اچھے کاموں کو سراہنے کا کا فقدان

کوئی بھی  اچھا کام ہو اسکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔یہ انسانی فطرت ہے کہ کوئی بھی اچھا  کام کرنے پر اسکی حوصلہ افزائی کرنے سے اس کام میں اسکی دلچسپی مزید بڑھے گی۔وہ پہلے کی بنسبت زیادہ محنت اور لگن سے وہ کام کرے گا۔ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز بھی یہی ہے کہ وہ اپنے مخالف کے ہر اچھے کام کو سراہتے ہیں اور بے جا تنقید سے گریز کرتے ہیں۔محض مخالف کے اچھے کو صرف اس وجہ سے نہ سراہنا کہ وہ مخالف ہے یہ یقینا ہر لحاظ سے زیادتی ہوگی۔

ہر انسان نیکی کے بجائے برائی کی طرف جلد راغب ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے دوسروں کی غلطیاں اور برائیاں زیادہ نظر آنے لگتی ہیں۔جب ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کے عیبوں پر نظر ڈالے رکھے گا تو ملک میں محبت کی فضا کے بجائے نفرت کی فضاء قائم ہوگی۔اور کچھ عرصہ بعد انسان اپنے اردگرد موجود لوگوں سے بغض رکھنا شروع کردے گا۔کبھی تو یہ بغض مسجد کے امام سے ہوگا،کبھی تو یہ بغض کسی فوجی جوان سے ہوگا،کبھی تو یہ بغض جج سے ہوگا اور کبھی تو یہ بغض ملک کے سیاستدان سے ہوگا۔

کچھ عرصہ تک یہ بات ناپسندیدگی تک محدود ہوگی کہ مجھے فلاں کا یہ کام(اچھا)پسند نہیں،لیکن اس کے بعد یہ ناپسندیدگی نفرت تک جا پہنچتی ہے،پھرنتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر اچھے کام کی تعریف بھی ناپید ہوجاتی ہے۔جب سے ہمارا ملک “پاکستان”وجود میں آیا ہے بدقسمتی سے یہ روایت اسی وقت سے چل پڑی تھی کہ مخالف کے اچھے کام پر بھی تنقید کے نشتر برسائے جائیں۔یہ ہماری قدیم روایت ہے کہ ہم نے سیاستدان ،عدلیہ اور فوج نے جو برے کام کیے ہیں یا کررہے ہیں ان پر تنقید کی،اور تنقید مہذب معاشرے کا حصہ ہے لیکن اس تنقید کی زد میں ہم ان کے اچھے کام تک بھول گئے۔ہر شعبے کے اچھے اور برے کام دونوں ہوتے ہیں،اچھے کام کو سراہنے کا مزاج اپنانا چاہیے اور برے کاموں پر تنقید بھی کرنے چاہیے۔

گذشتہ ادوار میں بھی حکومت کی اچھی پالیسیوں پر محض پوائنٹ اسکورنگ کیلئے تنقید کی گئی اور یہی تنقید اب بھی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 73 ویں سالانہ اجلاس سے وزیر خارجہ خورشید شاہ کا قومی زبان”اردو” میں خطاب کرنا ایک بہترین روایت قائم کرنا ہے،اس روایت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے  اور اسی روایت کو جاری رکھا جانا چاہیے،مگر بدقسمتی سے کچھ مخالفین اس پر بھی حوصلہ افزائی کے بجائے تنقید کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ کا مسئلہ نبوت کو عالمی سطح پر اٹھانا، جو کہ ہر مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے، ایمانی تقاضا بھی ہے اور تحریک انصاف حکومت کا وعدہ بھی تھا جسے پورا کیا گیا۔اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اس پر وزیر خارجہ کو داد دی جائے لیکن ایسا ہوا نہیں جو کہ بالکل مناسب نہیں۔کشمیر،فلسطین اور دیگر جگہیں جہاں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے ان پر گفتگو کرنا اور کلبھوشن یادیو کے مسئلہ پر بات کرنا یہ سب ایسے نکات ہیں جن پر وزیر خارجہ کی تحسین کرنی چاہیے اور حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔لیکن ہوا ایسا نہیں ہوا ویسا ہی جیسا کہ تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں کیا کہ ہر کام پر تنقید کی۔اس ادلہ کے بدلے کی سیاست نے ہمارے ملک کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کردیا ہے۔میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ وزیر خارجہ کی اس تقریر سے غربت کا خاتمہ ہوجائے گا مگر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ تقریر ہر مسلمان کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے اور بہترین تقریروں میں سے ایک تقریر ہے۔

ہم بات تو کرتے ہیں ترقی یافتہ ممالک کی مگر ہمارا کوئی کام ان ترقی یافتہ ممالک کی طرح کا نہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں ہمیشہ مثبت کام کو سراہنے کا رواج ہے اور ہر برائی پر مہذب انداز میں  تنقید انکی ایک اچھی مثال ہے۔اسلام میں بھی ان اچھے کاموں کو  بدستور قائم رکھا گیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے کے تھے۔اور جو برائیاں تھیں انکو جڑوں سے اکھاڑا گیا۔یھی ہماری زندگی کا اصول ہونا چاہیے کہ جو کام اچھا ہو اس کو اچھا سمجھا جائے اور جو کام برا ہو اس پر مناسب طریقے سے تنقید کی جائے۔ تنقید بھی ایسی نہ ہو کہ جس سے ملک کو نقصان پہنچے اور طرز تنقید بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جس سے ملک کو نقصان نہ پہنچے، کنٹینر والی تنقید کی طرح تنقید بالکل بھی درست نہیں۔

اچھے کام کو سراہنے کا ہمارے ملک میں واقعی فقدان ہے۔ہمیں اپنی سوچ کو وسیع رکھ کر ہر اچھے کام کی حوصلہ افزائی اور برے کام کی بیخ کنی کرنی چاہیے۔مایوسی کے بجائے امید دلانی چاہیے تاکہ ہر اچھا کام جاری رکھا جاسکے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں