ترکستان کی سیاہ رات۔15

ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ

(۱۵)

پورے علاقے میں اس رضامندی اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے ریفرنڈم کروانے کی پرزور آوازیں بلند ہونے لگیں، اہلِ سیاست اور مفکرین کی سوچ میں جزوی اختلافات بھی سامنے آئے، لیکن روسی دباؤ پر داخلی پالیسی ایک خاص رخ اختیار کرنے لگی اور سازشی عناصر متحرک ہو گئے۔ روس کے موقف کی حمایت کرنے والے اور ترکستان شرقیہ میں اس کی اسلحے سے مدد کے شکر گزار لوگ نمایاں ہوگئے، جو مذاکرات کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ جدوجہد کی حامی قوتوں نے عوام کو آزادی، خود مختاری اورعلاقے میں اسلامی اصولوں کی حکمرانی کے بنیادی نقطے پر اکٹھا کیا، ان مذاکرات کے نتیجے میں شمال غربی چین کے قائدِ عام ’’جانجی‘‘ کو ترکستان شرقیہ کا حاکمِ عام مقرر کیا گیا، تین ترکستانیوں احمد جان، برہان شہیدی (نائب حاکم) اور ولیم شون (سیکرٹری حاکمِ عام) کو معاون مقرر کیا گیا .. ان چاروں کو انتخابات کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس کی بنا پر اس معاہدے کی توثیق ہونا تھی ..لوگ سرگوشیاں کرنے لگے .. یہ تینوں حضرات روس کے مخلص معاون اور فکر کے اعتبار سے کیمونسٹ تھے، جنہوں نے اپنے نفس شیطان کے آگے گروی رکھ چھوڑے تھے، لیکن متعصبانہ پروپیگنڈہ کے ذریعے ان کے منفی کردار کو یکسر تبدیل کر دیا گیا اور قوم کے ہیرو کی شکل میں ان کی صورت گری کی گئی، جیسے اس آزاد وطن کی بنیادوں میں ان کی جہدِ مسلسل کا بنیادی کردار رہا ہو، جیسے یہ ساری جدوجہد ان کی محنتوں اور روسی اسلحے کی مرہونِ منت ہو، اس عوامی انقلاب کی کامیابی میں روسی امداد اور ان کے زورِ بازو کام آئے ہوں۔ اس سب کایا پلٹ کے باوجود ملک میں عام انتخابات کی تیاری ہونے لگی، کیونکہ عوامی رائے ہی فیصلہ کن ثابت ہونا تھی اور عوام کے دلوں میں ان جنگجؤوں کی قدرو منزلت زندہ تھی ، جنہوں نے سالہا سال دشمن کا پیچھا کر کے اسے ہزیمت کا شکار کیا تھا۔ اسی دوران روس نے اچانک تین علاقوں ’’ایلی‘‘ ’’التای‘‘ اور ’’تشوشک‘‘ پر حملہ کر دیا، ان کا گورنر علی خان دم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا اور پورے عزم سے اعلان کیا:
’’ہم اپنے وطن کی مٹی کا ایک ذرہ بھی غاصبوں کے قبضے میں نہ جانے دیں گے اور نہ ہی ان تینوں ریاستوں میں کسی کی مداخلت برداشت کریں گے .. اور اگر روس نے اپنے عزائم ترک نہ کئے تو ہم فوری طور پر اس کے خلاف اعلانِ جہاد کر دیں گے‘‘
پورا علاقہ روسی فتنوں اور خلفشار میں ڈوب گیا، عثمان باتور تنک کر بولا:
’’روسی طمع کی کوئی حد نہیں ہے‘‘
صدر علی خان بولے:
دنیا ہمیں اپنے عالمی جنگ کے زخموں کی مرہم کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے .. اور اسٹالین نہایت شقی القلب ہے .. رحم کے معانی سے نا آشنا .. ‘‘
’’ہماری جنگ ختم ہو کر بھی ختم نہیں ہوئی .. ‘‘
علی خان عثمان باتور کے قریب آکر کہنے لگے:
’’جنرال .. اپنی فوج کے پاس چلے جاؤ .. اور تیار رہو .. ‘‘
سیاسی افق پر پراسرار حرکتیں ہونے لگیں، میں نے اپنی بیوی سے کہا:
’’نجمۃ اللیل .. کوچ کا وقت آگیا ہے .. ‘‘
’’اورومجی چلیں .. ‘‘
وہ رعب سے بولی:
’’میں وہاں نہیں جانا چاہتی .. وہاں کی یادیں مجھے کرب میں مبتلا کرتی ہیں‘‘
’’تو پھر قومول … ‘‘
’’قومول میں بھی .. وہاں کے جھوٹے قصے میرے اور تمہارے لئے نئی مشکلوں کے دروازے کھول دیں گے .. ‘‘
’’کیا خیال ہے اگر ہم کاشغر چلے جائیں .. ‘‘
’’کوئی حرج نہیں .. ‘‘
’’وہاں تم بچے کے ساتھ آرام سے رہ سکو گی .. اور مجھے تو پھر پہاڑوں پر جانا ہوگا … ‘‘
تلخ ایام پھر لوٹ آئے .. اور روس اپنی قیمت وصولنے لگا .. ‘‘
صدر علی خان اپنی بیوی ’’وذویہ‘‘ کے ساتھ محل میں بیٹھے تھے، محل سے باہر رات ساکن اورپرسکون تھی، لوگ گھروں میں قصہ گوئی میں مصروف تھے، آنے والے انتخابات اور نئے معاہدے ان کی گفتگو کا مرکز تھے، کہ کیمونسٹ نوجوانوں کے ایک اسلحے سے لیس گروہ نے صدارتی محل پر دھاوا بول دیا، ان کی آنکھوں اور ایک ایک حرکت میں غداری اور خیانت کی بو رچی ہوئی تھی:
’’تم کیا چاہتے ہو؟؟‘‘
’’ہمارے ساتھ چلو‘‘
’’تم بھول گئے میں صدر کے عہدے پر فائز ہوں‘‘
’’ہم جانتے ہیں، لیکن اگر تم ہمارے ساتھ نہ چلے تو ہمارے پاس گولی چلانے کے سوا کوئی اختیار نہیں بچے گا .. ‘‘
صبح ہوئی تو شیخ علی خان کا پتا نہیں چل رہا تھا، لوگ سرگوشیاں کر رہے تھے، اس بار ہمیشہ کی طرح وہ نمازِ جمعہ میں کیوں شریک نہیں ہوئے اور وہ اپنے عسکری رفقاء سے رابطہ کیوں نہیں کر رہے، جنہوں نے ان کے ساتھ مل کر چینیوں کو شکستِ فاش دی تھی .. شیخ علی کے بارے میں متضاد خبریں اور باتیں گردش کرنے لگیں، لیکن حکومتی حلقوں کی جانب سے سرکاری بیان جاری کیا گیا کہ صدرِ مملکت شیخ علی خان بغرضِ علاج ماسکو چلے گئے ہیں …
نئے سرے سے تعذیب کدے بھرنے لگے .. راہ چلتے لوگ غائب ہو جاتے .. کبھی فیکٹریوں سے .. اور کھلیانوں سے .. تینوں ولایات (جہاں اسٹالین دراندازی کے خواب دیکھ رہا تھا) سے روسی فکر کے مخالف سیاست دان قید کئے جانے لگے اور یہاں مشہور ترکستانی کیمونسٹ لیڈر احمد خان کو صدر مقرر کر دیا گیا ..
جب روسی فوجیں التائی پر قبضے کے لئے پہنچیں، جنرال عثمان باتور اپنے عسکریوں کے ہمراہ سامنے آیا اور روسی لشکر پر گھات لگا کر حملہ کیا، یوں معرکہ گرم ہو گیا ..
روسی تعداد اور سامانِ حرب میں فوقیت رکھتے تھے۔ عثمان باتور کو ’’غوجن‘‘ میں پناہ لینی پڑی اور اس کے قلعہ نما غار اس کے لئے بہترین اوٹ ثابت ہوئے‘‘
معرکے کے بعد منصور درغا لنگڑاتا ہوا آپہنچا، میں نے اسے دیکھا، تو رو دیا:
’’یہ کیا ہوا؟؟‘‘
وہ تلخی سے مسکراتے ہوئے بولا:
’’ہر معرکے میں میری کوئی عزیز شے کھو جاتی ہے .. ایک بار میرا بازو کھو گیا تھا، دوسری مرتبہ معرکہ میری پیاری بیوی لے گیا .. امن کے دنوں میں میں نے التائی میں ایک بیوہ سے شادی کی ہے .. جانے اب وہ کس حال میں ہے؟؟ میری داہنی پنڈلی روسیوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئی، اس کے باوجود کہ میرے ہاتھ میں ان کی امداد میں ملا ہوا روسی اسلحہ تھا .. ہماری دنیا بھی کتنے عجوبات سے بھری ہوئی ہے .. ‘‘
وہ ہذیانی کیفیت میں بڑبڑاتا میرے قریب ہی گر پڑا، اس نے ہفتوں کے پیاسے کی مانند پانی پینا شروع کر دیا، پھر وہ اپنی ٹانگ کی پٹی کھول کر اس سے گردوغبار جھاڑ کر دوبارہ باندھنے لگا ..
سورج غروب ہوتے ہی افق پر خون آلود سرخی چھا گئی وہ بے اختیار کہنے لگا:
میں جب بھی غروبِ آفتاب کی لالی دیکھتا ہوں مجھے آخرت یاد آجاتی ہے .. یہ انتہا کا اشارہ ہے .. ‘‘
’’دنیا دکھوں سے کیوں بھری ہوئی ہے منصور ؟؟‘‘
’’تم اب سے مجھے شکست خوردہ کہہ سکتے ہو .. ‘‘
اس نے ایک قدیم ترکستانی قومی گیت گنگنانا شروع کر دیا
او محبوبہ رات تاروں سے مزین ہے ..
ظلمتوں کے سکوت میں قیدی کی مانند نوحہ کرتی ہوئی
حسینہ کے روپ میں!
تاریکی قدم بڑھا رہی ہے
غلامی کے ساحل سے
اس کے زیورات بے قیمت ہیں .. لیکن چمک رہے ہیں
اس کی آنکھوں میں ابھی تلک گیت سرگوشیاں کر رہے ہیں
تیرے روشن چہرے سے
اے پیاری
لیکن ہمارا ملن محال ہے ..
میرے سپنے نامعلوم سرزمین سے وابستہ ہیں
میں آزادی کی تلاش میں ہوں … پورے اخلاص اور شان سے
میں ہنس کر کہا:
’’تمہاری بیوہ محبوبہ زندگی کی چالیس بہاریں تو دیکھ چکی ہو گی اور بلا شبہ رات کے اس پہر اس کے خراٹے فضا کے سکوت کو برباد کر رہے ہوں گے .. ‘‘
منصور نے چونک کر اسی مایوسی سے مجھے دیکھا اور بولا:
’’کیا میں نے تمہیں کہا نہیں تھا؟؟ لو روس نے وہی کچھ کیا نا اور وہ تینوں علاقے ہم سے چھن گئے اور اب وہ باقی سرزمین کو ہڑپ کرنے کے چکر میں ہے .. اس کا اگلا نشانہ کاشغر اور اورومجی ہونگے، روسی قونصلیٹ لوگوں کو خرید رہے ہیں، کچھ لوگوں کو منظر سے غائب کیا جا رہا ہے اور کتنے ہی قتل ہو رہے ہیں .. انہوں نے سب کچھ خرید لیا حتی کہ سونے اور چاندی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں … اس کی وجہ جانتے ہو؟؟ وہ اکانومی اور سیاست، فکر اور دین سب میں فساد مچا رہے ہیں .. اس فساد میں کتنے ہی بدعمل ہم وطن بھی شامل ہیں .. ‘‘
جس علاقے میں ہم نے پناہ لی تھی وہ واقعی ایک قلعہ تھا، اس کے پیچ دار مشکل راستوں کے سبب روسیوں کا وہاں پہنچنا آسان نہ تھا، ہمارے پیچھے آنے والے روسیوں کا انجام یقینی ہلاکت کے سوا کچھ نہ تھا، اب ہم بھی آزمودہ کار ماہرِ فنِ حرب بن چکے تھے، اور ہمیں گوریلا جنگ کا کافی تجربہ ہو چکا تھا، روسی حکام پوری کوشش کر رہے تھے کہ ہمارے بارے میں ہر طرف جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلا دیں۔ وہ ہماری کردار کشی کریں، تاکہ عامۃ الناس ہماری جدوجہد آزادی سے لاتعلق ہو جائیں … جنرال عثمان باتور نے ایک اور معرکے کی قیادت سنبھالی اور ہم بڑی تعداد میں التائی کی جانب پیش قدمی کرنے لگے، جلد ہی ہم نے اس پر قبضہ کیا اور روس کو نکال باہر کیا .. اسٹالین کے پیروکار او کیمونسٹ خائن بھاگ نکلے، جنرال باتور نے ایک بار پھر اپنا قبضہ مضبوط کر لیا …
اس روز منصور درغا ہنس کر کہنے لگا:
’’یہ میری بیوی کی خوش نصیبی ہے .. وہ دوسری مرتبہ بیوہ ہونے سے بال بال بچ گئی‘‘
ہم شہر میں داخل ہوئے تو با حجاب عورتوں نے شہر سے کے دروازے پر گیت گا کر جنرال کا استقبال کیا، مردوں نے فلک شگاف نعرے لگائے اور بچوں نے فتح کے ترانے گائے .. تکمیلِ نصرت کے ساتھ ہی ہمارے علاقے کی حقیقی مسرتیں لوٹ آئیں، ہر جانب روشنی پھیل گئی، اور مساجد سے اﷲ اکبر اور سبحان اﷲ کی صدائیں بلند ہونے لگیں …
میرے تصور کا دائرہ پھیلنے لگا، جیسے ہمارے آباء واجداد الفارابی، البیرونی، البخاری اور ابنِ سینا اپنے عمامے باندھے لوٹ آئے ہوں، اور دورویہ راستوں پر کھڑے ہمیں جہاد کی کامیابی پر مبارک دے رہے ہوں اور ہمارا استقبال کر رہے ہوں …
میں قدیم بزرگی کو نیا لبادہ اوڑھے محسوس کر رہا ہوں، میرا دل اعتماد سے بھر جاتا ہے اور امید میری روح کو سرشار کر دیتی ہے …
***
(جاری ہے)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں