جب دنیا والے سوتے تھے وہ میرے غم میں روتا تھا

انسان معاشرتی حیوان ہے اور اسے قابو میں رکھنے کے لیے محبت، امن، خداترسی ،ہمدردی اوردوسروں کے درد کو محسوس کرنا جیسے جذبات اس کے دل میں ڈالے گئے۔اور  اگر یہی جذبات دین و مذہب اور اخروی زندگی کی فلاح و کامیابی سے جڑ جائیں تو انسانیت عروج کی بلندیوں پر پہنچ جائے۔دنیا میں عدل وانصاف کا ہونااور انسان کااپنے جیسے انسان کےدردکو محسوس کرنا ۔دراصل ازل سے انسان  مسائل میں گھرا رہا اور رب تعالی نے اپنے انبیاء کو انسانیت کےمسائل کے حل کے ساتھ ہی دنیا میں بھیجا۔اور بالآخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حجت تمام ہوئی اور  قیامت تک کے انسانوں کے لئے شریعت محمدیﷺ میں ہی اپنے مسائل کاحل تلاش کرنا لازم ٹھہرا۔ اور ساتھ ہی رب کے ساتھ اس کے محبوب کی محبت لازم قرار پائی۔ محبت بھی ایسی جو انسان کے اپنے فائدے کا سبب بنی نہ صرف دنیا کی زندگی میں کامیابی کا سرٹیفکیٹ قرار پائی بلکہ ہمیشہ ہمیش کی زندگی اور جنت میں داخلے کا پروانہ بن گئی۔اور عاشق رسول بھی ایسے کہ حق ادا کر دکھایا۔

بیعت رضوان کے موقع قریش کے وفد کی زبانی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے احوال کہ محمدﷺکے اصحاب تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی تک نیچے نہیں گرنے دیتے۔ ایسی عزت و اکرام تو میں نے بڑےبڑے بادشاہوں کی نہیں دیکھی۔

 پھر جن سے محبت کی جاتی ہے انہی کے نقش قدم پر چلنے کی جستجو بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ وہی محبت اور نقش قدم پر چلنے کی توفیق ہے کہ جس نے مسلمانوں کو اوج ثریا پر پہنچا دیا اور آدھی دنیا کا حکمران بنا دیا ۔اور یہ وہی محبت ہےکہ ایک مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آن کی خاطرکٹ تو سکتا ہے لیکن انکی حرمت پر کوئی آنچ آئے ،برداشت نہیں کر سکتا۔

اور یہ رشتہ مضبوط اسلیئے ہےکہ آج کا انسان و مسلمان یہ بات جان چکا ہےکہ موجودہ حالات میں تمام مسائل کا حل شریعت محمدیﷺ کی پیروی میں ہے۔

ایک طویل حدیث کا مختصرا مفہوم جس میں آج کے مسائل کا حل موجود ہے اس حدیث میں نبی کریم نے عدی بن حاتم کو تین پیشن گوئیاں دیں اور ساتھ ہی لمبی عمر کی بشارت بھی اور انھوں نے یہ پیشن گوئیاں خلافت راشدہ میں اپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھیں۔کہ ایک عورت سونا اچھالتی ہوتی اکیلی سفر کرے گی اور اسے جنگلی جانوروں کے علاوہ کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔ لوگ زکوۃ لے کر نکلیں اور کوئی لینے والا نہ ہوگا ۔تمام سپر پاور اسلام کے زیر نگیں آجائیں گی۔(مفہوم حدیث)

اگر آج کے حالات میں دیکھا جائے تو انہی تین پیشن گوئیوں میں ہمارے مسائل کا حل موجود ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہےکہ ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ ویسا تعلق قائم کریں جیساکہ حق ہے اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور  انفرادی اور اجتماعی سطح پر شریعت محمدی ﷺکے نفاذ کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔اسکےلیے سلطان صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی جیسے مجاہدین کی ضرورت ہے اور اس سے پہلےایسی ماؤں کی ضرورت ہےکہ جو اپنے دودھ کے ساتھ نبیﷺ سے الفت ومحبت گھول کر پلائیں۔ اپنی اولاد کے دلوں میں للٰہیت،  خشیت ومحبت کی کھیتیاں تیار کریں اس واحد ہستی کی محبت جو راتوں کو کھڑے رہ کرپوری امت کے غم میں روتا تھا۔ ایسی مائیں جو اپنے بچوں کے دل میں اس احساس کو جگاسکیں کہ بقول شاعر

میں فقط خاک ہوں مگر محمدﷺ سے ہے نسبت میری

یہ اک رشتہ ہے جو   میری   اوقات بدل   دیتا ہے

حصہ

جواب چھوڑ دیں