تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔۔ 

انابیہ جلدی جلدی اپنے اگلے دودن کی مصروفیات کو سمیٹنے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھی۔ محمل بڑی حیرانگی سے انابیہ کی پھرتی کو دیکھ رہی تھی ۔ کہاں انابیہ دن کے نو گھنٹے سونے میں گزارتی تھی ، جاگنے پر وہ چھالیہ چباتے ہوئے کوئی رسالہ یا ڈائجسٹ پڑھتی اور رات گئے تک امی کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد جلدی جلدی اپنے کمرے کی صفائی کے ساتھ ساتھ لگے بندھے معمول کے کام ختم کرتی اور اب کہاں یہ پھرتی ؟؟؟؟؟ محمل سے رہا نہ گیا تو وہ پوچھ بیٹھی جواباً انابیہ نے معنی خیز نظروں سے محمل کو دیکھا اور بولی ۔
” چھ اکتوبر کو ہم چینل پر ایوارڈ شو ہونے جارہا ہے اور میں اس انٹرٹینمنٹ کو مس کرنا نہیں چاہتی “

” کیااااا ؟؟؟ وہ بےہودہ پروگرام ؟؟ اس کی وجہ کر تم اتنی پھرتیلی ہورہی ہو ؟؟” محمل کی حیرانگی اب ملامت میں بدل گئی تھی۔

“پلیز محمل اب کوئی درس دینا مت شروع کردینا۔” انابیہ بےزارگی سے دونوں ہاتھ اٹھا کر جوڑتے ہوئے بولی۔

” ہاں محمل پلیز کچھ مت کہنا ۔۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی عقلوں پر میڈیا نے مہرلگادی ہے” علی بھیا کمرے میں کب داخل ہوئے دونوں اس بات سے ناواقف تھیں ۔ علی بھیا کی بات پر انابیہ نے ناراضگی سے انہیں دیکھا وہ اپنے بھیا کی چہیتی تھی ۔۔ علی بھیا بستر پر بیٹھتے ہوئے اپنے جوتے اتارتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔

“یہ 1987 کی بات ہے ، سوئٹزلینڈ کے شہر “بال” میں تین سو یہودی دانشور مفکر اور فلسفی ہرٹزل کی قیادت میں جمع ہیں اور پوری دنیا پر حکمرانی کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ یہ منصوبہ 19پروٹوکول کی صورت میں عرصہ ہوا پوری دنیا کے سامنے آچکا ہے ۔ اس منصوبہ کو یہودی دانشوروں کی دستاویز بھی کہتے ہیں۔ اس پلان کی تیاری میں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی 30 یہودی انجمنوں کے ذہین ترین ارکان نے حصہ لیا انہوں نے جہاں یہ طے کیا کہ تمام دنیا پر حکومت کرنے کے لیے سونے کے ذخائر پر قبضہ ضروری ہے وہیں ذرائع ابلاغ کو بھی بنیادی اہمیت دی گئی اس دستاویز ک الفاظ ہیں ۔؛ ” ہم میڈیا کے سر کسی گھوڑے پر سوار ہوکر اس کی باگوں کو اپنے قبضے میں رکھیں گے۔ ہم یہودی ایسے مدیروں ، ایڈیٹروں اور نامہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کریں گے جو بدکردار ہوں اور ان کا مجرمانہ ریکارڈ ہو ہم ان کو دنیا کے سامنے ہیرو بنا کر پیش کریں گے اور اگر کسی نے بغاوت کی کوشش کی تو اس کا کام تمام کردیں گے ” تو ڈئیر انابیہ کافروں کو اگر سب سے زیادہ کسی کا ڈر ہے تو وہ مسلمانوں کا ہے ان کی یکجہتی اور پاکدامنی کا ہے کیونکہ حیا اور ایمان کا چولی دامن کا ساتھ ہے ،جب ایک رخصت ہوجائے تو دوسرا بھی رخت سفر باندھ لیتا ہے ،اگر تم “انگریزوں” کی نقالی پر فخر محسوس کرتی ہو تو یہ کوئی “فخر” کا مقام نہیں بلکہ افسوس کا مقام ہے کہ تم ذہنی طور پر “معزور” ہو ۔ مارننگ شو ہو یا ڈرامہ ، فلم یا انٹرٹینمنٹ کہ نام پر جو کچھ بھی دکھایا جارہا ہے وہ دراصل ایک سازش ہے ،چھ ستمبر کو جس پروگرام کو کشمیریوں کے نام کیا جارہا ہے کیا تم نے کبھی کسی کشمیری لڑکی کو بےہودہ لباس میں دیکھا ہے ؟؟ وہ آزادی کی جنگ لڑہی اسلامی طرز اندگی کو اپنانے کے لیے رہے ہیں اور انہی کے نام پر بےہودگی دکھائی جارہی ہے یہ سازش دراصل  مسلمانوں کو ذہنی طور پر معذور کرنے کی ہے مسلمان وہ ہوتے ہیں جن کے قدموں سے زمین لرزتی تھی جن کی تلوار سے ظلم کا خاتمہ ہوتا تھا ، اب ۔۔۔۔ ” بھیا کی آواز تقریباً رندھ چکی تھی پھر بھی وہ مزید بولے ۔۔ ” اب ہماری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا قید میں ہونا ہر طرف مسلمانوں کا ظالموں کے ہاتھوں پسپا ہونا، اس بات کی نشاندہی ہے کہ مسلمان اپنی اہمیت سے اپنی طاقت سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ خدا کی قسم اگر عمر فاروقؓ کے دور میں ایسے حیاسوز پروگرام کا انعقاد ہوتا تو وہ اپنی تلوار سے ایک ایک کا سرقلم کردیتے اور آج ہم ہاتھ جوڑ جوڑ کر ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ بس کرو یار درس دینا بند کردو ، کیونکہ ہم تو کاپی پیسٹ مسلمان ہیں ، ہمیں کیا پتا اسلام کی لذت اور کلمہ شہادت کی اہمیت ۔۔۔ ہم ڈر سے ایک دوسرے کو کچھ کہ نہیں پاتے کہ کہیں ہمیں “پینڈو” ہونے کا طعنہ نہ مل جائے ۔۔ جبکہ یہی وقت ہے ہوش کے ناخن لینے کا اور اپنی آنکھوں اور ذہنوں سے غلامی کا پردہ ہٹاکر بےحیائی و عریانی سے نکل کر حیا کا دامن تھام لینے کا ۔۔ برائی کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا ورنہ؂

 تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں