ترکستان کی سیاہ رات۔11

ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ

(۱۱)

مجھے عجب راحت کا احساس ہو رہا تھا، میں کمانڈوز کی طرح پہاڑوں کی بلندیاں تسخیر کررہا تھا، چوٹیوں پر پہنچ کر انسان آسمان سے کتنا قریب ہو جاتا ہے، آفاق کی سچائیوں کو دیکھتا ہے، فضا میں کتنی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ میرا سینہ مزید کشادہ ہو رہا ہو، جیسے میں پروں کے بغیر پرندہ ہوں، نجمہ اللیل کبھی میرے ہمراہ اور کبھی گھوڑے کی پشت پر میرے پیچھے ہوتی، سورج کی کرنیں اس کے زرد چہرے پر چمک رہی تھیں اور اس کی سرخی بڑھا رہی تھیں، وہ اپنی پرانی ہیئت میں لوٹ آئی تھی، جیسے وہ قصرِ امیر میں تھی، وہ بہت خوش نظر آتی، مگر گرم ترکی حمام نے اس کی عادتیں بدل ڈالی تھیں، شروع شروع میں اسے کافی دقت کا سامنا ہوا اور کبھی کبھی آرائش کا سامان نہ پا کر وہ چڑ جاتی، وہاں کوئی بھی صبح شام اس کی کبریائی کا دم بھرنے والا نہ تھا ،بڑے لوگوں کی عادتیں اسی سے خراب ہو جاتی ہیں۔ پہاڑوں پر لوگ بڑے فطری انداز میں رہتے ہیں، عورتیں مردوں کے ساتھ مشقت طلب کاموں میں شریک ہوتی ہیں۔ ارد گرد کی فضا اس کے لئے بالکل نئی تھی، ایسی کچھ تنگیوں کے علاوہ وہ ہر چیز میں آگے بڑھ کر حصہ لیتی، اس کا چہرہ کھلا رہتا، وہ کتنی ہی بارپورا قصہ سنا چکی تھی .. کہ اس نے باودین کو کیسے قتل کیا .. باودین کی آنکھوں میں خوف کے سائے کس طرح لرزاں تھے .. اس کی منت سماجت .. امید .. اور وہ کیسے رحم کی بھیک مانگتا رہا‘‘
مجھے معلوم تھا کہ اسے اپنے اس عمل پر کتنا فخر ہے .. اور یوں کٹھن سفر طے کر کے ہم ’’آلتائی‘‘ پہاڑ پر پہنچ گئے …..
یہاں ہمارے ہیرو عثمان باتور کی کمین گاہ تھی جس نے روسیوں اور چینیوں کی نیندیں اچاٹ دی تھیں، اس نے کتنے ہی ہم وطن ترکستانیوں کو روسی کیمونزم کی گود میں بیٹھ کر خیانت کرنے کی سزا دی .. عثمان باتور عقابی نگاہیں رکھتا تھا، خوبصورت مضبوط جسم، لمبی مونچھیں، گھنی ڈاڑھی اور اونچی ناک اس کے رعب کو بڑھا دیتے۔ وہ بہت پرسکون انداز میں رہتا، بات بہت کم کرتا، گہری سوچ میں ڈوبا رہتا .. میں اسے بہت اچھی طرح جانتا تھا .. بلکہ اس کے اکثر ساتھیوں سے بھی واقف تھا .. وہ پہاڑوں کی گودا جماتی سردی میں موٹا لباس پہنتا، یہ سب لوگ کتنے اچھے تھے، تیز آندھیوں میں ڈٹے ہوئے، دشمنوں کی چالوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار، اتنے سالوں سے موت اور فریب کا بے نظیر شجاعت سے مقابلہ کرتے ہوئے، ان کے ’’اﷲ اکبر .. اﷲ اکبر‘‘ کے نعروں کی گونج پہاڑوں کو ہلا دیتی، انہیں پہاڑوں کی کھوہوں میں ان کے کتنے ہی کیمپس تھے، میں نے ان میں سے کئی کیمپوں میں وقت گزارا اور انہیں مذبح خانوں کی صورتِ حال اور مجبوروں کے الم کی دردناک داستانیں سنائی اور بعض چھاپہ مار کاروائیوں اور خفیہ سرگرمیوں میں شریک ہوا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ میں عثمان باتور کے قریب ہو جاؤں .. کیونکہ مجھے وہیں اپنے خیال کے موافق ماحول مل رہا تھا، جہاں میری تربیت ہو سکتی تھی، میں ان کے ساتھ کام کر سکتا تھا اور میری منصور درغا سے بھی ملاقات ہو سکتی تھی ..
آخر کار ہم نے اپنا گھوڑا بیچ ڈالا اور پہاڑ پر ایک چھوٹی سی بستی میں پناہ لی جہاں چرواہے اورکسان رہتے تھے، فضا میں ہلکی ٹھنڈک شروع ہو چکی تھی، ہم نے کچھ راتیں اسی بستی میں گزاریں ..
نجمۃ اللیل بولی:
’’ہم کب تک یونہی چلتے رہیں گے؟‘‘
’’ہم جاتے اور لوٹتے کہیں نہیں رکیں گے‘‘
’’یہ بہت پر تھکن ہے .. ‘‘
’’ یہی جنگ ہے‘‘
’’میری یہ مراد نہیں تھی‘‘
’’تم کیا چاہتی ہو؟؟‘‘
’’کہ اب ہم شادی کر لیں .. کیونکہ تمہیں کبھی فرصت نہیں ملتی .. تمہیں قصرِ امیر میں ہماری آخری ملاقات یاد ہے .. کاش تم اس وقت فیصلہ کر لیتے .. ‘‘
میں نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما، وہ رس گھلے لہجے میں بولی:
’’ہم کب تک یونہی رہیں گے؟‘‘
’’بلاشبہ اس بستی میں کوئی عالمِ دین ہونگے‘‘
’’میں ابھی پتا کرتی ہوں .. ‘‘
’’یہ کام مجھ پر چھوڑ دو .. ‘‘
’’میں آج بہت خوش ہوں .. ‘‘
’’ہم مہم جو ہیں .. ‘‘
’’اور کیوں نہ ہوں مصطفیٰ .. ‘‘
’’ہم یونہی رہیں گے حتی کے بچوں کے بعد بھی بلکہ بڑھاپے میں بھی یونہی خوش رہیں گے؟‘‘
’’اﷲ جانے .. ‘‘
ہماری شادی کی تقریب مختصر اور خوبصورت تھی، بستی والے اس میں شریک ہوئے، چرواہوں نے خوبصورت گیت گائے، لڑکیوں نے رقص کیا، دل کو گرمانے والے طبلے بجائے گئے اور شادی کا کھانا پیش کیا گیا، یوں زمانے کی نظروں سے اوجھل ہم نے دس دن گزارے، پھر نجمۃ اللیل نے اپنے زیورات بیچے اور ہم نے دو گھوڑے خریدے اور نئے سرے سے چلنا شروع کر دیا ..
سنو میری پیاری .. یہاں شیر دل جوان بستے ہیں .. ہم یہیں رہیں گے .. یہاں مردوں عورتوں اور بچوں پر مشتمل بستی ہے .. یہ سب جنگ کے سوا کسی شے سے واقف نہیں ہیں ..
یہاں جنگ کے معنی زندگی اور آزادی کے ہیں .. اور جنگ اﷲ کی راہ کا فریضہ ہے .. جب ہم فتح یاب ہو جائیں گے اور اپنے وطن پر قابض ہو جائیں گے تو خوبصورت اور پر رونق زندگی کا آغاز کریں گے .. ‘‘
وہ مسکرائی اور بادلوں بھرے آسمان کو دیکھتے ہوئے بڑے جذب سے بولی:
’’کیا اس سے زیادہ خوبصورت اور پر رونق زندگی بھی ہو سکتی ہے جو اب ہم گزار رہے ہیں؟؟‘‘
’’ہاں پیاری .. جب سلامتی کا راج ہوگا، اور اسلامی مملکت اہلِ اسلام کے سپرد کر دی جائے گی .. دشمن دم دبا کر بھاگ جائیں گے .. پھر ہم زندگی کے مزے لوٹ سکیں گے .. اور ہم واقعی خوشی پا لیں گے .. ہمیں اعلی مقصد کی خاطر جینا ہو گا .. جو میری اور تمہاری محبت سے بھی بڑھ کر ہے .. عنقریب پورا ترکستان ابدی محبت کے ترانے گائے گا .. اور میں اور تم اور ہم جیسے کئی اور ان مقدس نغمات کی شیرینی کی بنیاد بنے ہونگے .. اور اس کی پائندگی کا باعث .. یہی مملکت زمین پر ہماری جنت ہوگی‘‘
***
(جاری ہے)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں