ترکستان کی سیاہ رات۔16

ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ

(۱۶)

منصور درغا دکھ سے بولا:
’’ہم ڈوبتے ہوئے شخص کی مانند ہیں .. جو اپنے بازؤوں کو چپو بنا کر موت کا مقابلہ کرتا رہتاہے، وہ طاقتور موجوں سے لڑ لڑ کر کمزور ہوتا رہتا ہے اور کمزوری میں بھی اس کے دفاع میں کمی نہیں آتی .. پھر ڈبکیاں کھانے لگتا ہے اور سمندر کی تاریک گہرائیوں میں کسی نا معلوم مقام پر خاموشی اور دکھ سے جان کی باری ہار جاتا ہے .. آہ .. اے مصطفی حضرت .. ہم ایسے ہی ہیں، تمہارا کیا خیال ہے اگر ہم مر گئے تو کون ہمیں یاد کرے گا؟؟‘‘
منصور درغا بولتا رہا، وہ میرے پہلو میں بیٹھا ہوا بھی سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈبکیاں لگارہا تھا، کبھی وہ پوری قوت لگا کر سطحِ سمندر پر آجاتا اور پھر اسے کوئی دوسری موج بہا لے جاتی۔ اس نے سمندر کی بے رحم موجوں سے لڑتے ہوئے اپنا آخری سوال بھی کر ڈالا …
میں نے اسے قائل کرنے کے لئے کہا:
’’اگر کوئی ہمیں یاد رکھے تو اس کی کیا قیمت ہوگی؟؟‘‘
وہ بمشکل بولا:
’’بہت بڑی قیمت ہے اس کی‘‘
’’وہ کیا ہے؟؟‘‘
اگر لوگوں نے ہمیں بھلا دیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس بلند مقصد کی خاطر ہم لڑتے رہے وہ مقصد ہی فوت ہو گیا ہے .. ‘‘
میں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا اور کہا:
’’لوگوں کے مر جانے سے مقاصد نہیں مرتے‘‘
منصور ساخرانہ ہنسی ہنسا:
’’لوگوں کے بغیر مقاصد نہیں ہوتے .. خوجہ نیاز مر گئے اور جنرال شریف اور امیرِقومول بھی مر گئے .. ہم نہ تو امیر ہیں نہ جنرال .. لیکن مقصد آج بھی زندہ ہے … رکو مجھے بولنے دو .. میری پہلی بیوی مر گئی … میں نے ایک بیوہ سے شادی کر لی .. مقصد پھر بھی زندہ رہا .. لیکن ہائے افسوس، ہم ابھی تک بپھری موجوں سے لڑ رہے ہیں، تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم ساحل امان تک پہنچ جائیں گے یا ہمیں سفینہ ء نجات مل جائے گا .. یا ہم بھی کسی روز خاموشی سے سمندر کی تاریک تہوں میں جان کی بازی ہار جائیں گے؟؟‘‘
آلتائی ہمارے ہاتھ میں ہے، عثمان باتور تیاری کر رہا ہے، وہ فوجوں کو اکٹھا کر رہا ہے اوردشمن کے مقبوضہ علاقوں سے جنگجو نکل نکل کر آرہے ہیں یا خائن کیمونسٹوں کے تسلط سے، وہ تاجر بھی ہمارے پاس آ رہے ہیں جو دیوالیہ ہو چکے اور وہ دولتمند بھی جنہوں نے فقراء کے اموال سلب کر رکھے تھے اور وہ فقراء بھی ساری زنجیریں توڑ کر آرہے ہیں جن سے بیگار میں سڑکیں بنوائی گئیں یا بغیر اجرت کے محض کھانا کھلا کر ریل کی پٹریاں بچھوائی گئیں اور وہ علماء بھی جنہیں انواع و اقسام کے تشدد اور تمسخر کا نشانہ بنایا گیا ..
ایک روز روس پھر آن پہنچا، اپنے لشکروں کے ساتھ ..
عثمان باتور کو اس کا خوب اندازہ تھا .. اس مرتبہ وہ پہلے سے بھی زیادہ بڑی تیاری سے آیا اور منہ زور سیلاب کی مانند آلتائی میں گھس گیا، ان کے ہمراہ مردانِ کار بھی تھے اور عالمی جنگِ عظیم کا اسلحہ بھی! خون آشام معرکہ شروع ہوا، جہاں دونوں جانب لشکری کٹنے لگے، لیکن آلتائی پر روس کا قبضہ ہو گیا، ہمیں پھر پہاڑوں کی کھوہوں میں چھپنا پڑا .. ہم نے پیچھے ہٹنے کے لئے ’’بأریکول‘‘کا قاعدہ اپنایا، عثمان باتور نے عزم سے کہا:
’’جدو جہد جاری رہے گی حتی کہ موت آجائے .. ‘‘
منصور درغا میرے سر سے ابلتے خون کو صاف کرنے لگا، اس نے زخم پر پٹی باندھی اور مسکرا کر بولا:
’’گویا کہ ہم آہستہ آہستہ مر رہے ہیں .. ‘‘
میں نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور پوچھا:
’’کیا تم دوبارہ اٹھنے پر یقین نہیں رکھتے .. ‘‘
منصور دور افق کے کناروں کو جہاں سے سکون اور ٹھنڈک کی لہریں پھیل رہی تھیں،گھورتے ہوئے کہنے لگا:
’’یقیناً میں بعث پر یقین رکھتا ہوں .. لیکن یہ بعث آخرت میں ہوگا میرے دوست جب ہمارے دل صافی چشمے کے پانی کی طرح ہونگے .. ہمارے ساتھ ہماری نفرتیں بیدار نہیں ہونگی .. مجھے روسیوں اور چینیوں سے شدید نفرت ہے اور اگر یہ نفرت ختم ہو گئی، تو شاید مجھے کسی بڑی سے بڑی لذت کا بھی احساس ہی نہ رہے .. میں تو اﷲ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے میری نفرتوں سمیت اٹھائے .. اور یہ شیاطین جنہوں نے ناقابلِ یقین ظلم کا ارتکاب کیا ہے .. آہ مصطفی .. ہمارے کتنے ہی ساتھی ہیں جو معرکوں کے دوران ان کے ہاتھ لگے .. کیا تمہیں یاد ہے؟؟ جنہیں انہوں نے ٹینکوں سے باندھ کر گھسیٹا .. کیا تمہیں یاد ہے؟؟ جن کی آنکھوں اور کانوں میں گولیوں کے برسٹ مارے گئے .. کیا تمہیں یاد ہے؟؟ ان کے تمسخرانہ قہقہے جب وہ شہداء کی آنتیں نکال کر ان سے مجاہدین کو باندھ دیتے تھے .. اور انہوں نے کئی علماء کو ہمارے جنرالوں کی آنتیں نکال کر ان سے باندھ دیا .. کیا ان وحشیوں کو تم انسان کہہ سکتے ہو؟؟‘‘
اس شکست نے ہمارے اعصاب توڑ ڈالے، روس نئے چینی حاکم کا حلیف بن گیا۔ وہ بھی انہیں کی مانند کیمونسٹ تھا جو ہماری بنیادوں کو ملیامیٹ کرنا چاہتا تھا، ہم نے دائیں بائیں دیکھا تو نہ کوئی دوست تھا نہ حلیف، عثمان باتور نے شہادت کی انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا اور بولا:
’’یقیناً وہ ہمارے ساتھ ہے .. ‘‘
اور تھکے ماندے زخموں سے چور کراہتے ہوئے لوگوں نے نعرہ لگایا ’’اﷲ اکبر‘‘.
منصور درغا فیصلہ کن انداز میں بولا:
’’ہم پہاڑ کی کسی گہرائی پر چلے جائیں گے، ہو سکتا ہے کہ ہم لوٹ کر آئیں یا وہیں رہ جائیں۔ تمہارا کیا خیال ہے اگر ہم اپنے گھر والوں کے بارے میں تسلی کر لیں .. میری بیوی جانے کس حال میں ہوگی .. اور تم بھی اپنی بیوی اور بچے سے ملنا نہیں چاہو گے؟؟‘‘
منصور نے میرے دل کی بات کہہ دی تھی، میں واقعی نجمۃ اللیل اور بیٹے کو شدت سے یاد کر رہا تھا، اب کتنا بڑا ہو گیا ہو گا وہ، لیکن ہم منزل کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے لوگ ہیں .. انقلابی .. اگر دشمن کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو نتیجہ یقینی موت کے سوا کچھ نہ ہوگا، میں مضطربانہ بولا:
’’شہر ہمارے لئے ایسے ہی ہے جیسے موت کا کھلیان ہو‘‘
’’کیا تم موت سے ڈرتے ہو مصطفی؟؟ آؤ چلیں .. ہم تاریکی میں گم ہو جائیں گے .. اور پھر دنیاکے سامنے ہمارا نیا روپ ہوگا، فاتح روسیوں کا سا روپ .. شہر میں ہمیں سرخے نظر آئیں گے، سرخ جھنڈے تھامے ہوئے .. اور پارٹی سلوگنز کے ساتھ .. یہ شہر نوحہ کناں ہوگا اور الوداعی مرثیے سنا رہا ہوگا .. تمہیں پتا ہے مصطفی شہر بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں، رنج و الم محسوس کرتے ہیں اور خوشی کے گیت گنگناتے ہیں اور ماتم بھی کرتے ہیں .. شہر زندہ شے ہیں .. انسانوں کی مانند زندہ .. میرا یقین کرو .. ‘‘
ہم صحیح سلامت طویل راستہ طے کر آئے، کبھی ہم چرواہوں کا بھیس بدل لیتے اور کبھی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بھکاری بن جاتے، کبھی عمارتوں کی تعمیر میں مزدوروں کے ساتھ شریک ہو جاتے اور کبھی کیمونزم کے حق میں نعرے لگاتے مظاہروں کے شرکاء بن جاتے اور کیمونزم کے حق میں اور رجعت پسندی اور رجعت پسندوں کے خلاف نعرے لگاتے یا کسی معزز کیمونسٹ پر خیانت کے جرم میں سنگ باری کے مناظر دیکھتے، مگر ہمارے پتھر کسی پر نہ برستے، ہم بپھرے ہوئے مظاہرین کے بیچ بلا ہدف پتھر پھینکتے، ہمیں اس کی پرواہ نہ تھی کہ وہ روسیوں کو لگ رہے ہیں یا ترکستانی کیمونسٹوں کو، اس انارکی میں حق و باطل گڈمڈ ہو گئے تھے، فضا میں عجیب و غریب قسم کا خوف سرایت کر گیا، مصاحف القرآن اور تفاسیر، احادیث کی کتابیں اور خاص طور پر ہمارے جدّ امجد امام بخاری کی عظیم کتاب صحیح بخاری اور فقہ اور توحید کی دیگر قیمتی کتب شاہراہوں پر بکھری ہوئی تھیں، ان میں سے کتنی ہی پھٹی ہوئی تھیں، اور لشکری سردی سے بچنے کے لئے ان میں آگ لگا کر ہاتھ تاپ رہے تھے ..
کتنی ہی پر مشقت راتوں کے بعد آخر کار ہم اس گھر کے دروازے پر پہنچے جہاں منصور درغاکی بیوی قیام پذیر تھی، مغرب کے کچھ دیر بعد ہم وہاں پہنجے، منصور اندر داخل ہوا .. مجھے اسکے بلند قہقہے سنائی دیے، وہ ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا.
’’آؤ اور یہ دیکھو مصطفی .. اس عورت نے اپنی چادرِ حیا اتار پھینکی ہے‘‘
مجھے اس کی رندھی ہوئی آواز سنائی دی:
’’کیا تم آگئے ہو منصور؟؟ میں تو سوچا تھا کہ کہیں مر کھپ گئے ہو گے‘‘
’’یہ تم نے کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟؟‘‘
وہ اس کے قریب آکر بولی:
’’اﷲ کی لعنت ہو سرخ شیطانوں پر!! انہوں نے سڑک پر میرا برقع پھاڑ ڈالا .. اور ہر باحجاب عورت کے ساتھ انہوں نے یہی کیا، انہوں نے میرا عبایا کھینچ کر اتارا اور اس میں آگ لگا دی .. اور میرے ساتر لباس کو قینچی سے کاٹ دیا تاکہ وہ مختصر ہو جائے .. اور میری قمیص کی آستینیں کاٹ ڈالیں .. وہ ہمیں تہذیب جدید اور نئے تمدن کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں ‘‘
میں نے اس بیوہ کو دیکھا جو چالیس کے پیٹے میں سیاہ مختصر لباس زیب تن کئے ہوئے تھی، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، میں اس پر درد منظر کو کبھی نہیں بھلا سکتا، جانے اس منظر کو دیکھ کر مجھے ہنسی آرہی تھی یا رونا ..
منصور نے اپنی بیوی کا بازو پکڑ کر جھٹکا:
’’ہاں یہ ہے جدید ترکستان کا منظر‘‘
خاتون شرم سے دہری ہو گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، منصور نے نرمی سے اسے تھپکا اورکہنے لگا:
’’غم نہ کرو پیاری .. ہم یہاں زیادہ دیر نہیں رکیں گے، ہم عنقریب وہاں چلے جائیں گے جہاں عورتیں اپنی مرضی سے لباس کا انتخاب کرتی ہیں .. اور میری عزیزہ پہاڑوں پر پھٹے ہوئے قرآن کے نسخے نہیں ملتے اور نہ ہی کوئی صحیح بخاری کو قدموں تلے روندنے کی جسارت کر سکتا ہے .. ‘‘
میں منصور درغا سے اگلے دن ملاقات کا وقت طے کر کے باہر نکل آیا، میں نجمۃ اللیل اور اپنے پیارے بیٹے سے ملنے کے لئے بے چین ہو رہا تھا، اب وہ بھاگتا دوڑتا ہو گا اور مجھے پکارتا ہو گا .. مجھے اس موہنے سے بچے سے کتنا پیار ہے …
شہر میں رات پر ہول ہوتی ہے، بلکہ روسی عملداری میں اس کے خطرے بڑھ جاتے ہیں، رات کرفیوکا سماں ہوتا ہے اور صبح تک باہر نکلنا ممنوع ہوتا ہے، شہر میں ہر طرف عورتوں مردوں اور بچوں کے اجنبی چہرے نظر آ رہے تھے۔ لوگ سچ کہتے تھے کہ روسیوں اور چینیوں نے وسیع پیمانے پر اس علاقے میں ہجرت کی ہے اور وہ یہاں سے لاکھوں باشندوں کو اٹھا کر لے گئے ہیں اور انہیں سائبیریا کے علاقے میں پھینک دیا ہے اور ان کی کھیتوں کھلیانوں اور تجارتوں پر قابض ہو گئے ہیں۔ مہاجرین کے لئے نئے گھر اور دفاتر بنائے گئے ہیں اور ان کے فواحش کی تسکین کے لئے بار اور کلب بھی تعمیر کئے گئے ہیں .. آزادی اور خودمختاری کے نام پر علاقے کو چینی دوشیزاؤں سے بھر دیا گیا ہے، مختلف زبانوں میں مختصر کتابچے ہر جگہ وافر تعدار میں مل جاتے ہیں جن میں پوری دنیا میں کیمونزم کی کامیابیوں کے قصیدے بیان کئے گئے ہیں، عوامی طاقت کے حق میں کیا کیا نعرے درج ہیں اور ترکستان کے ایسے ہیرؤوں کا تذکرہ ہے جن کے نام ہم نے کبھی نہیں سنے اور عثمان باتور، خوجہ نیاز، صدر علی خان وغیرہ کا تذکرہ چوروں، خائنوں اور اٹھائی گیروں کی صف میں کیا گیا ہے اور برہان شہیدی کو ہیرو کا روپ دیا گیا ہے جو علی خان کی جگہ قابض ہو گیا، جو ہمیشہ روسی شان اور کیمونزم کے عالمی انقلاب کے گیت گاتا رہا، اسے بطلِ آزادی بنا دیا گیا اور اسے ’’جدیدیت کا رفیق‘‘ اور ’’ابو الاحرار‘‘ کے القابات سے نوازا گیا .. یہ وہ شہر تو نہیں تھا جسے میں پہچانتا تھا، نہ یہ لوگ اس کے مکین تھے، گلیوں اور بازاروں میں بولی جانے والی زبان میری زبان نہ تھی، نہ یہ بچے وہ بچے تھے، اور یہ بے حجاب سجی بنی عریاں عورتیں اس شہر کی باسی نہ تھیں ..
مٹر گشت کرتے کرتے میں اپنے محلے میں پہنچ گیا جہاں میری بیوی رہتی تھی .. ملاقات کے لمحے کو اتنا قریب پا کر میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، نجمۃ اللیل کو دیکھ کر میں تمام کلفتیں بھول جاؤں گا .. میں نے ہولے سے دروازہ کھٹکھٹایا .. میں نے بھاری قدموں کی چاپ سنی .. اور جب دروازہ کھلا مجھے لگا کہ میں بے ہوش ہو جاؤں گا:
’’کون ہو تم؟؟‘‘
دو متورم بڑی بڑی آنکھوں نے مجھے گھورا، اس کا چہرہ سرخی مائل تھا، اس کے بال ادھیڑ عمرہونے کی چغلی کھا رہے تھے، اس کی گھنی مونچھیں سوپ سے لتھڑی ہوئی تھیں، وہ ٹہکے سے بولا:
’’کیا تم مجھے نہیں جانتے؟؟ سب مجھے جانتے ہیں .. میں اسی گروہ کا لیڈر ہوں جنہوں نے جاگیر داروں اور سرمایا داروں پر ہاتھ ڈالا ہے .. ‘‘
اس کی گفتگو اس کی جہالت کا پول کھول رہی تھی، اس کے باوجود کہ وہ مقامی زبان بول رہا تھا اس سے عجب اجنبیت کی بو آ رہی تھی، اس کے حلیے سے بھی اور اس کے کھردرے پن سے اور سب سے بڑھ کر اس کی نفرت اگلتی آنکھوں سے ..
’’ایسا لگتا ہے تم راستہ بھول گئے ہو دوست‘‘
اس نے یہ کہہ کر دروازہ بند کر لیا ..
آہ .. کاش یہ گھر ہی مجھے اس کی کوئی خبر دیدے … صاف بات ہے یہ ایک دوسری قسم کا قبضہ تھا .. میری رگوں میں خوف سرایت کر گیا، میری بیوی اور بیٹا کہاں چلے گئے؟
مجھے چپکے سے یہاں سے سٹک جانا چاہیے یہ نہ ہو کہ میں کسی کے قبضے میں آجاؤں، اگر میں کسی جیل یا تعذیب خانے میں پہنچ گیا تو تمام عمر نہ نکل پاؤں گا .. اس کے باوجود کہ اضطراب میری روح پر چھا چکا تھا اور میرا دل جل رہا تھا میں خاموشی اور صبر سے چلنے لگا … میں اس کے قدیم علاقے میں گیا، وہاں آدھی عمارتیں ڈھیر ہو چکی تھیں، اس علاقے کے کچھ فقرا مجھے اور نجمۃ اللیل اور میرے بیٹے کو جانتے تھے اور یہیں مسجد کا بوڑھا خادم رہتا تھا اور مین روڈ کا نائی بھی مجھے اچھی طرح جانتا تھا .. اسی نے میرے بیٹے کے سنہری بال مونڈھے تھے، کاش اس نے میرے بیٹے کی کوئی لٹ ہی سنبھال رکھی ہوتی .. لیکن مسجد کو تالا لگا تھا، اور جان پہچان کا کوئی شخص بھی نظر نہ آیا .. میں نائی کی دکان پر آگیا، وہ ایک شخص کے بال بنا رہا تھا، اس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا، جونہی ہماری نظر چار ہوئی میں سلام کرنے کو آگے بڑھا، لیکن اس نے اسطرح نظر جھکا لی گویا مجھے دیکھا ہی نہ ہو، ایسا لگا کہ وہ مجھ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا .. میں نے سوچا .. اب کیا کروں .. ٹھیک ہے. کیوں نہ میں اس بوسیدہ لکڑی کے بنچ پر بیٹھ جاؤں، لیکن اب کیا ہوگا، میں نے دیکھا کہ وہ جلدی جلدی اپنا کام نبٹا رہا ہے، اس نے اجرت وصول کی اور گاہک چلا گیا، اس نے مجھے اشارہ کیا .. میں آگے بڑھا اور اس شخص کی جگہ پر جا بیٹھا
’’عبد الحق کیا ہو رہا ہے؟؟‘‘
وہ میرے چیکٹ بالوں میں اپنے کام میں جت گیا اور بولا:
’’آپ کیسے آئے ہیں .. عثمان باتور کا بندہ ہاتھ لگ جائے تو فوراً قتل کر دیا جاتا ہے .. آپ شہرمیں کیسے داخل ہو گئے؟؟ جتنی جلدی ممکن ہو یہاں سے نکل جائیں ورنہ زندگی سے ہاتھ دھوئیں گے .. ‘‘
میں نے اس کی دکان میں ظلم و جور کے مرقع اسٹالین کی قدِ آدم تصویر آویزاں دیکھی، اور اس سے کچھ چھوٹی اس کے ساتھی لینن کی، اور اس سے چھوٹی برہان شہیدی کی ….
میں نے مذاق اڑایا:
’’تجھے کیا ہو گیا ہے دوست؟؟‘‘
’’میں کسی کا دوست نہیں .. محض ایک نائی ہوں جو روزی کمانے بیٹھا ہے .. ‘‘
’’نجمۃ اللیل کہاں گئی ہے؟؟‘‘
’’بھاگ گئی .. ‘‘
میں حیرت سے بولا:
’’اس نے بچہ اٹھایا اور مجھے کچھ خبر کئے بغیر ہی چلی گئی .. ‘‘
زمین گھومنے لگی، قینچی کی کٹ کٹ میرے اعصابی تناؤ میں اضافہ کر رہی تھی، عبد الحق کو میرے دکھ اور دم گھٹنے کا احساس ہو رہا تھا۔۔
’’مصطفی آپ کو بڑی سمجھداری سے کام لینا ہو گا .. ہم ظالم زمانے میں جی رہے ہیں جو نہ رحم کے معنی سے آشنا ہے .. نہ اﷲ کو پہچانتا ہے .. ‘‘
میں نے سرگوشی کی:
’’میری بیوی کہاں چلی گئی؟؟‘‘
’’امکان ہے کہ وہ قومول چلی گئی ہے .. ‘‘
’’وہ قومول ہی کیوں گئی .. ‘‘
’’یہ تو جب کہو اگر وہ صحیح سلامت قومول پہنچ گئی ہو .. ہر جگہ لوگ گرفتار کئے جا رہے ہیں …
جبر کا ظالم ہاتھ ہر علاقے کی طرف بڑھ رہا ہے، اور عوام الناس کا رخ موڑتا چلا جا رہا ہے، اچھے اور برے کی تمیز مٹ رہی ہے، وہ انہیں نچوڑتا چلا جا رہا ہے اور انہیں دائیں بائیں بکھیرتا جا رہا ہے .. میں نہیں جانتا کہ کیا کہوں، آپ کو کیسے سمجھاؤں .. آپکی خیر اسی میں ہے کہ اس علاقے سے فوراً نکل جائیں کہیں آپ روسیوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں .. ‘‘
’’نا ممکن .. ‘‘
اسکا چہرہ زرد ہونے لگا، وہ کانپ کر بولا:
’’مصطفی آہستہ بولیے .. میں ہٹلر سے زیادہ طاقتور ہوں نہ جرمنی سے .. ہم تو چھوٹی سی قوم ہیں جس پر ہر طرف سے مصیبتیں ٹوٹ پڑی ہیں اور جسے خوف چاروں سمتوں سے گھیرے ہوئے ہے .. ‘‘
کچھ وقت عبد الحق کی مہارت میں صرف ہوا اور اپنی دکان سے رخصت کرنے سے قبل اس نے میرے سینے پر کیمونسٹ پارٹی کا انسگنیا لگا دیا اور کہنے لگا:
’’یہ نشان تمہیں آئندہ آنے والی بہت سی مصیبتوں سے بچائے گا‘‘
میں نے اسے نوچ کر اپنے سینے سے اتار پھینکا اور کٹے ہوئے بالوں کے کوڑے میں پھینک کر اس پر تھوک دیا اور اسے اپنے جوتے تلے مسل کر باہر نکل آیا …..
میں کہاں جاؤں؟؟ میں اپنے وطن میں اجنبیوں کی مانند کھڑا تھا، یہ زمین اب میری نہ تھی، میرے دوست بھاگ رہے تھے، ان بڑے بڑے حادثوں میں میری بیوی مجھ سے کھو گئی تھی، میں منصور درغا کی جانب چلا تاکہ رات وہیں گزار لوں …
جب میں منصور کے گھر میں داخل ہوا، وہ اور اس کی بیوی ایک دوسرے سے دور بیٹھے تھے، اورکھانے کو کسی نے ہاتھ تک نہ لگایا تھا، وہ ٹھنڈا ہو چکا تھا ..
وہ دونوں میری اچانک آمد پر چونک گئے، منصور نے دکھ سے میری جانب دیکھا تو میں نے اسے بتایا:
’’وہاں کوئی نہیں ملا .. ‘‘
اس نے سر ہلایا:
’’تو وہ بچے کو لیکر کہیں چلی گئی!؟‘‘
’’ہاں، اور کوئی نہیں جانتا کہ کہاں .. ‘‘
منصور کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا، اس کی مونچھیں کپکپائیں:
’’یہ بہتر ہے .. ‘‘
مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، لیکن حسرت سے اسکا دل کٹ رہا تھا، وہ بمشکل بولا:
’’تم نہیں جانتے کیا؟؟ میری بیوی نقصان اور موت سے تو بچ گئی ہے مگر اس نے اس کی قیمت چکائی ہے .. ‘‘
’’کونسی قیمت؟؟‘‘
’’وہ روسی افسران کی مہمان نوازی کرتی رہی ہے .. اس کا مطلب سمجھتے ہو نا؟؟ وہ آئے تھے.. میں نے انہیں خود نشے کی حالت میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا .. تم سمجھ رہے ہو نا؟؟
میں گھر کے ایک کونے میں چوہے کی مانند دبکا رہا تاکہ وہ مجھے قتل نہ کر دیں، اور یہ .. یہ ..میری بیوی ان سے مذاق کرتی رہی اور ان سے اٹھکیلیاں کرتی رہی .. میری خاطر .. وہ یہی کہہ رہی تھی … بولو او بدکارہ عورت‘‘
وہ تناؤ سے چلائی:
’’میں نے مرنا چاہا تھا، لیکن میں بزدل ثابت ہوئی .. انہوں نے جبر سے میری عزت لوٹ لی ..مجھے کوئی بھی جگہ نہ ملی جہاں میں پناہ لے سکوں .. یا ربی مجھے موت کیوں نہ آگئی .. مجھ پر رحم کرو منصور .. انہوں نے تو علماء کی بیٹیوں اور اشرافیہ کی بیویوں کو بھی معاف نہیں کیا .. میں نے کبھی بھی اسے حقیقت نہیں سمجھا .. ایسا لگتا تھا جیسے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے … ‘‘
منصور درغا کے آنسو ابلنے لگے، لیکن وہ خطرناک مزاح کے موڈ میں تھا بولا:
’’ہم آج کی رات یہاں معزز مہمانوں کی حیثیت سے بسر کریں گے .. تمہارے پاس او معزز بدکارہ .. اور کل ہم چلے جائیں گے … تمہیں طلاق ہو .. اور تم .. میں کیا کہوں؟؟ اسے جو قصور وار ہو؟؟‘‘
اس نے آسمان اور زمین کو دیکھا اور مجھے … اور پھر پاگلوں کی طرح قہقہے لگانے لگا ..
***
(جاری ہے)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

  1. ’’کیا تم موت سے ڈرتے ہو مصطفی؟؟ آؤ چلیں .. ہم تاریکی میں گم ہو جائیں گے .. اور پھر دنیاکے سامنے ہمارا نیا روپ ہوگا، فاتح روسیوں کا سا روپ .. شہر میں ہمیں سرخے نظر آئیں گے، سرخ جھنڈے تھامے ہوئے .. اور پارٹی سلوگنز کے ساتھ .. یہ شہر نوحہ کناں ہوگا اور الوداعی مرثیے سنا رہا ہوگا .. تمہیں پتا ہے مصطفی شہر بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں، رنج و الم محسوس کرتے ہیں اور خوشی کے گیت گنگناتے ہیں اور ماتم بھی کرتے ہیں .. شہر زندہ شے ہیں .. انسانوں کی مانند زندہ .. میرا یقین کرو .. ‘‘
    بہترین۔۔۔
    جزاک اللہ۔ڈاکٹر میمونہ حمزہ

جواب چھوڑ دیں