پاک چین اور اویغور مسلمان

پاکستان کی کئی دھائیوں سے اس بات کی کوشش رہی کہ چین سے اس کے تعلقات قربت کے رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں چین سے ہماری تہذیب، تمدن، اخلاق، سماجی قدروں اور مذہب سے کہیں سے کہیں تک بھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی مضبوط خارجہ تعلقات کی خواہش ہمیشہ رہی۔ اس تمام خواہش اور کوششوں کے باوجود بھی چین اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب نہ ہو سکے۔

ایوب خان کے زمانے میں اس بات کی بہت کوشش کی گئی کہ چین ہمارے اورہم چین کے قریب آسکیں لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا بلکہ پاکستان امریکہ کے قریب ہوتا چلا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں تو چین کی جانب قدم بڑھانے کی حد ہی ہو گئی۔ وہ دور تو اس حد تک چین سے قربت حاصل کرنے کیلئے تیار ہوگیا کہ اگر ذرا بھی موقع ملتا تو پاکستان سوشل یا کمیونزم کو بھی اپنانے کیلئے تیار ہوجاتا لیکن تمام تر کوششوں اور خواہشوں کے باوجود چین سے ایسے خارجی یا دوستانہ تعلقات استوار نہ ہو سکے جیسا کہ سوچا اور سمجھا جا رہا تھا اور پاکستانی عوام کو چین کیلئے ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا تھا۔

ایسا کیوں نہ ہو سکا کہ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے بہت قریب آسکیں؟۔ اس سلسلے میں پاکستان میں موجود کچھ قوتیں حائل ہوتی رہیں جس میں اہم رول پاکستان میں موجود مذہبی جماعتوں کا تھا۔ یہ بات ایک معمہ ہے کہ آیا یہ سب مذہبی جماعتوں کی اپنی سوچ تھی یا ان کی پسِ پشت کچھ اور عوامل یا ادارے تھے۔ ان کے پیچھے کون تھا یا کون نہیں تھا، یہ بات تو طے ہے کہ چین اور پاکستان کے بیچ “مذہب” حائل ہو گیا اور پاکستان کے عوام نے چین سے قربت کو مذہب کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے حکمرانوں کو چین سے دور رہنے پر مجبور کردیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشلزم ہو کمیونزم، ان دونوں کا تعلق اسلام سے دور دور تک بھی نہیں لیکن کیا یہ ضروری تھا کہ چین یا روس سے قربت ہمیں ان کے فلسفہ زندگی سے بھی قریب کردیتا۔ راقم کی عقل و سمجھ کے مطابق شاید ایسا نہیں تھا لیکن قوم کو سمجھایا کچھ اس انداز میں گیا تھا کہ چین سے قربت ہماری تہذیب اور تمدن پر بہت گہرے اثرات مرتب کردے گی۔

یہ قیاس راقم کا اس لئے ہے کہ ایک مرتبہ پاکستان پھر چین سے بہت قریب آگیا ہے اور چین نے ایک اچھے پڑوسی کا ثبوت دیتے ہوئے ماضی کی کسی غلطی کو گنائے بغیر پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنی جانب سے کھرب ہا کھرب روپوں کا ایک معاہدہ کیا ہے جس کو “سی پیک” کا نام دیا گیا ہے۔ جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے “چین پاکستان معاشی راہداری”۔ اس معاہدے سے اس بات کے امکانات پیدا ہوئے کہ آنے والے دور میں پاکستان کی معاشی ترقی کے امکانات بہت روشن ہو سکتے ہیں۔

چین کا اس طرح ملک میں داخل ہوجانا، معاشی جد و جہد میں شریک ہونا اور کئی لحاظ سے پاکستان پر چھا جانا ایسٹ انڈیا کمپنی جیسا معاملہ ہونے کے باوجود کسی بھی مذہبی، نیم مذہبی یا سیاسی جماعت کی جانب سے کسی قسم کا شدید یا کم شدید رد عمل کا سامنے نہ آنا ایک حیران کن بات تھی بھی اور اب تک ہے بھی۔ جس وقت چین بہت طاقتور نہیں تھا تو اس کی قربت ہماری تہذیب و مذہب کیلئے اتنا بڑا خطرہ بنا کر پیش کی گئی تھی کہ پورے پاکستان میں ایک زلزلے جیسی کیفیت طاری ہو گئی تھی اور اب جب چین دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت ہے اور اس سے کئی ایسی طاقتیں جو اپنے آپ کو سپر طاقتیں سمجھتی ہیں، خوف کھاتی ہیں، پاکستان ایسا معاہدہ کر بیٹھا ہے کہ شاید جس سے انحراف پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ بن جائے تو پاکستان میں کسی جانب سے بھی نہ تو معاہدے کے آغاز پر کوئی رد عمل سامنے آیا اور نہ ہی اب تک کسی جانب سے بھی کوئی رد عمل دیکھا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے اس کا جواب شاید ہی کوئی دے سکے۔

اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اُس وقت (بھٹو دور میں) جو بھی رد عمل چین کے خلاف سامنے آیا وہ شاید درست ہی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاحال کسی بھی ملک کے خلاف چین کے کوئی جارحانہ یا توسیع پسندانہ خیالات سامنے نہیں آئے لیکن آبادی اور دفاعی ضرویات کے ساتھ ساتھ معاشی ضروریات ممکن ہے کہ چین کو اپنے ملک سے باہر نکل کر پورا کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہو۔ اس قسم کی ضروریات کیلئے یا تو دوستی سے کام چلتا ہے یا پھر زور زبر دستی سے جس کی اعلیٰ مثال امریکہ ہے جس کو اپنی بہت ساری ضروریات پوری کرنے کیلئے اپنی حدود سے باہر نکلنا پڑرہا ہے اور وہ بہت سارے ممالک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا جا رہا ہے یا باالفاظ دیگر ان پر قابض ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں چین کسی طور بھی غافل نہیں رہ سکتا اور اس کی اپنی بقا کیلئے بھی اپنی توسیع ضروری ہے۔

چین توسیع پسندانہ خیالات رکھتا ہے یا نہیں، جو بات بہت زیادہ خطرناک ہے اور خاص طور سے مسلمانان پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ ہے وہ یہ ہے کہ چین مے حکومت مسلمانوں کے ساتھ بہت ہی ظالمانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ ایک ایسی مملکت جس کی بنیاد ہی اس بات پر استوار ہو کہ وہ مذہب کو ایک “افیون” سمجھتے ہوں اور کائینات کے وجود کو ایک مادی حاثہ قرار دیکر اس کے خالق ہی کے قائل نہ ہوں وہ مسلمانوں کا وجود کس طرح برداشت کر سکتے ہیں۔

بی بی سی کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ” چین ایک ایسا ملک بنتا جا رہا جہاں ہمہ وقت آپ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ جہاں آپ ذرا سی غلطی پر سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں۔ جہاں سوچ پر بھی پہرہ ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں غیر ملکی صحافیوں کو پسند نہیں کیا جاتا ہے”۔ آگے چل کر اس کا مزید یہ کہنا ہے کہ “مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گيا ہے۔ لاکھوں لوگ لاپتہ ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگوں کے پاس کوئی حق نہیں ہے۔ آپ کو کوئی عدالت کوئی وکیل نہیں ملے گا۔ مریضوں کے لیے کوئی دوا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ افراد کیمپ سے مردوں کی حالت میں نکل رہے ہیں”۔

صحافی کی رپورٹ کے مطابق وہاں مسلمانوں کے ساتھ بہت ہی ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ بی بی سی کے ہارڈ ٹاک پروگرام میں انسانی حقوق کے “اویغور” پروجیکٹ کے نوری تاکیل نے بتا یا کہ ” میری ماں اور بیوی کو کیمپ میں لے جایا گیا۔ انھیں لکڑی کی سخت کرسی پر بٹھایا جاتا ہے۔ میری بدنصیب ماں کو روزانہ اس عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میری بیوی کا گناہ بس اتنا ہے کہ وہ اویغور مسلمان ہے۔ اس کی وجہ سے، انھیں ایک علیحدہ کیمپ میں رکھا گیا ہے جہاں انھیں زمین پر سونا پڑتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آج وہ زندہ ہے یا نہیں۔ میں برداشت نہیں کر سکتا کہ میری ماں اور بیوی کو چینی حکومت تڑپا تڑپا کر مارے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ انھیں گولی مار دو۔ گولی کے لیے پیسے میں دوں گا”۔

بی بی سی کے مطابق یہ ان ہزاروں اویغور مسلمانوں میں سے ایک مسلمان عبدالرحمن کی آپ بیتی ہے جو کسی طرح سے جان بچا کر ترکی جانے میں کامیاب ہوئے۔ بی بی بی کے ساتھ بات چیت میں برطانیہ میں مقیم ایک اویغور انور توہتی نے چین کے حالات کے بارے میں کہا: “یہ سنہ 1995 کی بات ہے۔ مجھے بلا کر ایک ٹیم بنانے کے لیے کہا گيا۔ پھر وہ ہمیں وہاں لے گئے جہاں لوگوں کو سزا کے طور پر گولی ماری گئی تھی۔ وہاں میں نے ایک جگر اور دو گردے نکالے۔ لیکن اس قیدی کی ابھی موت واقع نہیں ہوئی تھی کیونکہ قیدی کے دانستہ طور پر سینے کے اس حصے پر گولی ماری گئی تھی کہ اس کی جان فوری طور پر نہ نکلے۔

مذکورہ بالا واقعات و تجربات چین کے سنکیانگ صوبے کے متعلق ہیں، جہاں ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔

چین پر یہ الزام ہے کہ اس نے اقلیتوں اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کو قید اور حراستی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔ گرفتار مسلمانوں کی تعدا 10 لاکھ سے بھی کہیں اوپر بتائی جاتی ہے۔

چین میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف چین کی ظالمانہ کارروائیوں کا معاملہ برطانیہ، امریکہ اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے اداروں نے جب جب بھی اور خاص طور پر اویغور مسلمانوں کی حالت پر تشویش ظاہر کی، چین نے علیحدگی پسند اسلامی گروہوں کا خطرہ کہہ کر انھیں مسترد کر دیا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں چین کے ماہر پروفیسر سوورن سنگھ کہتے ہیں “گذشتہ ایک دہائی میں بین الاقوامی ماحول میں تبدیلی آئی ہے۔ دنیا بھر میں ایک خاص کمیونٹی (مسلمانوں) کو انتہا پسندی کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے جو اپنے آپ میں غلط رویہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ باقی دنیا کی طرح چین میں بھی یہ رجحان ہے”۔

وہ مزید کہتے ہیں “اویغور مسلمانوں کے متعلق چینی حکومت کی پالیسی میں اس سوچ کی جھلک ملتی ہے۔ خبریں تو یہی کہتی ہیں کہ تقریباً دس لاکھ مسلمانوں کو عقوبت خانوں میں رکھا ہوا ہے جسے چين سرکاری ‘ری ایجوکیشن کیمپ’ کہتی ہے”۔

کشمیر میں آج بھی چند ایسی گلیاں موجود ہیں جن کے نام ظاہر کرتے ہیں کہ وہاں اویغور مسلمان رہا کرتے تھے۔

آج دنیا میں تقریباً 24 ممالک ہیں جہاں اویغور مسلمان رہتے ہیں، جو چین سے باہر ہونے کے باعث اپنے آپ کو نسبتاً زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

سب سے آخر میں سوورن سنگ ایسی بات کہہ گئے جس نے راقم کے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بے شک پاکستان کے سارے مسلمانوں کو اس بات کا علم تو ہوگا کہ چین میں بھی مسلمان رہتے ہیں لیکن ان کو اس بات کی ہوا بھی نہیں لگی ہو گی کہ وہ نہایت ہی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا اپنا ملک (چین) ان پر ایسے ایسے مظالم ڈھارہا ہے جو جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی روا نہیں رکھے جاتے۔ پروفیسر سوورن سنگھ کیا کہہ گئے آپ بھی ملاحظہ کریں “دوسرے ممالک، جو ہمیشہ اسلام کے نام پر آگے بڑھ کر باتیں کرتے ہیں، چاہے وہ پاکستان، سعودی عرب یا ایران ہو، وہ سب اویغور مسلمانوں کے مسائل پر خاموش رہتے ہیں۔ جب اسلامی ممالک کی تنظیم کی طرف سے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا جاتا تو باقی ملکوں سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟۔

کتنی بے حسی کی بات ہے کہ پاکستان دنیا پھر کے مظلوم مسلمانوں کیلئے دنیا کے ہر فورم پر آواز اٹھاتا ہے۔ کشمیرفلسطین سے لیکر ساری اسلامی ممالک میں جہاں جہاں بھی ظلم و زیادتیاں ہوتی ہیں، پاکستان کی ساری مذہبی اور سیاسی پارٹیاں اور خود حکومت پاکستان صدائے احتجاج بلند کرتی ہے لیکن بڑے تعجب کی بات ہے کہ “اویغور” (چین) مسلمانوں کیلئے کبھی کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ امید کی جاتی ہے کہ اب جبکہ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے ہیں تو اس قربت کا فائدہ اٹھا کر چین سے اس سلسلے میں بات کی جائے۔ ہو سکتا کہ ہماری ذرا سی کاوش سے چین میں بسنے والے مسلمانوں کی مشکلیں نہ صفر کم ہو جائیں بلکہ وہ اسی طرح کے شہری سمجھے جانے لگیں جیسے باقی چینیوں کو سمجھا جاتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں