ترکستان کی سیاہ رات۔12

ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ

(۱۲)

انہیں دنوں جنگِ عظیم شروع ہو گئی، ایک جانب ہٹلر تھا اور دوسری جانب روس، انگریز اور امریکہ کا متحدہ محاذ۔ ہٹلر اور اس کی جرمن فوجوں کے کارناموں سے دنیا سراسیمہ ہو رہی تھی، بلا شبہ انہوں نے دنیا کی قوت کے میزان الٹ دیے تھے، ہم پہاڑوں پر جرمنوں کے مغربی روس میں اثر و رسوخ اور کارناموں کی خبریں، اور روسیوں کی رجعتِ قہقری کے بارے میں سنتے، عثمان باتور جبلِ آلتائی پر ایک جمعِ غفیر سے خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے:
’’اے مردانِ شجاع ..
آج ایک نازک اور خطرناک دن ہے، ہمارے علاقے اور ہو سکتا ہے کہ ہماری نسلوں کا مستقبل اس سے وابستہ ہو اور اس سرزمین پر ہماری طویل جدوجہد بھی، جب سے قیاصرہء روس نے ہمیں حرص بھری نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا ہے اور یورپی متعصبین کو مسیحی مشنریوں کے روپ میں اکسانا شروع کیا ہے اور دہائیوں پہلے جب چین نے ہماری عظیم مملکت کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھنا شروع کیا ہے .. جنگجؤوں کی سرزمین کو .. بزرگوں کی .. اور اسلام کے ابدی معرکوں کو .. اور جب سے دشمنوں نے ہماری سرزمین کے حصے بخرے کرنے شروع کئے ہیں، ہمارے امراء اور عیش پرست حکام کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر .. میں آپ کو ماضی کی داستانیں زیادہ دیر نہیں سنا سکتا .. میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں آزادی کسی نے طشتری میں سجا کر نہیں دی، ہم نے حریت کی عمارت اپنے کندھوں پر اٹھائی ہے .. روس کا دعوی جھوٹا تھا جب وہ ہماری مدد کو لپکا تھا اور چینیوں کے وہ دعوے فریب تھے جب وہ ہمیں حریت اور استقلال کے حسین سپنے دکھا رہے تھے .. اور اس سے بھی پہلے قیاصرہ اور ’’اسٹالین‘‘ نے جھوٹ کہا تھا، بالکل اسی طرح چینی لیڈروں ’’چن یان چن‘‘ وغیرہ نے کذب بیانی کی تھی .. اور اب بھی تم دیکھ رہے ہو کہ علاقے میں طاقت کے بل بوتے پر حکومت قائم کی جا رہی ہے، ہزاروں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا ..اور لاکھوں کو ٹارچر سیلوں میں تعذیب کا نشانہ بنایا گیا .. ترکستان کے با اثر لوگ قید کی چکی میں پس رہے ہیں .. اور ہمارے زعمائے کرام اور حریت لیڈروں سے قید خانوں میں جنگی قیدیوں کا سا برتاؤ نہیں کیا گیا اور انہیں برے طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان کی عزت اور شرف کو خاک میں ملایا گیا، حالانکہ وہ اس سرزمین کے بہترین سپوت تھے اور اب وہ دھوکے بازوں اور نا خلف نوجوانوں کی ایک نئی قیادت تشکیل دے رہے ہیں اور بستیوں شہروں اور علاقوں کی زمامِ کار ان کے حوالے کر رہے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ ہمارے علاقے میں علم اور دورِ جدید کی آگہی پھیلا رہے ہیں۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ روسی پوری دنیا کو آزادی دلانے کے لئے ہٹلر سے لڑ رہے ہیں اور خود اپنے پڑوس میں آزادیوں کا قتل کر رہے ہیں اور یہی کچھ چین جاپان کے ساتھ کر رہا ہے .. وہ بپھرے ہوئے بیلوں کی طرح باہم سینگ لڑا رہے ہیں .. اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ترکستان غربیہ کی کئی ریاستوں قوقاز وغیرہ سے مسلمانوں کا ایک بڑا لشکر جرمنی کے خلاف جنگ میں روس کا معاون ومدد گار بنا ہوا ہے ..
اے جنگجؤو! ہم اپنی سرزمین کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں .. اور دشمن خواہ کسی بھی روپ میں ہو ہم اسے دشمن ہی تصور کرتے ہیں۔ ہم دینِ اسلام کی مدافعت کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنی قدیم تہذیب کی .. اور روس مشرق کے خطرناک معرکے میں اب اپنی عزت خاک میں ملا رہا ہے، جرمنی ماسکو میں داخل ہوا ہی چاہتے ہیں اور چین، جاپان سے خوف کا شکار ہے ..
ہماری جنگ آج بھی جہاد فی سبیل اﷲ ہے … ہمارا فرض ہے کہ دشمن پر کاری ضرب لگاتے رہیں حتی کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے اور جب ہم آزاد ہو جائیں گے تو سب سے دوستانہ تعلقات استوار کریں گے۔ ہمارا علاقہ کسی پر زیادتی نہیں کرے گا اور نہ ہم طمع کا شکار ہونگے .. ہماری سرزمین جس مال اور شرف سے مالامال ہے وہ ہمارا ہونا چاہیے، کیا ہم آزادی کے لائق نہیں .. ؟؟ روس طاقت سے ہماری جدوجہد کا خاتمہ نہیں کر سکا، وہ زچ ہو کر ہمارے شہریوں کا خون بہانے لگا اور انتقاماً عوام کا نقصان کرتے ہوئے ان کے سروں پر مسلط ہو گیا …
آج بڑی اور فیصلہ کن جنگ کے سوا بچنے کی کوئی راہ نہیں … ‘‘
نعروں اور تکبیر سے پہاڑ گونج اٹھے اور اگلے کچھ دنوں میں لشکر مارچ کرنے لگا، روسی فوجیں گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگیں اور ہم ’’اورومجی‘‘ سے کچھ میل پیچھے رہ گئے۔ روس اپنی کافی فوج کو پہلے ہی جرمن فوج سے مقابلے کے لئے علاقے سے بھیج چکا تھا اور یہاں ترکستانیوں نے باقی ماندہ فوج پر فیصلہ کن ضرب لگانی شروع کر دی، مغربی ترکستان کی صورتِ حال بھی ایسی ہی تھی، روسی فوج کی رجعتِ قہقری نے عجیب و غریب حقائق سے پردہ اٹھایا، جو ایک عرصے سے پنجہ ء استبداد تلے زندگی گزار رہے تھے، جو ریکارڈ وہ چھوڑ کر بھاگے اس کا لفظ لفظ انکے مظالم کی داستان سنا رہا تھا، کتنے ہی ترکستانی خاندانوں کو صفحہء ہستی سے مٹا ڈالا گیا تھا، روسی فوج کے تعذیب خانوں میں تین لاکھ سے زائد افراد تشدد کا نشانہ بن رہے تھے، ان سے رہا ہونے والے روسی سفاکی کی ہولناک داستانیں سنا رہے تھے۔ ان تعذیب خانوں نے ان کے جسموں پر اس تشدد کے ایسے انمٹ نشان چھوڑے تھے کہ دیکھنے والوں کا جسم کانپ اٹھتا تھا، انہیں شہداء کی میتیں بھی نہ ملیں کیونکہ روسی انہیں خفیہ طور پر لے جاتے اور عجیب طریقوں سے انکا نام و نشان تک مٹا ڈالتے، بس اتفاقاً انہیں دو میتیں ملیں ، جو کیمیائی گیسوں کے ذریعے دم گھٹنے سے شہید ہوئیں تھیں، جنہیں بعد میں رئیس جمہوریہ ترکستان خوجہ نیاز حاجی اور کمانڈر جنرال شریف خان کی حیثیت سے شناخت کر لیا گیا، اسی طرح شدید بارشوں نے خفیہ ادارے (ج. ب..أو) کی عمارت کو زمیں بوس کر دیا، یہ وہی ادارہ تھا جسے روسیوں نے اپنے شدید دشمنوں کے لئے تعذیب خانے کے طور پر استعمال کیا تھا، اس عمارت کے ملبے سے تین ہزار انسانی پنجر برآمد ہوئے، جس سے پتا چلا کہ یہ عمارت ترکستانی عوام کے جیل خانے کے طور پر بھی استعمال ہو رہی تھی اور انہیں یہاں مقفل کر کے چھوڑ دیا گیا، کوئی دیکھنے بھی نہ آیا کہ وہ کس حال میں ہیں۔اس لرزہ خیز منظر کو دیکھنے کے لئے ہر جانب سے ترکستانی عوام ٹوٹ پڑے ..
نجمۃ اللیل کی آنکھیں جل تھل ہو گئیں وہ کہنے لگی:
یہ سب کیسے مر گئے؟؟ مصطفی میں تو تصور بھی نہیں کر سکتی، کیا یہ انتہائی قساوت نہیں .. آہ تاریک کمرے .. ان کی مدد کے لئے پکار کو کس نے سنا ہو گا .. بھوک .. پیاس .. کھال ادھیڑتے کوڑے .. کتنوں کی آنکھوں میں سپنے سجے ہوں گے .. اپنی بیویوں کے لئے .. جگر گوشوں کے لئے .. اور جس نے اپنا دل کسی کے حوالے کیا ہو گا .. یا الہی تیری دنیا میں یہ ستم بھی ہوتا ہے .. اﷲ کی لعنت ہو روس پر .. ‘‘
عالمی انقلاب کے مدعی ہم سے کیا چاہتے ہیں .. اگر اسٹالین نبی ہوتا اور جنت کی خوشخبری سنا رہا ہوتا تو بھی میں اس پر یقین نہ کرتی .. اس قوم سے خیر کی امید کون رکھ سکتا ہے جس کے کھاتے میں یہ ظلم و قساوت ہو .. ان کھوپڑیوں کے ڈھیر کو دیکھو .. یہ کس طرح ایک دوسرے پر گرے پڑے دم توڑ گئے .. شدید سردی میں وہ ایک دوسرے سے چمٹ کر بیٹھے اور یوں ہی اگلی دنیا سدھار گئے .. ان شدتوں میں انہوں نے اﷲ سے کس قدر التجائیں کی ہوں گی .. یہ وہی لوگ تھے جو اس خوبصورت سرزمین کے سبزہ زاروں اور پہاڑوں پر پوری آزادی سے ہنستے گاتے، چلتے پھرتے تھے، کس خوفناک صورت میں موت نے ان کا استقبال کیا .. ان کریہہ ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہو .. ‘‘
میں نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا:
’’جب انسان مر جائے تو اسے کسی چیز کا احساس نہیں ہوتا .. اپنے آپ کو اذیت نہ دو .. ‘‘
’’عذاب میں تو ہم ہیں .. اور ہمیں اس دکھ کو محسوس کرنا بھی چاہیے .. تاکہ ہمارے اندر ان سارے سرکش ظالموں کے لئے ابدی نفرت پیدا ہو .. ‘‘
’’دل نہ جلاؤ .. دیکھو ہم ہر جگہ انکا تعاقب کر رہے ہیں .. ‘‘
نجمۃ اللیل نے آنسو پونچھ ڈالے اور کہنے لگی:
’’مصطفی اب میں تمہارے ساتھ مزید نہیں چل سکتی .. ‘‘
’’کیوں؟؟‘‘
وہ آہستگی سے بولی:
’’میں امید سے ہوں .. ‘‘
میں نے بارش کے بعد کھلے آسمان تلے بکھرے ہوئے انسانی پنجروں کو دیکھا، میری نظر نجمۃاللیل کے زرد پڑتے پردرد چہرے پر آ کر رک گئی، میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی:
’’اﷲ نے ہمیں بیٹا عطا کیا تو ہم اس کا نام خوجہ نیاز رکھیں گے .. ‘‘
وہ تلخی سے مسکرائی، میں اسے نئے گھر میں لے گیا اور اسے بتایا:
’’میں ایک ہفتے بعد چلا جاؤں گا، ’’ایلی‘‘ اور ’’آلتائی‘‘ کے علاقے معدنیات اور دولت سے مالامال ہیں انہیں روس کے قبضے سے چھڑانا ضروری ہے .. ‘‘
یوں سخت معرکے جاری رہے، روسی پیٹھ پھیر کر بھاگتے رہے، عثمان باتور نے عسکری قائدین کیساتھ ایک خصوصی ملاقات میں بتایا:
’’اے لوگو .. تمہیں معلوم ہے کہ انہوں نے ترکستان میں چینی حاکم (شین سی تسائی) کے ساتھ کیا کیا؟؟‘‘ ہم نے چونک کر دیکھا، وہ ہمیشہ کی طرح ہولے سے بولا:
’’اسے روسی لے گئے ہیں‘‘
اتنی اچانک خبر پر ہم سب یکبارگی چیخے:
’’کیسے؟؟‘‘
’’سیاست کا کھیل .. اور اس کی آلودہ مصلحتیں‘‘
’’لیکن وہ تو باہم حلیف تھے اور انہوں نے ہی تو اس کے گرتے ہوئے اقتدار کو بچایا تھا‘‘
’’ہاں انہوں نے اسی لئے اسے بچایا تھا ناکہ وہ ان کے ہاتھوں میں کھیلے، تاکہ وہ اسکا استحصال کریں اور اس کے ذریعے سے پورے علاقے میں کہرام مچائیں .. وہ صاحبِ اختیار تھا مگر اس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں تھی، وہ چینی رہنما ’’چیانگ کائی چیک‘‘ سے رابطے میں رہا، تاکہ اس سے بھی تعلقات پختہ رہیں اور بوقتِ ضرورت اس سے مدد بھی لے سکے .. ‘‘
صاف بات ہے کہ شین سی تسائی روس سے تنگ آ چکا تھا، لیکن روسی مشیروں اور ماہرین کی فوج ظفرموج کے ہوتے ہوئے وہ ان سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا تھا، لیکن جب روسیوں کی بڑی تعداد جرمنوں کا مقابلہ کرنے چلی گئی اور عثمان باتور کے عسکریوں نے اس کا دائرہ تنگ کرنا شروع کیا تو شین نے موقع غنیمت جانا اور کچھ روسیوں کو گرفتار کر کے چینی رہنما چانگ کائی چیک کے پاس بھجوا دیا، اور معذرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہمارے خلاف مدد کا خواستگار ہوا .. اور شین کے پاس اس کے سوا کیا چارہ تھا .. اور اب یہ افتاد ہم پر آ پڑی تھی کہ روس کو پسپا کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر تازہ دم چینیوں کے ساتھ اگلے راؤنڈ کے لئے صف آراء ہو جائیں .. ہماری قیادت نے جنگ کا بگل بجا دیا اور حکم جاری کیا کہ ہر شخص جو اسلحہ اٹھانے کے قابل ہے اپنی سرزمین کو ان چینی چوہوں کے وجود سے پاک کرنے کے لئے میدان میں اتر آئے، عثمان باتور اتمامِ حجت کے لئے خود چینی حاکم شین سے ملا اور اسے خبردار کیا کہ وہ اپنی فوج سمیت علاقے سے نکل جائے ورنہ ہلاکت ان سب کا مقدر بنے گی ….
شین کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، ہمارے لشکر نے اسے اور اس کے عاملین کو چاروں جانب سے گھیرلیا۔ ان میں اس کا سگا بھائی بھی تھا ۔چیانگ کائی شیک بھی انکی مدد کو نہ پہنچا، عوام ان پر ٹوٹ پڑے اور ان سے چھٹکارا پانے کے لئے انہیں جہنم واصل کرنے لگے، اس انقلاب نے ان کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا .. اﷲ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے آسمان تھرا اٹھا …
’’ تقدیر نے ہمیں تیسری مرتبہ ملا دیا ہے مصطفی حضرت‘‘
میں نے دیکھا تو میرا زندگی بھر کا رفیق منصور درغا کھڑا تھا …
’’آہ اے منصور … تم کتنے بدل گئے ہو .. تمہارے سر میں سفیدی اتر آئی ہے .. اپنے حقوق کی خاطر لڑتے ہوئے منصور .. ‘‘
میں نے محسوس کیا کہ اس کا بایاں بازو حرکت نہیں کر رہا، اور اس نے بندوق دائیں ہاتھ میں اٹھا رکھی ہے، میں نے بے ساختہ اسے گلے لگا لیا .. ‘‘
میری نگاہیں اس کے چہرے پر ٹک گئیں، اس کے چہرے کی تازگی ختم ہو چکی تھی، اس کے سرکے بال اڑ چکے تھے، ہاں اس کی خاکستری ڈاڑھی اسی طرح بارعب تھی .. اس کی آنکھوں میں غم نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے تھے …
’’کیا خبریں ہیں منصور؟؟‘‘
’’ہم نے روس پر فتح حاصل کر لی ہے .. ‘‘
میں ہنس پڑا، یہ خبر کوئی نئی نہیں، بچہ بچہ جانتا ہے، اسے بھی اندازہ ہو گیا کہ اس کا جواب مجھے مطمئن نہیں کر سکا.
’’میری خانہ بدوش حبیبہ بھی مر گئی .. روسیوں نے اسے ذبح کر دیا بالکل ایسے جیسے کسی عالی شان دعوت میں بھیڑ ذبح کی جاتی ہے ..انہوں نے وحشیوں کی طرح اسے تقسیم کر لیا .. وہ چیختی چلاتی اور بچاؤ کرتی رہی .. شکاری جانور رحم سے نا آشنا ہوتے ہیں .. رہے روسی ..
وہ اپنی انگلیاں کاٹنے لگا .. ‘‘ نہیں .. نہیں .. میرے قید خانے سے فرار کی خبر پھیل گئی .. کاش میں نہ بھاگا ہوتا .. میرے لئے بہتر تھا کہ منہدم ہونے والی خفیہ کی عمارت سے برآمد ہونے والے ڈھانچوں میں میرا وجود بھی پنجر بن چکا ہوتا .. تم پوچھو گے کہ کیوں؟؟ انہوں نے مجھے ہر جگہ تلاش کیا .. اور جب وہ ناکام ہوگئے تو وہ میرے پورے خاندان کو بچوں اور عورتوں سمیت اٹھا لائے .. اب تم مجھ سے ان کا انجام پوچھو گے تو میں انتہائی افسوس سے کہوں گا .. وہ سب چلے گئے .. ‘‘
اس کی آنکھیں برسنے لگیں:
’’وہ وہاں چلے گئے جہاں ان پر کوئی ظلم نہ کریگا .. ‘‘
وہ آنکھیں پونچھ کر بولا:
’’تم کیا سمجھتے ہو کہ میں ان کے جانے کے بعد کسی اچھے حال میں ہوں؟؟‘‘
میں نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا:
’’آؤ .. نجمۃ اللیل تمہیں دیکھ کر خوش ہوگی .. ‘‘
اس نے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے میری جانب دیکھا جیسے وہ کچھ بھول رہا ہو:
’’نجمۃ اللیل؟؟‘‘
’’ہاں .. میری بیوی‘‘
’’تمہاری بیوی .. ناممکن .. تم جانتے ہو .. ‘‘
میں اعتماد سے ہنسا:
’’وہ کتنے ہی فدائی معرکوں میں میرے ساتھ شریک رہ چکی ہے … ‘‘
اس کے اندر کا زخمی صحافی کہیں سے پھر زندہ ہو گیا وہ کرید کر بولا:
’’کیا تم مصطفی مراد حضرت ہی ہو؟؟‘‘
’’ہاں … ‘‘
اور وہ صحافی کھلکھلا کر ہنس پڑا:
’’یہاں ’’اورومجی‘‘ میں اور آلتائی، کاشغر اور قومول میں تم دونوں کے بارے میں کافی باتیں پھیلی ہوئی ہیں .. ‘‘
’’تمہاری کیا مراد ہے؟؟‘‘
’’تم دونوں کو زندہ یا مردہ پکڑوانے والے کو انعام میں سونا دیا جائے گا … ہوں .. تو وہ تم ہو؟؟ بڑا دلچسپ اخباری قصہ ہے .. ‘‘
میں نے اس کے کندھے پر دیکھا اور اس قہقہے لگاتے صحافی سے استفسار کیا:
’’پہلا ستارہء امتیاز .. ‘‘
’’ہاں دوست عثمان باتور کی جانب سے .. ‘‘
’’اور شین سی تسائی کے عہد میں .. دنیا بھی کیا ہے!!‘‘
چاند کی روشنی اپنی کمزوری کا احساس دلا رہی تھی اور میرے سامنے منصور بیٹھا تھا، وہ بڑبڑایا:
’’امیرِ قومول مر گیا، میرا خیال ہے کہ انہوں نے ہی اسے مارا .. امراء بکھر گئے، یا شقاوت اور ظلم و جور ان کا مقدر بن گیا .. ان کی عورتیں ہر جانب بکھر گئیں .. دنیا کے سمندر میں موجیں اٹھتی رہتی ہیں اور ایسے واقعات جنم لیتے رہتے ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں .. گویا ہمارے نصیب میں تمام عمر جنگ و جدل ہی لکھا گیا ہے .. ‘‘
’’منصور یہاں جہاد فی سبیل اﷲ سے اشرف کوئی چیز نہیں .. ‘‘
’’میں جانتا ہوں .. لیکن کبھی کبھی اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولنے کو دل چاہتا ہے .. مجھے بچپن کے خوبصورت معصومیت بھرے دن یاد آتے ہیں .. اپنے اور غدار .. اور سرسبز زمین اور خوبصورت صبحیں .. دنیا کی آسائشیں .. یہ سب کچھ کیوں چلا گیا؟؟ کیا ہمیشہ خوشیاں پانے کے لئے انسان کو شقی بننا پڑتا ہے؟؟ خوشیاں کہاں روٹھ گئی ہیں؟؟ ہاں ہم فتح یاب ہو چکے ہیں .. لیکن اتنی فتوحات اور ان سے لپٹی ہزیمتوں نے اس معاملے کو ہلکا کر دیا ہے .. کبھی کبھی مجھے یہ احساس کچوکے لگانے لگتا ہے .. مجھے معاف کرنا .. انسان میں انسان نما چیز کا وجود نہیں بچا .. میری بیوی کیوں مر گئی؟؟ میرا بوڑھا باپ کیوں مر گیا؟؟ اور میری ماں اور میرے بھائیوں اور میرے پورے خاندان کا خون کیوں بہایا گیا؟؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ سب آخر وقت تک قرآن کی تلاوت کرتے رہے .. میرا باپ بلند آواز سے آیۃ الکرسی پڑھتا رہا .. اور جلاد قہقہے لگاتے رہے .. وہ کیوں ہنستے رہے؟؟ مصطفی .. میں نجمۃ اللیل سے ملنا چاہتا ہوں .. میں اس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیسے ان بھیڑیوں کے درمیان رہی؟؟ وہ کیسے انہیں کھانا کھلاتی رہی اور انہیں پانی پلاتی رہی؟؟ کیا وہ انسان تھے؟‘‘
مجھے احساس تھا کہ منصور اپنے غموں اور اپنے خاندان کے سبب جامِ الم پی رہا ہے، اور درد کی بے رحم ٹیسیں اسے اسی طرح بے چین کرتی رہتی ہیں اور کبھی یہ جوار بھاٹا بہت کچھ بہا لے جاتا ہے اور اس کے حواس قابو میں نہیں رہتے.
میں نے محبت سے اس کا کندھا تھپکا اور ہولے سے کہا:
’’کیا تم اﷲ پر ایمان رکھتے ہو؟؟‘‘
’’ہاں …. ‘‘
اس کی آنکھیں ابل پڑیں وہ بمشکل بولا:
’’اور جب انہیں کسی مصیبت کی خبر سنائی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں انا ﷲ و انا الیہ راجعون.
***
(جاری ہے)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں