تعلیمی نظام کا المیہ

ملک کی کل آبادی کےدو کروڑ سے زائد بچے آج  بھی اسکول نہیں جاتے اور جو  بچے اسکولوں میں داخل ہیں وہ  بھی معیاری تعلیم حاصل نہیں کررہے۔اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے موجودہ تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے اور اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ ایک ناقص نظام ِتعلیم کی ہمیں مستقبل میں کیا قیمت چکانی پڑے گی۔ صرف اسکولوں کی حالت بہتر بنانے سےتمام مسائل حل نہیں ہوجائیں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل میں علم کے حصول کی جستجو اور لگن پیدا کریں۔ ہمیں اپنی آنے والی  نسلوں کیلئے ایک ایسا ماحول بنانا ہوگا  جس کے ذریعے طالبعلموں میں علم  کے حصول کا شوق پیدا کیا جاسکے اوروہ  تعلیم کے ذریعے اپنے احساسات و خیالات کو عمدہ طریقےسے بیان کرسکیں نہ کہ صرف تعلیم کو نوکری کے حصول کا ذریعہ سمجھا جائے ۔ اگر ہم اپنے بچوں کو ایسا تعلیمی ماحول فراہم  نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب ہے ہم پاکستان کو ناکامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

ہمارے  ملک میں سیکھنے اور علم حاصل کرنے کا ماحول پیدا نہیں  کیا جاسکا اور نہ ہی ایسا سازگار ماحول بنایاگیاجو  لوگوں کو کچھ سیکھنے اور کچھ نیا کرنے پر اکسائے ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو صرف رٹا لگانے کو کہا جاتا ہے بجائے اس کے کہ  ان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ باریک بینی سے سوچیں کہ وہ کیا سیکھ رہے ہیں کوئی بھی طالبعلم رٹا لگا کر اپنا نصاب یاد کر سکتا ہے اور امتحان دے کر سب بھلا سکتا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ معلومات کو استعمال کر کےدنیا میں استعمال کرے اور اس کی مدد سے معاشرتی نظام کو سمجھ سکے اور اس میں نظر آنے والے مسائل کے حل کے لیے طریقہ کار پیش کر سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے طلباء کو کلاس رومز میں اپنے اساتذہ سے سوالات کرنے ہوں گے اور صرف خاموش بیٹھ کر ، سر ہلا کر ہاں میں ہاں ملانے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ بچوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کہ وہ مل جل کر کام کریں اور مشترکہ طور پر سوچیں کہ وہ کیا سیکھ رہے ہیں اوراپنے مستقبل کا لائحہِ عمل تیار کریں۔ ایک دفعہ ان بچوں میں علم کے حصول  اور سیکھنے کا شوق پیدا ہو جائے تو وہ آگے چل کر اپنے بچوں کو بھی اسی راہ پر گامزن کریں گے اور ان میں سیکھنے کے ماحول کو فروغ ملے گا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسکولوں کا معیار بہتر بنانے کے علاوہ اسکولوں کو سہولیات کی فراہمی اور تربیت یافتہ  اساتذہ تعینات  کرنا  بھی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا رویہ بھی تبدیل کرنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ ایسا ماحول پیداکیاجائے جس سے بچوں میں علم حاصل کرنے کی لگن پیدا ہو۔

وہ لوگ جن پر اس ملک کے نظام تعلیم کی بہتری کی ذمہ داری عائد ہوتی  ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچیں اورفیصلہ کریں  کہ ہم اپنے ملک  کو کیسا مستقبل دینا چاہتے ہیں؟ اس کے لیےایک طویل منصوبہ سازی کی ضرورت ہے  جس میں اسکولوں کا کردار واضح ہو کہ وہاں سے کس معیارکے طالبعلم نکلیں گے اور وہ کیسے معاشرے کے مفید شہری بن سکیں گے ۔ بچوں کو ریاضی، سائنس اور مختلف زبانوں کی تعلیم دینے کے علاوہ مطالعے کا شوقین بنایا جائے اور ساتھ ساتھ لکھنے اور بولنے کی تربیت دی جائے تاکہ وہ اپنے خیالات کا موثر طریقے سے اظہار کر سکیں ۔ یہ سب کرنے کے لیے نصاب میں تبدیل ضروری ہے کیوں کہ ابھی تک اسکولوں میں صرف وہ پڑھایا جاتا ہے جو بچے رٹا لگا کر یاد کر سکیں۔

پاکستان کے معروف ماہر طبیعیات اور پہلے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام نے کہا تھا کہ ’ہمیں ایک گھر وراثت میں ملا ہے لیکن اس میں کوئی کھڑکی نہیں ہے اور اس کی دیواریں بہت اونچی ہیں جس سے یہ واضح نہیں  ہورہاکہ ہمیں گھر ملا ہے یا جیل’۔اس قول کامطلب حقیقی جیل نہیں بلکہ سوچ کی جیل ہے۔ اگر ہمیں سوچ کی اس جیل سے چھٹکا را حاصل کرنا ہے تو تعلیم کے شعبے پر توجہ دینے ہو گی۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں