا:
’’عثمان باتور منتظر ہوگا .. میں نے اسے باریکول میں ملنا تھا، میرے لئے مناسب یہی تھا کہ فوراًکوچ کر جاؤں، میں نے منصور درغا کو تلاش کیا .. مجھے وہ مسجد کے مرکزی دروازے پر گرا ہوا مل گیا، اسکے دائیں ہاتھ میں بندوق تھی، اسکے ارد گرد خون ہی خون تھا .. میں اسکے قریب آیا .. وہ شہید ہو چکا تھا .. یہاں وہاں کتنے ہی شہداء کے لاشے بکھرے ہوئے تھے، جو گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے .. میں انہیں دیکھنے لگا، وہیں امامِ مسجد کا خون آلود لاشہ بھی تھا، انکی سفید ڈاڑھی خون سے رنگین ہو چکی تھی .. میں تیزی سے وہاں سے نکل آیا ..
اﷲ اس پر رحم فرمائے، اسے کس قدر یقین تھا کہ اسے مرتے دم تک اس فرض کو نبھانا ہے .. اور وہ مسجد کی دہلیز پر شہید ہو گیا، دن دیہاڑے خائنوں نے اسے اسکے مرکز میں قتل کر دیا، لوگ آگے بڑھ کر اسکا چہرہ دیکھنے لگے، وہ بلاشبہ سعادت اور شہادت کا درجہ پا چکا تھا … قومول کی جانب راستے میں ہر جانب خطرے اگے ہوئے تھے، جگہ جگہ لوگ شہدائے مسجد کا تذکرہ کر رہے تھے اور روسیوں کی غداری کا اور انتخابات کا جن میں شفافیت نام کو بھی نظر نہ آتی تھی، ہاں معصوم عوام کو دھاندلیوں کے مقابلے میں نہتا کر دیا گیا تھا، ہر جانب دھوکہ تھا اور قتل و غارت! حریت کے متوالوں کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا تھا، عوام حقیقتِ حال سے باخبر تھے۔معروف اخبارات جو جھوٹی کہانیاں گھڑ رہے تھے انکی اصلیت سے واقف بھی تھے، ہر روز نئے نئے اسکینڈلز اور پروپیگنڈہ شہ سرخیوں میں اخبارات کی زینت بنتا، کیمونسٹوں کی جانب سے ظہرانے اور عشائیے منعقد کئے جاتے، شعلہ بیان مقرر محفل لوٹ لیتے اور نعروں سے دیواریں کالی کی جاتیں، اس انتخابی دنگل میں چینی اور روسی کیمونسٹ کھلی کھلی دھاندلی اور اپنا قبضہ مضبوط کرنے کی چالیں چل رہے تھے ..تینوں بڑی ولایات ایلی، آلتائی اور تشوشک کیمونسٹوں کے اثر میں تھیں، اور باقی سات ولایات جہاں برہان رشیدی کا قبضہ تھا وہاں اس خائن نے اسٹالین کے منصوبے کو نظرانداز کرتے ہوئے ترکستان شرقیہ کا انضمام کیمونسٹ چین سے کرنے کا فیصلہ کر لیا، عوام میں شدید ہیجان پیدا ہوا اور ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی اور انہیں اپنا مستقبل تاریک تر اور مکرو فریب کے حیلوں میں لپٹا نظر آنے لگا ..
چینی اثرو رسوخ ایک مرتبہ پھر بڑھنے لگا چینی لشکر دھیرے دھیرے ترکستان میں داخل ہونے لگے، لوگوں کو یقین ہو گیا کہ ظلم کا کوڑا پھر بڑی شدت سے انکی پیٹھوں پر برسنے کو تیار ہے، اسکے تصور نے پھر ماضی کے زخم ادھیڑنے شروع کر دیے، اب کیا ہو گا جب کے دو طاقتور بھیڑیے ان پر حملہ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں؟؟
طے پایا کہ جنگجو عثمان باتور کی قیادت میں جدو جہد جاری رکھیں، جب کہ انکا ایک گروہ’’محمد امین بغرا‘‘ نائب حاکمِ عام سابق کی قیادت میں دنیا کو ترکستان پر چینی مظالم سے آگاہ کرے اور ان سے مدد کی درخواست کرے۔ اس وفد نے ۱۲ دسمبر ۱۹۴۹ء کو اپنی مہم کا آغاز کیا اور وہ کشمیر کے علاقے ’’لداخ‘‘ میں پہنچے، اس وفد کی سرحد پر چینیوں سے مد بھیڑ ہو گئی اور اس خون آشام مقابلے کے نتیجے میں تین چوتھائی وفد کے ارکان شہید ہو گئے اور کتنے سردی اور بھوک سے بے حال ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے، زندہ بچ جانے والوں کے جسموں پر سرد برفانی لہروں نے انمٹ نقوش چھوڑ دیے، انکے اعضاء سردی سے کٹ گرے۔ وہ دو مہینے ٹھٹھرتی ہواؤوں کا مقابلہ کرتے رہے، راستے برف سے اٹے ہوئے تھے، جہاں اندھی کھائیاں منہ کھولے ہوئے تھیں۔ انہیں پانچ دریاؤوں کو عبور کرنا تھا، لیکن ٹیڑھے میڑھے نا ہموار راستوں کے سبب انہیں سینکڑوں مرتبہ عبور کرنا پڑا، وہ آسمان چھوتے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچے، جہاں آکسیجن کی مقدار کافی کم تھی، انکے نتھنوں میں خون جمنے لگا، اسی طرح گرتے پڑتے انکی تھوڑی سی تعداد کشمیر کے دارالحکومت ’’سرینگر‘‘ پہنچی .. یہ سارا سفر بے مثال رنج و الم کی داستان تھا .. انکے رستے زخم مسلمان امت کے اپنے دین، آزادی اور استقلال کی خاطر ہر دکھ برداشت کرنے کی سرگزشت سنا رہے تھے ..
ادھر میں قومول میں نجمۃ اللیل کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا، جانے ان دونوں کو زمین نگل گئی تھی یا آسمان .. میرے لئے قومول دکھ عذاب اور تلخی کا استعارہ بن گیا تھا .. لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے، غالب خاندان پہاڑوں میں مسکن بنا رہے تھے، یا کوئی ایسا گوشہ تلاش رہے تھے جہاں وہ چینیوں کی نگاہوں سے دور ہو جائیں ..
میں تھک ہار کر باریکول کی جانب چل پڑا جہاں عثمان باتور اپنے بیس ہزار جنگجؤوں کے ہمراہ مقیم تھا، قلعے مانند پہاڑوں کے بیچ .. میرا یار منصور بھی بچھڑ چکا تھا، مسجد کی دہلیز پر وہ ابدی نیند سو گیا، تاکہ اسے اپنے پاک خون سے دھو ڈالے اور کسی نجس قدم کو اس کی جانب رخ نہ کرنے دے، اسلحے سے لیس طاقت کے نشے میں چور فساد اور ہلاکت مچاتے منچلوں کو اس نے پورے عزم سے چیلنج کیا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ جابر کا راستہ روکا بھی جا سکتا ہے …
اپنے پیارے وطن میں اتنے پر مشقت سفر کے دوران مجھے کچھ اطمینان کا احساس ہوا، پہاڑوں کی گود میں کتنا اطمینان اور سکون ہے، یہاں کی ہوا کتنی صاف ہے، میں دل کی گہرائیوں سے اﷲ کی تسبیح میں مشغول ہو جاتا اور میرا رواں رواں اسے پکارتا، ہم نئے سرے سے اس اسلحے پر مشق کرنے لگے جو ہمارے ہاتھ لگا تھا۔ یہ وہ اسلحہ تھا جو جنگِ عظیم دوم میں استعمال ہوا تھا، جس نے عالمی طاقت کے میزان الٹ دیے تھے، ہمارے پاس زیادہ تر ہاتھ سے استعمال کرنے والا اسلحہ تھا جو اپنی جدیدیت کے باوجود ٹینکوں اور جنگی جہازوں کے مقابلے میں کچھ وزن نہ رکھتا تھا ..
اب بھی نجمۃ اللیل سے ملنے کے خواب مجھے مسحور کر دیتے .. میرا بیٹا کتنا بڑا ہو گیا ہو گا،میں تصور میں اس سے باتیں کرتا، اسے گیت سناتا، اسے نشانہ بازی سکھاتا، آہ میرا دل!! ایسے میں مجھے لگتا تھا کہ میں بہت پتھر دل ہوں اور دوستوں کی یاد بھی اس میں لرزش پیدا نہیں کرتی، شائید ہم محبت کی شیرینی، اسکی لذت اور گھر والوں سے ملن اور ان کے بیچ رہنے کے معانی سے نا آشنا ہیں .. لیکن آہ میرے گوشت پوست کے بنے ہوئے دل .. میرا اور تیرا گناہ کیا ہے؟؟ میں اپنی تیز نظروں سے دور پھیلے آفاق کے کناروں کو تاکتا رہتا ہوں .. اور تصور میں لاکھوں لوگوں کو انکی فصلوں، جنگلوں، چراگاہوں، فیکٹریوں اور فوج کے اداروں میں کام کرتے دیکھتا ہوں .. اور انکے چہروں میں اپنے اکلوتے بیٹے کے چہرے کو ڈھونڈتا رہتا ہوں .. میرے بیٹے تم کہاں ہو؟؟ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں، شوق اور وارفتگی سے میرا دل ہولے ہولے دھڑکتا ہے، حالانکہ اتنے سالوں کی مشقت اور تھکاوٹ سے میرا جسم ٹوٹ رہا تھا .. اپنے بیٹے کو میں تصور ہی میں پیار کرتا رہتا ہوں، میں اسکے پیچھے بھاگتا رہتا ہوں حتی کہ وہ اچانک میری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے، میں اسکے پیچھے بھاگتا ہوں اور اسکے لئے تازہ پھل توڑ کر رکھتا ہوں .. اور ہر ایک سے اس چھوٹے لڑکے کے بارے میں سوال کرتا ہوں جسکا نام نیاز مصطفی مراد حضرت ہے اور اسکی ماں نجمۃ اللیل ہے … آہ میرا دل .. تیرے بارے میں ڈراؤنے تصورات مجھے لرزا دیتے ہیں اور تیری یادیں اور ملن کی وارفتگی کو پہاڑوں کی سرد ہوائیں بھی ٹھنڈا نہیں کر سکیں، نہ ہی زمانے کی گرد نے اسے دھندلایا ہے، خون آشام معرکوں میں بھی تو میری یادوں میں بسا رہا، عثمان باتور جیسا کمانڈر زمانے کا نبض شناس تھا، وہ واقعات سے پوری طرح آگاہ رہتا، احداث پر کڑی نظر رکھتا، وہ تجربہ کار جری قائد تھا، وہ جانتا تھا کہ اس کے ہمراہ بیس ہزار لشکری مل کر بھی لاکھوں چینیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی لا تعداد روسی لشکروں سے بھڑ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی اسکی نظر حریت کی ٹمٹماتی مشعل پر تھی اور لرزہ خیز آندھیوں میں بھی وہ اس چراغ کو جلائے ہوئے تھا۔ اس نے انقلاب کو مرنے نہیں دیا اور وہ محدود وسائل سے جہاد کو اسکی بلندیوں سمیت جاری رکھے ہوئے تھا اور قہر اور ظلم کی فصیلوں کے پیچھے قید عوام کو یہاں وہاں اٹھتی شورشوں اور سلگتے ہوئے انقلاب کی نوید ملتی رہتی تھی، قریب تھا کہ یہ شمع بھڑک کر پورے ماحول کو روشن کر دے اور انقلاب کی منزل بھی مل جائے اور ان در اندازوں کو ہمیشہ کے لئے جہنم واصل کر دے، یہ جہاد جاری رہے گا اور دنیا بھر کے مظلوموں کو فتح کی راہ دکھائے گا .. وہ جس حال میں بھی ہو عثمان باتور نے اور نہ ہی اسکے مردانِ کار نے کبھی شکست اور سرنڈر کے بارے میں سوچا، وہ ہر موقعے پر یہی کہتا:
’’یہ ہماری تقدیر ہے .. ہم پر لازم ہے کہ جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے ہم ہتھیار نہ ڈالیں .. ہمارے لئے خیر اسی میں ہے کہ ہم اس حال میں اﷲ سے ملیں کہ ہماری سرزمین روسی اور چینی قبضے سے آزاد ہو چکی ہو ’’اﷲ اکبر ولا حول ولا قوۃ الّا باﷲ‘‘ چینی ہمارے جنگجؤوں کو خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں، چین نے خائنوں کے سردار ’’احمد تایجی‘‘ اور ’’نظر افندی‘‘ کی سرکردگی میں ایک وفد باریکول بھیجا ہے جو مقامی لوگوں کو کیمونسٹ حکومت کے خلاف حملے رکوانے کے لئے استعمال کر رہا ہے اور انہیں اکسا رہا ہے کہ وہ دار الحکومت اورومجی جا کر ذمہ دار چینیوں کے سامنے اپنے مطالبات پیش کریں۔۔
عثمان باتور خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے بولا:
’’سرکردہ لوگوں کے اورومجی جانے میں کئی اور خطرات مضمر ہیں .. درست ہے .. ہم کیمونسٹوں کے مکرو فریب سے نہیں بچ سکتے، انہیں اپنے بھائیوں ’’قاننبائی‘‘ اور شاہ مراد کے پاس جانا چاہیے .. وہ اورومجی میں انکے پاس جائیں اور ہمارے مطالبات کا اعلان کریں .. اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمیں آزادیوں کی ضمانت دی جائے .. آزادیء اظہار اور عبادت کی آزادی، اور سارے قیدی رہا کئے جائیں .. اور لوگوں کے حقِ ملکیت کو بحال کیا جائے اور انکی ذاتی املاک سے لوٹ کھسوٹ ختم کی جائے .. اور قوم کو اپنے مستقبل کا فیصلہ بغیر کسی مداخلت کے اپنی مرضی سے کرنے کا اختیار دیا جائے.‘‘
جنرال عثمان باتور دشمن کی چالوں اور منصوبوں سے خوب واقف تھا، اسی لئے ہم رات دن فیصلہ کن معرکے کی تیاری میں رہتے، جو وفد اورومجی بھیجا گیا تھا وہ بھی کوئی مثبت نتیجہ نہ لا سکا، میں جنرال کے ہمراہ پہاڑ پر جا رہا تھا، میں نے اسے بڑبڑاتے ہوئے سنا:
’’أندلس کو سلام .. ‘‘
’’اﷲ کی مشیت یہی تھی .. ‘‘
’’میں بارہا سوچتا ہوں کہ انسان امن سے کیوں نہیں رہتا .. ‘‘
وہ غم سے ہنسا:
’’چین وسیع سرزمین کا مالک ہے .. وہاں انسان چیونٹیوں کی مانند ہیں .. وہ ہماری دولت اور سرزمین پر کیوں نظر لگائے ہوئے ہے؟؟ وہ انگریزوں اور جاپانیوں کے ہاتھوں اٹھائی ذلت کو بھول گئے ہیں .. انسان سبق نہیں سیکھتا .. ‘‘
کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ پھر گویا ہوا:
’’میں نے تو قرآن سے یہی سیکھا ہے کہ آزاد رہوں یا عقیدے کے شرف کی جنگ لڑتے ہوئے موت کو گلے لگا لوں .. ‘‘
اور زمین پر پاؤں مار کر بولا:
’’یہ زندگی تھوڑی سی ہے .. حیاۃِ ابدی کے کیا مزے ہونگے .. اسی لئے تو اﷲ نے آخرت کو دارالمقام اور خلود کا گھر بنایا ہے .. تعجب ہے کہ سلطنتیں اور افراد تھوڑے سے فائدے کے لئے اتنے طویل معرکے لڑتے ہیں جن کی لذت محض کچھ دیر کے لئے ہے، اسی لئے تو اﷲ کی راہ میں موت، زندگی ہے .. ‘‘
اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، اور اپنی مونچھوں اور ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پورے یقین سے بولا:
’’میں اﷲ پر ایمان رکھتا ہوں .. آج کی دنیا اﷲ کی بندگی نہیں کرتی .. دنیا قوت اور رعب والے کو سجدہ کرتی ہے .. یہ غلاموں کی دنیا ہے، خواہ انہوں نے برلین کو شکست دی ہو یا وہ لندن، پیرس اور امریکا کے فاتحین ہوں .. ‘‘
***
(جاری ہے)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں