ترکستان کی سیاہ رات۔۔3

ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
ہمارا امیر جب واپس لوٹا تو اس کی رنگت بدلی ہوئی تھی، اس کی آنکھوں سے امارت کا خمار رخصت ہو چکا تھا، وہ لباسِ فاخرہ زیب تن کرتا تھااور اشراف اسے اپنے جلو میں لیکر چلتے، محل کے دروازے اس کے استقبال کو وا رہتے اور خدم و حشم کے غول بڑے بڑوں کی عقل مات دیتے، مگر یا الٰہی میرا آقا انکساری کی تصویر بنا ہوا تھا .. وہ میری جانب جھکا اور سرگوشی کی:
’’مصطفی کیسا لگے اگر تم امیر بن جاؤ؟؟‘‘
’’مجھے اس کا سوال سمجھ نہ آیا، میں شک میں پڑ گیا، میری قوتِ گویائی سلب ہو کر رہ گئی۔ اس نے تنے ہوئے لہجے میں سرگوشی کی:
’’بولو احمق .. ‘‘
میں نے تھوک نگلا اور ممنایا:
’’یہ کہ سب اطاعت کریں .. اور یہ سارا لاؤ لشکر ارد گرد ہو جائے .. ‘‘
وہ تلخی سے ہنسا، کہنے لگا:
’’امیر وہ آزاد منش ہے جو اپنے آپ کو راضی کر لے .. ‘‘
جب میں کچھ نہ بولا تو وہ افسوس سے بولے:
’’اب وہ آزادی کہاں ہے ؟؟ اور میں اپنے آپ کوراضی کیسے کر سکتا ہوں جب دشمن ہماری سرزمین کے چپے چپے پر فساد مچا رہا ہے اور ہمارے شرف کو مٹی میں ملانا چاہتا ہے .. سنو مصطفیٰ .. ہمارا دین ہی ہمارا شرف ہے .. ‘‘
پھر دور بلند ہوتے پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے بولے، جو ان کے سامنے اور مجھ سے اوٹ میں تھے:
’’وہاں ان پہاڑوں پر ایسے جنگجو ہیروگروہ بستے ہیں، جن پر کبھی دشمن غالب نہیں آسکا اور نہ ان کی عورتوں سے .. جبرًا شادی کی ہے، یہ بکریوں کا دودھ پیتے ہیں، اور ان کا صوف (اون) پہنتے ہیں اور اﷲ وحدہ لا شریک کی بندگی کرتے ہیں .. وہ اﷲ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے .. کیا تمہیں ان کی خبر ہے؟؟ یہ سب بے تاج بادشاہ ہیں .. میرا دل انہی کی محبت میں جکڑا ہوا ہے مصطفیٰ .. ‘‘
’’یہ سب لوگ بھی ان کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، وہ آپ کی کی رعایا ہیں میرے آقا؟؟
’’غلاموں کی کوئی رعایا نہیں ہوتی مصطفیٰ .. غلاموں کو بیڑیوں اور رسوائی کے سوا کسی چیز کی پہچان نہیں ہوتی .. ‘‘
میرے آقا رنج و الم کی تصویر بنے محل میں داخل ہوئے، گھر والوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال دیا، علماء اور سرکردہ لوگ ہر جانب سے محل پر ٹوٹ پڑے اور شام کو وہ تاریخی اجتماع منعقد ہوا جو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا، اس اجتماع میں خوجہ نیاز حاجی بھی شریک ہوئے، بڑے بڑے لوگ سر جھکائے بیٹھے تھے جن کے چہرے تھکے ماندے اور اجڑے ہوئے تھے، ہمارے امیر نے بات کی ابتداء کی:
’’اے لوگو! ہمیں وہیں لوٹ جانا چاہیے جہاں سے ہم آئے ہیں‘‘
’’کیسے؟؟‘‘
یہ سوال تو خوجہ نیاز سے ہونا چاہیے
امیر نے جواب دیا:
’’ایسے کہ ہم امارت اور وزارت کی پگڑیاں اتار پھینکیں اور پھر سے بھیڑوں اور بکریوں کے گلہ بان بن جائیں .. اورپھر سے معرکے کی ابتداء کریں .. اگر اس حال میں ہمیں موت آگئی تو یہ شرف (شہادت) کی موت ہوگی اور اگر ہم فتح یاب ہوئے اور باقی رہ گئے .. تو ہم لوگوں کو یہ کہنے کے قابل ہوں گے کہ ہم امراء ہیں .. شکست خوردہ کبھی امیر نہیں بن سکتا .. اور یہ کسی طرح بھی درست نہیں کہ وہ حاکم رہے .. شکست خوردہ لوگوں کی حاکمیت ان کے تمسخر کا ذریعہ بنتی ہے .. میں امیر ہوں اور کل کا بچہ چینی قائد مجھ پر حکم چلا رہا ہے .. کیا یہ انتہائی شکست اور ہزیمت نہیں .. ‘‘
خوجہ نیاز حاجی نے محل کے افق پر چھائے افسردگی کے بادل دور کرنے کی کوشش کی اوربلند آواز سے پکار کر بولے:
’’اے امیر .. اے سردار .. ہمیں چینی قائد کی تجویز سے موافقت کا اعلان کر دینا چاہیے ‘‘
حاضرین میں کھلبلی مچ گئی، ان کے چہرے تن گئے اور شدید اختلاف پیدا ہو گیا، سوائے اس کے کہ امیر مسکرایا اور آہستگی سے بولا:
’’میں خوجہ نیاز حاجی کا ہم خیال ہوں .. میرے محل میں شادی کی تقریب منعقد ہو گی اورچینی قائد کی شادی میری انمول بیٹی سے ہو گی .. اور قومول کی عوام اس فریضے کو انجام دے گی اور اس مذبح خانے سے نجات پا جائے گی جو ہڈی بچاتا ہے نہ گوشت چھوڑتا ہے .. ‘‘
ایک عالم دین ببانگِ دہل پکارے:
’’اﷲ .. ‘‘
امیر نے جوابًا کہا:
’’اﷲ ہمارے ساتھ ہے .. وہ ہمیں کبھی رسوا نہیں کرے گا .. ‘‘
عالم دین مڑ کر پکارے:
’’ہمیں اس کی معیت کیسے ملے گی جبکہ ہم اس کی شریعت کو مسخ کر رہے ہیں؟ .. ‘‘
لوگوں کی سرگوشیاں بھنبھناہٹ میں بدل گئیں، وہ مختلف گروہوں میں بیٹھے ہولے ہولے معاملے کی اونچ نیچ پر بحث کر رہے تھے اور امیر کو برا بھلا کہہ رہے تھے، پھر وہ خوجہ نیاز کے پاس جاتے، ان کے صرف ہونٹ ہلتے نظر آتے، ان کے ہاتھ اشارہ کرتے اور ان کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل جاتیں۔ اگلے روز میں ایک خط لیکر چینی قائد کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں امیر کی بیٹی کی شادی قائد سے کرنے کی رضامندی دی گئی تھی اور یہ کہ اس تقریب کا اہتمام قصرِ شاہی میں کیا جائے گا جو امیرِ قومول کی رہائش گاہ ہے اور اس تقریب میں بڑے پیمانے پر چینی فاتحین اور فوج کی تمام بٹالین کے سپاہیوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس نامے کو پڑھ کر چینی قائد خوشی سے پاگل ہو گیا، دینی اعتراض دم توڑ چکا تھا اور اب کی بار عوام کے غیض و غضب کی ساری توپوں کا رخ امیر اور علماء مسلمین کی جانب ہو چکا تھا، عوام کے چھوٹے چھوٹے گروپ علماء کے اس فتوے اور امیر کی سپردگی پر ’’نا منظور‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے، بعض جوشیلے نوجوانوں نے تو قصرِ شاہی پر سنگ باری بھی کر ڈالی، چینی قائد نے اپنی فوج امیر کی مدد کو بھیجی مگر امیر کا اصرار تھا کہ مظاہرین پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا جائے گا تآنکہ شادی کی رسم بخیر و خوبی انجام پا جائے اور لوگ خود اس حقیقت کا ادراک کر لیں۔ مقررہ دن تمام لوگ طے شدہ وقت پر قصرِ قومول پہنچ گئے .. سیاہ بوجھل رات قومول پر اپنی چادر تان چکی تھی، شرفاء کے کلیجے حلق کو آ رہے تھے، اور اس رات محل میں ایک عجیب واقعہ رونما ہونے کو تھا، شہزادی اپنے والد کے پاس آئی اور بولی:
’’ابا جان میں اس سے شادی نہیں کروں گی‘‘
’’میں کیسے آپ کی بات مان لوں .. اور اﷲ کی نافرمانی کرلوں .. اﷲ کی رضا مجھے اپنی جان اور آپ سے بڑھ کر عزیز ہے .. ‘‘
’’اﷲ یہی چاہتا ہے بیٹی .. ‘‘
’’اﷲ بھلائی کے سوا کچھ نہیں چاہتا .. ‘‘
’’ہو سکتا ہے کہ جس چیز کو ہم نے خیر سمجھ کر اختیار کیا ہو اسی میں ہمارے لئے سراسر خیر ہو .. ‘‘
شہزادی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی بولی:
’’اب میں آپ سے برئ الذمہ ہوں .. بادشاہ سے .. مجھے رخصت کی اجازت عطا فرمائیے .. ‘‘
امیر نے اس کے خوبصورت سنہری بالوں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
’’تم بھیڑیوں کے ریوڑ میں کیسے جاؤ گی؟‘
وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں داخل ہوئی، اس کی آہ و بکا آسمان کا سینہ چیر رہی تھی۔ اس نے دروازہ اندر سے مقفل کر لیا اور ماں کی منت سماجت پر بھی اسے کھولنے کو تیار نہ ہوئی۔ ماں نے دروازے کے شگاف سے دیکھا کہ کر اس کے ہاتھ میں خنجر ہے اور وہ آسمان کی طرف چہرہ کئے اﷲ سے محو دعا ہے۔ وہ اس سے مغفرت کی خواستگار ہے، ماں کی مامتا بھاگتی ہوئی امیر کے پاس پہنچی اور اسے صورتِ حال سے آگاہ کیا، جس نے چند لمحوں میں دروازہ کھول دیا اور شہزادی کو قابو کر لیا قبل اس کے کہ وہ سینے میں خنجر اتارے …
*…*
چینی قائد کی بارات فوجی بینڈ بجاتی اور آتش بازی کرتی پوری شان سے محل پہنچی، چینی رقاصائیں سماں باندھ رہی تھیں اور قومول کے فقراء محل دور ہوتے جا رہے تھے، وہ آہستہ آہستہ شہر کے وسط سے پرے جا رہے تھے .. اور درختوں کی اوٹ میں اﷲ کے حضور سجدے اور دعائیں کر رہے تھے اور دریاؤں کے سواحل پر دعاؤں میں مشغول تھے۔ بعض صوفیاء ویران جگہوں پر الحاح سے دامنِ سوال دراز کئے ہوئے تھے اور چپکے چپکے آنسو بہا رہے تھے اور وہ مساجد بھی پکارنے والوں سے آباد تھیں جن میں ایک عرصے سے کسی نے شمع تک روشن نہ کی تھی۔ امیر کے محل کی رونقیں عروج پر تھیں اور مجھے دہشت زدہ کر رہی تھیں، امیر نے مردِ کوہستانی بھی مدعو کر رکھے تھے جو محل کی اہم تقریبات میں خاص طور پر بلائے جاتے، تاکہ شاہی تقریب کی رونق اور شان دوبالا ہو جائے ۔ان حالات میں امیر خائف تھا کہ کہیں اس کے مخالفین اس تقریب کا امن تباہ کرنے کی کوشش نہ کریں اور ان کی یہ حماقت رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے، لہذا پیش بندی کے طور پر محل کے داخلی اور خارجی راستوں پر مضبوط بدن اور ماہر جنگجو کوہستانی مردوں کو تعینات کیا گیا تھا اور انہیں واضح ہدایات دی گئی تھیں کہ اگر انہیں ڈسپلن برقرار رکھنے کے لئے سخت حکمتِ عملی بھی اختیار کرنا پڑے تو بھی وہ ہر قیمت پر محل کے نظام کی حفاظت کریں … اور چینی قائد نے چینی و ترکستانی عوام میں محبت اور لازوال دوستی کے نام پر جام لنڈھانا شروع کئے، وہ مے کشی کرتا رہا حتی کہ شراب کا نشہ اسکے سر میں فتور پیدا کرنے لگا، وہ ہذیانی کیفیت میں بولا:
’’اب جبکہ ہم پرانی روایات اور شان و شوکت کو خیر آباد کہہ رہے ہیں .. ایسا لگتا ہے کہ ہم عصرِ جدید کے انسان بن گئے ہیں .. اور عصرِِ جدید کا انسان خود اپنا’’ الہ‘‘ ہے .. نہ وہ آسمانوں کی حکمرانی قبول کرتا ہے اور نہ غیر مرئی طاقتوں کا اسیر بننے کو تیار ہے .. میری ماں کہا کرتی تھی کہ میں ایسی باتیں نہ کیا کروں کیونکہ یہ رب کو ناراض کرتی ہیں تو میں اس کے سامنے چلا کر کہتا تھا: ’’وہ رب کہاں ہے‘‘ تو وہ مسکین آنسو بہاتی رہتی .. اور آسمان کی جانب انگلی اٹھا دیتی .. چاروں سمتوں میں سے کسی ایک جانب یا مسیح کے مجسمے کی جانب .. تو میں خوب قہقہے لگاتا اور جو چاہتا کرتا اور وہ حیرت زدہ مجھے ٹک ٹک دیکھا کرتی .. گویا میں نے کسی جرمِ عظیم کا ارتکاب کیا ہو .. ہا .. ہا .. ہا .. میری بہن کے اغوا کے بعد وہ بھی مر گئی .. وہ ہمیشہ صلیب اپنے گلے میں لٹکا کر رہتی .. ہونہہ .. اور اس کے مرنے کے بعد میں نے وہ سارے مجسمے تھوڑی سی گندم کے بدلے بیچ ڈالے .. ہا .. ہا .. اے ترکستانی دوستو .. آؤ ان متعفن قدیم اصولوں کے مرقد پر جشنِ شراب منائیں .. اب ہماری کبریائی کا دور ہے .. انسانوں کی .. اور الہ سب بے بس گرے پڑے ہیں … ‘‘
خوجہ نیاز نے بے چینی سے پہلو بدلا اور ایک عالمِ دین کا سارا لہو ان کے چہرے پر جمع ہو گیا، ایک شخص آستینیں چڑھا کر مقابلے کو آیا تو اسے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا اور ہم نے محل کے ایک سرے سے نعرہء مستانہ سنا ’’اﷲ اکبر .. اﷲ اکبر .. ‘‘ چار مرتبہ یہی نعرہ لگا اور آنکھ جھپکنے سے پہلے چمکتی تلواریں لہرائیں اور قدیم بندوقوں نے شعلے اگلے اور کوہستانی مردوں کا سلگایا ہوا معرکہ بھڑک اٹھا، اس کے ساتھ ہی نجانے کہاں سے پروانوں کی طرح لوگ نکلنا شروع ہو گئے۔محل کی چھتوں سے، زیرِزمین تہہ خانوں سے اور محل کی بیرونی فصیلوں سے۔ تھوڑے سے وقت میں چینی قائد اور اس کے ہمراہ آئے ہوئے اعلی افسران اور عمائدینِ حکومت کے لاشے محل میں یہاں وہاں پھیلے ہوئے تھے، تمام چینی باراتیوں کا خاتمہ ہو چکا تھا، قومول میں عجیب سا خوف چھایا ہوا تھا، لوگ چینیوں کا قتلِ عام کر رہے تھے، اور ان کی قید میں محبوس اپنی بد نصیب بیٹیوں کو بری حالت سے نکال واپس لا رہے تھے، جیلوں اور پولیس کی تحویل سے قیدی رہا کئے جا رہے تھے .. باقی بچے کھچے چینی دم دبا کر بھاگ رہے تھے، یا واسطہ دے کر بچاؤ کی راہ تلاش رہے تھے، کچھ زمین پر جھکے معافی کے طلبگار تھے، اور اپنے اسلام اور ایمان باﷲ کا اعلان کر رہے تھے …
امیر مرکزی ہال کے وسط میں کھڑا اس خونی منظر کو دیکھ رہا تھا اس کے پہلو میں اسکی بیٹی تھی۔ اس نے اسے سینے سے چمٹا لیا اور محبت سے بھیگے لہجے میں بولا:
’’اب میں کہہ سکتا ہوں کہ میں امیرِ قومول ہوں .. ‘‘
شہزادی دکھ سے بولی:
’’لیکن وہ ہمیں چھوڑیں گے نہیں .. ‘‘
امیر ہنسا:
’’اب میں تمام عمر امیر رہوں گا .. یعنی میں کبھی ہتھیار نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی دوبارہ شکست قبول کروں گا .. اگر ہم ناکام بھی ہو گئے تو میں جہاد کا راستہ اپناؤں گا یہاں تک کہ مجھے موت آجائے .. یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے میں امیر کی حیثیت سے زندہ رہ سکتا ہوں اور امیر کی حیثیت سے مر سکتا ہوں .. اور مسلمان کی حیثیت سے اﷲ کے سامنے جا سکتا ہوں ….. ‘‘
***
(جاری ہے)
حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں