اساتذہ کرام ایک عظیم نعمت

اساتذہ کے بغیر معاشرہ جانوروں کی طرح ہے،اساتذہ معاشرے میں نمک کی مانند ہیں،جیسے ہر سالن میں نمک کی ضرورت ہوتی ہے ،ایسے ہی معاشرے میں اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے، گویااساتذہ ایک طالب علم کو علم سیکھاتے ہوئے معاشرے کی ساخت اور شکل وصورت بناتے ہیں۔اساتذہ کرام،خواہ وہ دینی علوم سے آراستہ کرنے والے ہوںیامختلف علوم وفنون سے آشناکرنے والے ہوں،سبھی ادب واحترام کے لائق ہیں۔دنیا میں جو بھی آیا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اسے دینی اور عصری علوم دونوں کی کوضروت رہتی ہے۔اس لیے ان علوم وفنون سے آشناکرنے والے اساتذہ کرام کاادب و احترام کرنابے حدضروی ہے۔اساتذہ کرام اپنے علم اور تجربے سے طالب علم کو ایسے ایسے گر سکھا دیتے ہیں اور وہ کچھ پڑھا اورسمجھادیتے ہیں کہ اگرطالب علم خود اسے حاصل کرنے کے لیے سفر طے کرنے لگے تو اس کی زندگی کاکافی حصہ بیت جائے۔اس لیے اساتذہ کرام اس دنیا میں وہ ہستیاں ہیں جو نونہالانِ قوم کو تعلیم دیتے ہوئے علم وفضل کی بلندیوں تک پہنچادیتے ہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچانہیں؟کہ آج ہم جو پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہوئے اور اس کی وجہ سے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے ہیں وہ اللہ تعالی کے فضل وکرم کے بعداساتذہ کرام کی شفقتوں اور دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ طالب علم اور استاد دونوں لازم ملزوم ہیں ،دونوں کا یہ روحانی رشتہ بہت گہرا رشتہ ہے۔ جس طرح والدین کی گستاخسی کرنا گناہ ہے، اسی طرح اپنے مربی اساتذہ کرام کا ادب واحترام نہ کرنے والا گستاخ ہے اور ایسی ہستیوں کی عزت و توقیر کرنا ضروری ہے ۔صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور محدثین عظام وغیرھم نے اپنے اساتذہ کرام کے ادب و احترام میں ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیئے ہیں کہ آج کا طالب علم سن کر دھنگ رہ جاتا ہے۔
امام المحدثین ،سید الفقہاء سیدنا حضرت ابو ہریرہؓ امام کائنات ﷺ سے علم حاصل کرنے لیے جاتے تو آپ ؐ کے دروازے اور آپ ؐ کی راہ میں بیٹھ جاتے، اگر آپ سو رہے ہوتے تو تعظیماًاٹھاتے ہی نہ کہ کہیں معلم اعظمؐ کی گستاخی نہ ہوجائے۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا ،میں اس کاغلام ہوں،اب وہ چاہے مجھے بیچے ،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے‘‘۔
امام حمادبن سلیمان اپنے عہد کے بڑے محبوب اساتذہ میں سے تھے۔ان کے ایک شاگرد حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں،ان کاگھراپنے استادمحترم کے گھر سے سات گلیوں کے فاصلے پر ہے ،لیکن امام صاحب کااپنے استاد محترم کے بارے ادب واحترام دیکھیے کہ استاد کے گھر کی جانب کبھی پاؤں کر کے نہ سوتے ،کہیں استادمحترم کی توہین نہ ہوجائے اوردوران درس کبھی استادمحترم کا بیٹا آجاتا توامام ابوحنیفہ احترام میں کھڑے ہوجاتے۔
امام ابن شہاب زہری کا اپنے استاد سے ادب دیکھیے کہتے ہیں: ’’میں علم کو حاصل کرنے کے لیے اپنے استاد عروہ بن زبیرکے پاس آتا اور میں دروازے پر ہی بیٹھ جاتا ،کہتے ہیں میں اندر جا سکتا تھا لیکن ان کی عزت اور ادب و احترام کے پیش نظر میں دروازے پر ہی بیٹھا رہتا‘‘۔
امام غزالی فرماتے ہیں اساتذہ کرام کاحق والدین کے حق پر فوقیت رکھتا ہے وہ اس طرح کہ باپ تو انسان کے ظاہری وجود کی اس فانی زندگی کا باعث ہوتا ہے، جب کہ حقیقی اور باقی رہنے والی زندگی کاباعث استاد ہو گا،اسی طرح استاد اپنے شاگرد کو دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ کراتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے کامیاب ہو جائے۔
اساتذہ کرام کے احترام ومقام میں ایک عربی شاعربڑے اچھے اندازسے نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے:جب کوئی شخصیت تمہیں علمی فائدہ پہنچائے تو اس کے ہمیشہ شکر گزاررہو ،دعا مانگو کہ اے اللہ! فلاں شخصیت کو جزائے خیر دے کہ انھوں نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے اور فخر وحسدکو اپنے آپ سے بالکل نکال دو اور مزیداہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہتاہے کہ’’استاد روح کا مربی ہے اور روح ہی تو اصل چیز ہے،جب کہ باپ بدن کا مربی ہے‘‘۔:دراصل یہی احساس اساتذہ کے ادب واحترام پر ابھارتا ہے اور اگر علم بہت بڑی دولت ہے تواس علم سے آشنا کرنے والے بھی بہت بڑی نعمت ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اساتذہ کے ادب و احترام کاہر لحاظ سے خیال رکھا جائے،ان سے بے پروا نہ ہوا جائے اوران کے لیے دعائیں کی جائیں۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

4 تبصرے

جواب چھوڑ دیں