کرپشن کارپوریشن

1994 کی بات ہے کہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لئے مجھے اپنی گریجو یشن کی ڈگری تصدیق کی ضرورت پڑی،یونیورسٹی کے اصول و ضوابط کو پایہ تکمیل پہنچاتے ہوئے ڈگری جمع کروادی گئی اور مجھے پندرہ دن بعد آنے کا کہا گیا۔ٹھیک دو ہفتے بعد جب تصدیق شدہ ڈگری وصول پانے کے لئے یونیورسٹی اولڈ کیمپس مطلوبہ دفتر پہنچا تو ایک لمبی لائن نے میرا استقبال کیا،مجھے یاد ہے جون کی گرمی اپنے عروج پر تھی ،کیچوے کی سی سست روی کا شکار لائن ہمارے نظام کا منہ چڑا رہی تھی ۔خدا خدا کرکے میری باری آئی تو میرے ہاتھ سے پرچی لیتے ہی کلرک بادشاہ مجھ سے گویا ہوا کہ ابھی آپ کی ڈگری گورنر آفس سے وصول نہیں ہوئی اگلے ہفتے آئیے گا۔یہ سنتے ہی میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کیونکہ آئندہ ہفتے سے مراد مزید پانچ صد روپے(اس وقت کا خرچہ) کو چونا لگ گیا۔عالم حیرانی میں ابھی اسی لائن میں ہی کھڑا ہوا تھا کہ ایک دوسرا کلرک بادشاہ جو ہماری باتیں اور میری پریشانی دیکھ رہا تھا مجھ سے مخاطب ہوا کہ ادھر میرے پاس آؤ اور بڑے پیار سے پوچھا کہ بیٹا مجھے بتاؤ کیامسئلہ ہے؟میں نے فوراً ہی اسے ساری اسٹوری سنا ڈالی اور روانی روانی میں میرے منہ سے یہ بھی نکل گیا کہ اگر مجھے دوبارہ آنا پڑ گیا تو میرا پانچ سو روپے کا نقصان ہو جائے گا۔اس کلرک بادشاہ نے بڑے پیار سے مجھ سے پوچھا کہ اچھا تم کہاں سے آئے ہو ،میں نے جواب دیا کہ ابھی بتی چوک اپنے آفس سے آ رہا ہوں یہ سنتے ہی وہ معاً بولا کہ ایڈریس تو آپ نے کمالیہ کا دیا ہوا ہے۔میری سمجھ سے یہ بات بالا تر تھی کہ اسے میرے پوسٹل ایڈریس کا کیسے پتہ ہے،یعنی ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔خیر بحث اور مسئلہ کا سرا یہ نکلا کہ اگر میں انہیں ایک سو روپیہ دے کر ان کی جیب گرم کر دوں تو میرا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔میں نے جب جمع تفریق کیا تو عافیت اسی میں جانی کہ انہیں سو روپیہ ادا کر کے اپنی ڈگری وصول کر لی جائے اور باقی چار سو روپیہ بچانے میں کامیاب ہو جاؤں۔
اب اتنے سالوں بعد جب اپنے ارد گرد کے سیاسی ،معاشی اور معاشرتی ماحول کو دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسائل کوئی نئے نہیں ہیں،کرپشن کوئی نئی بات نہیں ہے۔ہر بندہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کرپشن کے اس درخت کی آبیاری میں لگا ہوا ہے ،جو اب بڑھتے بڑھتے گھنے جنگل کی سی صورت حال اختیار کر گئی ہے۔پچھلے چند سالوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ چپڑاسی سے بیورو کریٹ اور ناظم سے وفاقی وزیر تک جس کسی کے خلاف بھی کرپشن کا کوئی کیس سامنے آیا ہے کروڑوں اور اربوں کی کرپشن ہی سامنے آئی ہے۔بندہ خدا اکیلا آدمی اربوں کی کرپشن کیسے کر سکتا ہے۔اس کا جواب مجھے کلرکوں کے اس رویے سے ملتا ہے جنہوں نے میری تصدیق شدہ ڈگری دینے سے قبل باقاعدہ ایک اسٹوری اور فلمی صورت حال بنا رکھی تھی۔جو مجھ سے ایک سو روپیہ وصول کرنے کے بعد باقاعدہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا بھی رہے تھے۔یعنی کرپشن ،کو اپریشن(تعاون باہمی)سے اب باقاعدہ ایک کارپوریشن کی صورت اختیار کر چکی ہے۔موجودہ حکومت کے پیش کردہ منی بجٹ نے جہاں قومی خزانہ کا راز افشاں کر دیا ہے وہاں سابقہ حکومتوں کے کرپشن زدہ معاشرے کو بھی بے نقاب کر دیا ہے،کہ کیسے ہمارے سیاسی لوگوں نے اس ملک کے ساتھ کوٹھے پہ بیٹھی طوائف جیسا سلوک کیا کہ ملک کی بوٹیاں بوٹیاں نوچ لیں۔مگر میرا سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن کی اس صنعت کو کیسے ایک چیلنچ خیال کرتے ہوئے اس میں ملوث کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی؟کیونکہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جن صنعتوں اور کارپو ریشنوں کا نیٹ ورک مضبوط اور وسیع ہوتا ہے ان پر ہاتھ ڈالنا اور ان کی بیخ کنی کرنا اتنا آسان کام نہیں ہوتا۔بینک کارپوریشن سے منی ٹریل،موٹر وے سے میٹرو،سولر پاور سے نندی پور پراجیکٹ،قرضوں سے خرچوں اور ریکارڈ سے ریکارڈ سوختن تک مسائل کا ایک انبار ہے جو حالیہ حکومت کا منہ چڑا رہے ہیں۔مذکور تمام مسائل کو ئی ایک دن کی پیداوار تو نہیں ہیں ؟تو پھر کیسے کوئی ایک حکومت ایک دن یا ایک سال میں یک جنبش قلم کرپشن کی اس کارپوریشن کو تہس نہس کر دے گی۔اس سوال کا جواب تو بہت سادہ و آسان ہے ہاں اگر اس پہ عمل بھی کیا جا سکے تو؟کہ جب کھانے کو لوہے چنے دیے جائیں تو چپانے کے لئے بھی لوہے کے دانت لگانے پڑتے ہیں۔کڑی در کڑی بننے والی اس کرپشن کی زنجیر کو کڑی کڑی کرنے کے لئے بھی ایک منظم کارپوریشن کی ہی ضرورت ہے اور یہ سب کو اپریشن( تعاون ) سے ہی ممکن ہوگا۔کیونکہ انفراد ہی اقوام کے جنم اور وجود کا باعث ہوتے ہیں ۔اگر انفرادی طور پر ہم سب عزم صمیم ، عہد صادق اور قول مرداں جانِ دارد اپنے ضمیر کے ساتھ کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم کارپوریشن کی صورت اختیار کی گئی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب و کامران نہ ہو جائیں(ان شااللہ)

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں