ترکستان کی سیاہ رات۔۔۵

ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ 

(۵)


وہ بھاگتی ہوئی ان کے پاس جا پہنچی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی کہ وہ بھی ان کے ساتھ جائے گی اور مردوں کے ہمراہ موت، قوت اور سرخ آگ کے معرکے میں شریک ہو گی لیکن امیرِ قومول بیٹی کو تسلی دیتے ہوئے بولے:
’’پیاری شہزادی تم جانتی ہو کہ مرد دشمن کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلے کے خواہش مند ہیں، اسی لئے انھوں نے خواتین کو خیموں میں چھوڑا ہے … ‘‘
ہر علاقے سے یہ لوگ آئے ہیں، انھوں نے ہر جانب صف بندی کر لی ہے اور اس انبوہِ کثیر میں چینی محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ شرقی ترکستان میں دور دور تک یہی منظر ہے، چینی گروہ یہاں وہاں امان طلب کرتے نظر آتے ہیں، روس اس صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، اسٹالین نے اپنے متبعین کو ’’منغولیا‘‘ میں تاکید کی ہے ۔ جو روسی عملداری میں ہے۔ کہ وہ شرقی ترکستان کے مجاہدین کو مدد کی پیش کش کریں اور ایک وفد نے ’’جام شین درغان‘‘ کی سر کردگی میں خوجہ نیاز کو جنگی امداد کی پیش کش کر دی ہے، خوجہ نیاز نے معاملے کے ہر پہلو پر غور کے بعد اپنے لوگوں سے کہا:
’’ میں اچھی طرح جانتا ہوں روسی خواہش کیا ہے؟؟ وہ ہماری آزادی نہیں چاہتے، قدیم زمانے سے وہ حریصانہ نگاہوں سے اس خطے کو دیکھ رہے ہیں، وہ ہمارا بھی وہی حال کرنا چاہتے ہیں جو انھوں نے غربی ترکستان میں ہمارے بھائیوں کا کیا .. ‘‘
ایک ساتھی بولا:
’’ہم چینیوں کو بے دخل کرنے کے لئے روس کے حلیف کیوں نہ بن جائیں؟؟‘‘
’’اگر ہم اپنے زورِ بازو سے یہ سرزمین آزاد نہیں کرا سکتے تو ہمیں آزاد ہونے کا کوئی حق نہیں .. ‘‘
’’ہمارا دشمن بہت چالباز ہے اور اگر دشمن سے نجات کے لئے ہم دوسرے شیطان کو حلیف بنا لیں، تو کوئی ہمیں الزام بھی نہ دے گا .. ‘‘
’’ذرا رکو دوست .. روس دوسرا دشمن ہے، جب اس نے دیکھا کہ اس جنگ میں ہمارا پلہ بھاری ہے تو وہ ہماری مدد کے بارے میں سوچنے لگا .. سن لو کفر ایک ہی ملت ہے .. اور ہمارے ایک پیمان نے ہم پوری امت کو شرقاً، غربًا اور شمالًا جنوبًا ایک قوم بنا دیا ہے .. اﷲ کے اس فرمان کے تحت ہی کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے .. ’’اے ایمان والو، میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ‘‘ .. یہی اﷲ کا فرمان ہے. اور یوں منگولی وفد سے آخری ملافات میں خوجہ نیاز نے کہا:
’’اے دوست ’’جام شین درغام‘‘ ہم آپ کے میں جذبے کی قدر کرتے ہیں .. لیکن دشمن سے ہم تنہا مقابلہ کریں گے .. ‘‘
درغان بولا:
’’آپ زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکیں گے .. ہمارے پاس پختہ معلومات ہیں کہ مشرقی علاقے میں چین کے دار الحکومت سے ایک لشکرِجرار آپ کے انقلاب کی بیخ کنی کے لئے نکلا ہی چاہتا ہے .. ‘‘
نیاز عزم سے بولے:
’’ہم آپ کی دوستی کو خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن آپ کی مشروط پیشکش پر معذرت کرتے ہیں، ہمارے لوگوں نے آپ کی فوجوں ، ماہرین اور تجارتی گروپس کے اپنے علاقے میں داخلے کی اجازت نہیں دی .. اور آپ جانتے ہیں کہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتا .. کیونکہ ہماری قوم نے خود اپنا لائحہ عمل طے کیا ہے .. ‘‘
انقلاب اپنی ڈھب پر چلتا رہا، خوجہ نیاز کے آدمی ہر جگہ پھیل گئے اور جنگجوؤں کے پے در پے حملوں سے چینی قلعے فتح ہونے لگے۔ شرقی ترکستان جین شورین کے ہاتھوں سے نکلنے لگا، اس مرحلے پر بڑا حیرت انگیز معاملہ پیش آیا، جس نے روس کو بھی ورطہء حیرت میں ڈال دیا، جب چین روس سے مدد کا خواستگار ہوا اور روس نے اس شرط پر اسے مدد دینے کی حامی بھری کہ ان کے درمیان باقاعدہ معاہدہ ہو گا جس میں روس کو ترکستان میں تجارتی وکالات قائم کرنے کا حق بھی دیا جائے گا، اور روسی شہریت کے حامل افراد کو بلا روک ٹوک پورے ترکستان میں نقل و حرکت کی آزادی ہو گی اور مقامی انتظامیہ کو کسی روسی نوارد سے تفتیش کا حق نہیں ہو گا …
معرکے میں شدت پیدا ہو گئی، ہم پہاڑوں کی چوٹیوں پر جاتے اور میدانی علاقوں کے سبزہ زاروں سے گزرتے، تو ہمیں روسی اسلحہ اور روسی لوگ چینیوں کے شانہ بشانہ لڑتے نظر آتے، جوعلاقے چینی عملداری میں آ چکے تھے وہ روسیوں سے پٹے پڑے تھے، وہ وہاں اپنے نظریات اورکیمونزم کا لٹریچر پھیلارہے تھے اورعلاقے کے لوگوں کو نشانہ بنا رہے تھے، وہ جو کل خوجہ نیاز کے حلیف بننے آئے تھے وہ ان کے قتل پر لوگوں کو ابھار رہے تھے‘‘
ستم بالائے ستم یہ کہ روسیوں نے مختلف طبقات کو ترغیبات دے کر آپس میں لڑا دیا، وہ فتنہ مچاکر ، شبہات پیدا کر کے اور روسی اسلحہ دے کر چینی استعمار کو مضبوط کرنے لگے، دوسری جانب روسی فکر اعصاب کو گھلانے لگی اور اس عظیم قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے لگی، ان خونی معرکوں نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا، ہزاروں ان راہوں میں قربان ہو گئے، چند ہی مہینوں میں ہم اسلحے مال اور خوراک کے شدید محتاج ہو گئے، ضروری تھا کہ ہم اپنے زخمیوں کو توجہ دیں اور اس خوفناک چینی و روسی مشترکہ ظلم سے کچھ دیر کے لئے بچنے اور نیا لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے ہم پہاڑوں میں روپوش ہو گئے ..
اور یوں جب ہم فتح سے دو چار ہاتھ پیچھے تھے ہماری کمند ٹوٹ گئی اور جین شورین کو دوبارہ اپنی حاکمیت قائم کرنے کا موقع مل گیا .. پہاڑوں کی کھوہوں، اسکے راستوں اور چوٹیوں پر خوجہ نیاز متحرک رہتے وہ ہم سے کہتے:
’’سنو جنگ تو مقابلہ ہے … ایک دن تمہارا تو دوسرا ان کا .. اﷲ نے ہم سے وعدہ لیا ہے کہ ہم سپرنہ ڈالیں یہاں تک کہ کامیاب ہو جائیں یا اس راہ میں کام آ جائیں .. ‘‘وہ اپنی طاقتور پرکشش نگاہوں سے پہاڑوں کی چوٹیوں سے اوپر اٹھتے بادلوں کو دیکھتے اور تروتازہ سبزہ زاروں کو جواب طلب نظروں سے تاڑتے اور ان حسین دنوں کے خواب دیکھتے جب ان کے مردانِ حر اس پاک سر زمین کو ہر برائی اور خطا کار کے نا پاک جسم سے پاک کر دیں گے … وہ ہنس کر کہتے:
’’تم روس کو دیکھ رہے ہو، جو کل ہمیں آزاد کرانے بھاگے چلے آئے تھے، آج وہ ہمارے دشمنوں کے مددگار بن گئے ہیں .. کیا تم نہیں سمجھتے کہ ہماری آج کی مصیبت کا سبب وہی ہیں ..؟؟‘‘
خوجہ نیاز چلتے چلتے رک جاتے ، وہ ہنستے اور پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے:
’’لوگو غم نہ کرو .. کلیسا ایک عرصے سے تمہیں مٹانے کے درپے ہے .. روس ہمارے علاقوں پر قبضہ کر کے ان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا چاہتا ہے .. کیونکہ روس ابھی تک اپنے زخم چاٹ رہا ہے کہ ہمارے شیر جوانوں نے ترکی کی حمایت کی تھی اور صلیبی جنگوں میں ہمیشہ وہ عالمِ اسلامی کی صفوں میں لڑتے رہے .. اے جنگجوؤ، ہمارے علاقے کا شاندار ماضی ہے، سنہری تاریخ اور عظیم تہذیب ہے، ہماری سرزمین اپنے جلو میں قیمتی لعل چھپائے ہوئے ہے..
ایسے ہی ہزاروں اسباب ہیں اور ان کی حریصانہ خواہشات جو ہماری سرزمین سے وابستہ ہیں .. اور سب سے اہم یہ کہ ہم مسلمان ہیں .. روس نے اشتراکی انقلاب میں جس سختی سے مسلمانوں کو کچلا ہے کسی اور کو نہیں کچلا .. ‘‘
*..*
پہاڑوں پر ہم نے بہت مشکل وقت گزارا، لیکن ہم نہ صرف تربیت کے مراحل سے گزرتے رہے بلکہ حالات کو باریک بینی سے دیکھتے بھی رہے، جنگجو گروہوں کی تنظیم بھی کرتے رہے اور دشمن پر گھات لگا کر حملہ کرتے رہے اور جب ہم اپنی فوج تیار کر چکے، خوجہ نیاز نے ہماری سرگرمیاں محدود کر دیں اور ہمیں مختلف علاقوں میں خبریں لانے اور دشمن کے حالات پتا کرنے بھیجا اور ان کی تنظیم کے کمزور پہلو جاننے کے لئے … خوجہ نے سب کے سامنے مجھے اس ذمہ داری کا شرف عطا کرتے ہوئے فرمایا: 
’’مصطفی مراد حضرت .. تم نے ہمیشہ عظیم سپاہی کا کردار ادا کیا ہے .. اور میں جب تمہیں یہ اعزاز دے رہا ہوں، تو اس کا سبب تمہاری وہ سرفروشی ہے جس نے میرا دل تمہاری محبت سے لبریز کر دیا ہے .. میں چاہتا ہوں کہ یہ کام سرانجام دینے کے بعد تیزی سے واپس لوٹ آؤ .. کیونکہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے .. ‘‘
میں اور میرے ساتھی چھپتے چھپاتے الگ الگ سمتوں میں چل پڑے۔ قومول اداس تھا، تاریکی کی چادر اوڑھے ہوئے .. معمولی شکوک کی بنا پر لوگ پھانسی دیے جا رہے تھے اور ’’کاشغر‘‘ میں کوئی لیڈر نظر نہ آتا تھا وہ یا تو روپوش ہو چکے تھے، یا پہاڑوں کی جانب کوچ کر چکے تھے اور بچے کھچے حریت پسند یا تو چینی حاکم کی تائید کر چکے تھے، یا روسی جاسوسوں کے گروہ میں شامل .. ظلم اتنا بڑھ گیا تھا کہ انسان کے لئے حقائق جانچنا مشکل تھا، آمریت بے رحم تھی، ’’اورومجی‘‘ (موجودہ شہر ارومچی)میں بھی حالات یکسر بدل چکے تھے، شہر میں ہر جانب چینی روسی ہی نظر آتے۔ شیطانی گروہ سروں کو حرکت دے رہے تھے، آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے اور کانوں میں بھنبھنا رہے تھے .. یونہی میں قریہ قریہ شہر شہر گھومتا قومول آ پہنچا، میں سیاہ رات میں غمزہ محبوبہ نجمۃ اللیل کو تلاشنے لگا، کہاں ہو تم میرا چین لوٹنے والی؟؟ میرے غم و الم کا لاوا ابلنے لگا، میرے قائد نے اس روشن صبح جو اہم کام میرے سپرد کیا تھا شائید میں اسکے لائق نہ تھا۔ جب دشمن وطن پر قبضہ کرلے اور اہلِ وطن سے کوڑوں کی زبان میں بات کرے اور انہیں ہانک کر جیلوں کا راستہ دکھا دے، یا انہیں پھانسی گھاٹ پہنچا دے تو ایسی ذمہ داریوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے .. میرے حلق میں پھانس لگ گئی .. ایک قاتلانہ تلخی .. اس کے باوجود میں محل کے ارد گرد نجمۃ اللیل کو ڈھونڈتا رہا .. یادوں کے محل میں .. اور غاضبانہ محبت .. اور باغی احساسات .. اور پر کشش وعدے .. قصرِ امیر جانے والوں کے ان مٹ نقوش لئے ایک کھنڈر لگ رہا تھا، اونچے پیڑ اس کی عظمت یاد دلا رہے تھے، گویا وہ سالوں سے خاموش ہیں اور بڑھاپے نے ان کی شاخوں کو خمدار کر دیا ہے .. ہر چیز پر بڑھاپے اور مرض کے اثرات تھے .. اور اس سے آہ و بکا پھوٹ رہی تھی.
’’اماں جی آپ نے نجمۃ اللیل کو دیکھا ہے؟؟‘‘
بڑھیا نے اپنا سر اٹھایا، اور دھندلائی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی:
’’میں سو سالوں سے یہاں رہتی ہوں اور یہ نام کبھی نہیں سنا؟؟‘‘
وہ لاٹھی ٹیکتے آگے بڑھ گئی، کچھ آگے جا کر وہ رک گئی اپنی آنکھوں پر کانپتے ہاتھ رکھ کر انھیں دھوپ سے بچاتے ہوئے بولی:
’’کیا تم پردیسی ہو یہاں؟؟‘‘
’’نہیں .. اسی مٹی کے خمیر سے اٹھا ہوں .. ‘‘
اس نے آنکھوں سے آنسو پونچھے اور بولی:
’’میں نے سوچا تم پہاڑ سے آئے ہو .. میں اپنے چار بیٹوں کو تلاش کر رہی ہوں .. وہ ایسے گئے کہ لوٹ کر خبر نہیں لی .. کاش کوئی مجھے ان کے پاس لے جائے .. یہاں اپنی بیوہ بیٹیوں کے ساتھ رہتے ہوئے تنہائی کاٹنے لگی ہے .. ان کے شوہروں کو جانوروں کی طرح ذبح کر دیا گیا .. ہمارے ساتھ بڑی تعداد میں بچے ہیں .. روسیوں اور چینیوں پر برابر لعنت ہو .. ‘‘
میں مقبوضہ قومول کی سڑکوں کی خاک چھانتا رہا .. اچانک ہی میری نظر اس پر پڑی .. وہ میرا لنگوٹیا یار تھا:
’’منصور درغا‘‘
میں نے بلا جھجک اسے پکارا، وہ میرے قریب آکر بولا:
’’مصطفی مراد حضرت .. تم ہی ہو ناں؟‘‘
ہم گرم جوشی سے گلے ملے، پھر وہ میرا ہاتھ تھامے مجھے ایک محفوظ خفیہ مقام پر لے آیا تاکہ کوئی ہم دونوں کو یوں بیٹھے دیکھ نہ لے۔
’’منصور تمہارے پاس کیا خبریں ہیں؟؟‘‘
منصور ٹھنڈی آہ بھر کر بولا:
’’حملہ آور ’’ایلی‘‘ .. اور ’’آقصو‘‘ اور ’’تشوشک‘‘ کے علاقے میں لوگوں کو ذبح کر رہے ہیں .. اور ’’شہباز‘‘ شہر میں محبوسین سے خوفناک انتقام کے لئے جیل خانے بھرے جا رہے ہیں .. ایسی ہی صورتِ حال ’’کوتشار‘‘ اور ’’آلتائی‘‘ وغیرہ میں ہے، ہر جگہ ظلم کا راج ہے .. روسی چالیں چل رہے ہیں اور قدم بڑھاتے چلے آ رہے ہیں .. انکے جاسوس صرف معرکے یا تجارت اور کیمونزم تحریک پھیلانے ہی میں ملوث نہیں .. بلکہ ان کے پاس فنِ تعذیب اور قتل اور اسلام اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے والے ماہرین بھی موجود ہیں .. ‘‘
منصور درغا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اسکا گلہ زبان پر آگیا:
’’کیا یہی اﷲ کی رضا ہے؟؟‘‘
میں درد دباتے ہوئے بولا: ’’یقیناً نہیں .. ‘‘
منصور کے چہرے کا رنگ بدل گیا کہنے لگا:
’’پھر اس نے ہمیں ذلت اور عذاب سہنے کے لئے ایسے کیوں چھوڑ دیا ہے؟؟‘‘
’’اﷲ عادل ہے منصور‘‘
’’لیکن یہ ظلم امت کو غموں کے طوفان میں غرق کر دے گا .. ‘‘
’’اسکے باوجود اﷲ عادل ہے منصور .. ‘‘
’’عدل یہ ہے کہ وہ ان کفار کو مٹا ڈالے .. ‘‘
میں نے منصور کی کلائی پکڑی اور سختی سے کہا:
’’عدل تو یہ بھی ہے کہ ہم حقیقی مسلمان بن جائیں تاکہ ہمیں اس کی مدد ملے .. ‘‘
اس نے مایوسی سے سر ہلایا اور بولا:
’’سچ کہتے ہو تم .. ہم میں ایسے خائن بھی ہیں جو دشمن سے تعاون کر رہے ہیں .. ‘‘
’’وہ تعداد میں کم ہیں .. ‘‘
’’ہاں .. اور ایسے بھی جو اپنی زندگیوں میں مگن ہیں اس معرکے سے الگ تھلگ .. ‘‘
’’برے لوگ ہر قوم میں ہوتے ہیں .. ‘‘
’’ہاں .. اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایمان باﷲ کا انکار کر دیا ہے اور ماسکو سے آئے ہوئے کیمونسٹ ماہرین کے مارکسی فلسفے پر ایمان لے آئے ہیں .. 
منصور بھرائی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا:
’’اور ہم میں وہ حسین دوشیزائیں ہیں .. جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ شرف کسے کہتے ہیں ..‘‘
میں نے منصور کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، وہ مایوسی کے سمندر میں ہاتھ پاؤں مار رہا تھا، اس پرمنفی خیالات کا شدید حملہ ہو رہا تھا، حالانکہ تصویر وہی نہیں ہوتی جو سامنے سے نظر آتی ہے، کیونکہ ہماری صابر قوم مسلسل مزاحمت کر رہی تھی، اس نے ابھی تک گھٹنے نہیں ٹیکے تھے اور خائن بہت تھوڑے تھے، جو دشمن کے خوف سے کمزور پڑ گئے تھے، یا انواع و اقسام کے عذاب برداشت نہ کر پائے تھے، بعض لوگ مادی مقاصد کے لئے اپنوں کو دھوکہ دے رہے تھے، یا ان کی سوچ سرخ انقلاب کی چکا چوند نے مسخ کر دی تھی اور وہ کیمونزم کے دروازے پر آپڑے تھے، وجہ کچھ بھی ہو ان کی کوئی قابلِ ذکر تعداد نہ تھی، رہا ان جاہل غافل عورتوں کاگروہِ قلیل تو انہیں اس سے بچاؤ کی کوئی صورت ہی نظر نہ آئی، وہ بھی تھے جو روٹی کی خاطر ذلت کے اس گڑھے میں گر گئے، یا دھمکیوں سے ڈر گئے اور اس ناپاک زندگی کو عزت کی موت پر ترجیح دے ڈالی، میری رائے اس سے مختلف تھی. ’’منصور درغا‘‘، میں اسے برسوں سے جانتا تھا، وہ ہمیشہ سے مثالیت کے خواب دیکھتا، وہ شاعر تھا، اس نے بخاری حفظ کر رکھی تھی، وہ ہمیشہ تاریخ کے سحر انگیز خوابوں میں جیتا، وہ خوشنما ماضی اور پر مصائب دورِ حاضرکا موازنہ نہ کر پایا اور اپنا توازنِ نفسی برقرار نہ رکھ سکا۔
’’تم حقائق کو ایسے ہی قبول کیوں نہیں کر لیتے، ان کا علاج کرنے لگتے ہو .. ‘‘
منصور نے نے غصے سے سر ہلایا کہنے لگا:
’’ان مریضانہ حالات میں وہاں مایوسی ہے .. ‘‘
’’اور حل کیا ہے منصور؟؟‘‘
اس نے ہونٹ سکیڑ کر غصے سے کہا:
’’حل موت ہی ہے .. ‘‘
’’اور ہم کیسے مریں؟؟‘‘
وہ میرے طنز کو سمجھ گیا، اس نے اضطراب سے آنکھیں گھمائیں، گویا وہ اپنے ہی اندر جھانک رہا ہو، اور اپنے پرانے افکار کا موازنہ اپنی موجودہ آراء سے کر رہا ہو:
’’ہم موت کو جوانمردوں کی طرح گلے لگائیں گے مصطفیٰ .. ‘‘
میں نے اسے خوشی سے گلے لگا لیا:
’’دیکھا ہم دونوں ایک نکتے پر متفق ہو گئے ہیں .. ‘‘ 
’’بالکل .. میں تمہارے ساتھ شامل ہونے کے لئے پہاڑ پر جانے ہی والا تھا .. ‘‘
’’ہم کل روانہ ہونگے .. بڑا معرکہ قریب آگیا ہے .. ‘‘
ہم قومول میں مٹر گشت کرتے رہے رات تاریکی کی چادر تان چکی تھی، تمام حالات واضح تھے، لوگ جین شورین کے ظلم اور خاموشی سے اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے روسیوں کی مکاریوں سے تنگ آچکے تھے اور اس کے سوا کوئی صورت نہ بچی کہ جنگجو پہاڑوں سے اتر آئیں اور خوجہ نیاز حاجی انقلاب کی مشعل اٹھائے نئے عزم کے ساتھ میدان میں آجائیں .. ہم جدا ہونے لگے تو اچانک منصور درغا بولا: 
’’تم نے نجمۃ اللیل کے بارے میں نہیں پوچھا .. ‘‘
میں نے بے چین ہو کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا:
’’کہاں ہے وہ؟؟‘‘
منصور تلخی سے ہنسا، بولا:
’’اس نے شادی کر لی ہے .. ‘‘
’’کیسے؟؟ تم مذاق کر رہے ہو .. 
’’جب امیر محل سے چلے گئے اور ان کا خاندان تتر بتر ہو گیا، لوگ جہاد کے لئے نکل گئے، تووہ ڈیپریشن کا شکار ہو گئی .. وہ روتی اور چلاتی رہتی .. لیکن اس آہ و بکا سے بھی اس کا حسن متاثر نہ ہوا .. تم سمجھ رہے ہو ناں؟؟ 
’’میں کچھ نہیں سمجھا .. ‘‘
’’جب چینی حاکم پہلی مرتبہ قومول آیا تو وہ اسے بھا گئی .. اس بات کو چھوڑو .. اب اس ذکر کا کیا فائدہ .. 
* ..*
اور میں ۔ جب میری آرزؤوں کے چراغ گل ہو چکے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ میں گہرائی میں ڈوب رہا ہوں جہاں ناگ ہیں اور پراسرار سائے اور سیاہ دھواں، ایسے ڈراؤنے خواب میں بچپن میں دیکھا کرتا تھا، تب میرے باپ نے مجھے آیۃ الکرسی سکھائی تھی تاکہ سونے سے پہلے دم کر لیا کروں، اور سو بار درود شریف پڑھا کروں .. نجانے آج پھر مجھے وہ ڈراؤنا خواب کیوں یاد آ گیا .. آہ نجمۃ اللیل .. میں تیرے آنسو یاد رکھوں .. یا تیرا ابتدائی دنوں کا رویہ،یا بھیگی پلکیں، یا الودائی لمحات اور چینی بھیڑیوں کے بارے میں تیرے خدشات؟؟ میں کسے سچ مانوں؟
تم کیا کہتی ہو کیا میں اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر لوں ..
’’منصور کل ہم واپس جائیں گے پہاڑوں پر .. ‘‘
میں نے قومول کی حسرت زدہ رات کو آنکھ بھر کر دیکھا اور کہا:
’’چوٹیوں پر رات کتنی شفاف ہوتی ہے، تم مردوں کے ترانے سنو گے تو خوش ہو جاؤ گے منصوراور ستاروں پر نگاہ ڈالو گے … تو ایک ستارہ (نجمۃ) تمہارا منتظر نہیں ہو گا .. بلکہ تمہیں لاکھوں ستارے مسکراتے نظر آئیں گے ’’پہاڑوں کے کیا کہنے منصور .. ‘‘
***
(جاری ہے)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں