ترکستان کی سیاہ رات۔2

ناول نگار: ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: میمونہ حمزہ
اسلام اور آزادی کے متوالے امام بخاری اور فلسفے کے سرخیل ابنِ سینا اور فارابی ۔۔ اور عظیم اسکالر البیرونی کے ہم وطنوں اہلِ ترکستان کی اکیس سالہ جدوجہد کی داستانِ خونچکاں!!!
بعید شمال میں واقع عظیم اسلامی مملکت ترکستان کی کہانی، جسے استعماری طاقتوں نے شرقی ترکستان اور غربی ترکستان میں تقسیم کر رکھا ہے، غربی ترکستان پر روس نے قبضہ کر لیا اور اسے روسی متحدہ جمہوریات میں شامل کر لیا، قدیم زمانے میں شرقی ترکستان پر چین نے اپنے پنجے گاڑے اور اسے اپنی حدود میں شامل کر لیا اور اس کا نام سینکیانگ رکھاٰٰ نئی سرزمین اور اس سرزمین کے مشرق و مغرب یعنی پورے ترکستان پر کیمونزم نے اپنے پر پھیلا لئے۔۔ اس طرح اسلامی تہذیب ثقافت کی امین اور عظیم تاریخ کی حامل اور شرف و جہاد کی پروردہ عظیم الشان سلطنت تاریخ کی بے رحم دھول میں گم ہو گئی .۔۔بلا شبہ یہ اندلس ثانی ہے ۔۔۱۹۳۱ء سے ۱۹۵۲ء کے دوران ہونے والی عوامی جدوجہد کی عظیم داستان۔
(2)
دنیا میں کہیں بھی حق کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں لیکن خواہشِ نفس کے پجاری باطل میں بھی حق تراش لیتے ہیں اور کبھی حق کو باطل کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں۔میں محل میں معمولی چوکیدار ہونے کے باوجود بہت حساس طبیعت ہوں اور چھوٹی سی برائی پر بھی میرا دماغ گھوم جاتا ہے، میں کسی کا ساخرانہ انداز برداشت نہیں کر پاتا، میرے اندر انتقام کا الاؤ جلنے لگتا ہے، محل کی ملازمہ کل مجھ سے محبت کا اظہار کر رہی تھی حالانکہ اس سے پہلے وہ میرا تمسخر اڑا چکی تھی۔ میں ہمیشہ سے اس کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا، بدلتے حالات نے اسے اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا تھا اور اگر اس نے اپنی رائے بدل لی تھی تو کیا اس کے احساسات بھی تبدیل ہوئے ہوں گے؟؟
میں واقعی اس بارے میں نہ جانتا تھا .. کیوں کہ دنیا بھاگم دوڑ میں لگی تھی۔ ’’قومول‘‘ میں سب منظر بدل چکے تھے، چینیوں کو مسلمان دوشیزاؤں سے شادی رچانے میں کوئی مضائقہ نظر نہ آتا تھا اور ان کی دلیل بڑی سادہ اور صاف تھی، کہ تمام انسان آپس میں بھائی ہیں اور دین، ان کے گمان کے مطابق اﷲ کے ساتھ معاملے کا نام ہے، وہ فاتح قوم ہیں اور یہ ان کا رحم ہے کہ وہ مفتوح قوم کی عورتوں کو مالِ غنیمت بنانے اور انہیں زیرِ تسلط لانے کے بجائے ان کو قانون کے ضابطے میں لا کر اپنا رہے ہیں اور یہی معاملہ ہم ترکستانیوں کی نظر میں کھلا ظلم تھا، جب چینیوں نے اﷲ کے احکام سے کھلم کھلا کھیلنا شروع کر دیا تو جنگ کے سوا کوئی صورت باقی نہ بچی .. یعنی ہمیں لازماً موت کی جانب پیش قدمی کرنا تھی .. ایک جنگ میں ہم شکست کھا چکے تھے .. چینی قائد امیر قومول پر اپنا گھیرا تنگ کرتا چلا جا رہا تھا، صرف چند قابل اعتماد لوگوں یا خادموں کو ان سے ملنے کی اجازت تھی، تاکہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں اور اپنی شہزادی کی شادی چینی قائد سے کر دیں۔امیر زیادہ وقت نماز یا غور و فکر میں گزارتے، انھیں دکھ ہوتا کہ زمانے نے انہیں بھلا دیا اور محل کی جگہ قید خانہ انکا نصیب بن گیا، اور وہ حاکم سے محکوم ہو گئے، اور کن کن سے احکام لینے لگے؟! وہ کافر شخص جسے نہ اﷲ پر ایمان ہے نہ اسکے رسول پر! شکست خوردہ بادشاہوں کا غم مجھ سے پوچھو .. جنکی آنکھیں کبھی کبھار ہی برستی ہیں .. لیکن وہ اپنے دکھوں کو اپنے دل میں دبا کر رکھتے ہیں، جس میں جوار بھاٹا اٹھتا رہتا ہے اس آتشیں لاوے کی طرح جو نہایت بے رحمی سے پھیل جاتا ہے ..
میں گھبرا کر انکے پاس گیا، میرا انگ انگ کانپ رہا تھا ..
’’مصطفی مراد حضرت کیسے آئے ہو .. ‘‘
’’ہم آپ کے بغیر کچھ بھی نہیں .. ‘‘
’’تم مرد ہو، اﷲ کی حکمت اسی میں ہے .. ‘‘
’’لوگوں کو آپ کی ضرورت ہے آقا .. ‘‘
’’کیسے؟؟‘‘
انھوں نے حیرت اور دہشت کے ملے جلے تأثرات سے میری جانب دیکھا تو میں نے کہا:
’’مجھے خوجہ نیاز حاجی نے بھیجا ہے .. ‘‘
’’انھوں نے کیا کہا .. ‘‘
’’امیر باہر نکل کر ہم سے رابطہ کریں .. ‘‘
امیر زور زور سے ہنسنے لگے، انھوں نے زخمی عقاب کی مانند آفاق کی وسعتوں میں جھانکا اور گھٹی ہوئی آواز میں بولے:
’’اس قید خانے کی چابیاں میری جیب میں نہیں ہیں .. ‘‘
’’قید خانے کی دیواریں ہوتی ہیں آقا ‘‘
امیر کے اعصاب تن گئے:
’’میں اکیلا ان دیواروں کو کیسے گراؤں؟‘‘
’’خوجہ نے آپ کے لئے کہا ہے .. اگرچہ آپ کے پاس قید خانے کو کھولنے والی چابیاں نہیں اور نہ ہی آپ سیندھ لگا کر ان دیواروں کو منہدم کر سکتے ہیں .. لیکن آپ کے پاس عقل ہے جو آپ کو اپنے پروں پر سوار کرا کر باہر پہنچا سکتی ہے .. ‘‘
امیر خاموش ہو گئے، کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگے:
’’اچھا .. خوجہ نیاز سے کہہ دینا امیر کل ان سلاخوں سے باہر نکل آئے گا .. ‘‘
مجھے امیر کی باتوں سے سچائی کی خوشبو آ رہی تھی، اس آواز نے کبھی دھوکا نہیں دیا ۔ میں بھاگتا ہوا باہر نکلا اور انکا پیغام خوجہ نیاز تک پہنچا دیا۔ خوجہ نیاز اپنے کچھ با اعتماد ساتھیوں کے ہمراہ شہر سے باہر قیام پذیر تھے، وہاں گفتگو اور مناقشات کا سلسلہ جاری تھا، اس خبر نے سب کے کانوں میں رس گھول دیا، خوجہ نیاز کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک ابھری اور پھر ان میں اضطراب کے سائے لہرا اٹھے، انھوں نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا دیے، اور بڑے الحاح سے عرض گذار ہوئے ..
’’یا اﷲ اسے معاف کر دے .. یا اﷲ اس کی مدد فرما .. ‘‘
لوگوں کی زندگی کے تجربات ان کا موضوعِ گفتگو بن گئے، ہمیں کہا جاتا کہ خطرناک امور اور بڑے بڑے حادثات کا حل جزع فزع سے نہیں نکلتا .. انکا کوئی درمیانی حل بھی نہیں ہوتا اور فاتح لشکر مفتوحین کو ان کی بنیادیں کبھی نہیں لوٹایا کرتے، وہ جو کچھ لوٹاتے ہیں وہ ارمانوں کی کرچیاں اور ان کے عشرت کدوں کا کوڑا کرکٹ ہوتا ہے .. ہماری مسکین قوم ، ترکستانی عوام دو طاقتور سلطنتوں چین اور روس کے جہنم کے درمیان محصور تھی .. ہم زہر آلود نیزوں کی زد پر تھے .. اور مشین گنیں .. اور آگ اگلتا اسلحہ .. اور دور سے آتی ہوئی ہوس .. میں پوری دنیا میں متحرک صلیبی مشنریوں کی سرگرمیوں سے آگاہ تھا، انھوں نے ہمیں ذلیل اور کمزور دیکھا تو بھاگ کر ہمارے گرد جمع ہونے لگے ..اور صوبائی اور قومی جذبات بھڑکا کر اپنی جگہ بنانے لگے .. انکی ترغیبات کا صرف ایک ہدف تھا، ہم کچھ بھی بن جائیں مگر مسلمان نہ رہیں .. کیا تمہیں انکی مکاری سمجھ آئی؟؟‘‘
وہ لشکریوں اور سپاہیوں کو ہماری دوشیزاؤں کے تعاقب اور ان سے زبردستی شادی کی ترغیب دیتے نظر آتے .. انہیں عورتوں کا کال نہیں تھا .. لیکن وہ ہمارے ان اصولوں اور بنیادوں کو ملیامیٹ کرنا چاہتے تھے .. جنکی بناء پر ہم نے صدیوں اپنے استقلال اور آزادی کی حفاظت کی تھی …
*…*…*
ہمارے قیدی امیر کو معلوم تھا کہ انکا انجام موت ہے۔ ہم موت کا ذکر اتنی آسانی سے کرتے تھے اور اس کو یوں کاغذ پر لکھتے تھے کہ ہمارے اندر ہیجان یا رعب تک پیدا نہ ہوتا تھا۔ ہمارا امیر موت کے نرغے میں کھڑا تھا … اور یہ کوئی آسان معاملہ نہیں تھا .. جب انسان ہی مر جائے تو اس کے تشنہ خوابوں کے سوا کیا بچتا ہے .. وہ محبت میں رچی بہار کی خزاں رسیدگی سے قبل ہی کوچ کی تیاری میں تھا .. انسان مرتے ہوئے اپنے کم سن بچوں کی آنکھوں میں رچی خواہشوں کو دیکھتا ہے اور ان میں بسے رسیلے نغمے بھانپ جاتا ہے، ان مرد و زن کو دیکھتا ہے جو اس سے محبت کرتے ہیں .. پھر اس تاریک گڑھے کا تصور کرتا ہے جو اس کی نئی مسکن گاہ ہو گی جس میں نہ کوئی حس و حرکت ہو گی نہ پیاروں کی خبر .. جس میں قیام طویل ہے، ممکن ہے ہزاروں برس طویل .. جہاں وہ عاجزانہ اپنی قبر میں سوتا رہے گا .. اور وہ حادثات جو دنیا کو ہلا کر رکھ دیں گے، اس کے ماحول کو تلپٹ کر دیں گے، ان کی اصلاح میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا .. بچوں کے معصوم قہقہے ہوں گے، خوبصورت عورتوں کی مترنم ہنسی، زمین سبزہ اگائے گی، باغات پتوں کا لباس پہنیں گے، سرکش جاسوس ان علاقوں کو چھانتے پھریں گے وہ ہر جگہ گھومیں گے، کتوں کی طرح شکار سونگتے پھریں گے اور مسلمان دوشیزاؤں کو شادی پر اکسائیں گے .. اور وہ .. وہ امیر .. ایک بدبو دار لاش کی مانند منوں مٹی تلے پڑا ہو گا .. کیا موت خوفناک نہیں ..
قومول کے قیدی امیر نے بڑی عجلت میں چینی قائد کو خط لکھا اور اپنی گزشتہ جفاؤں پر اس سے معذرت طلب کی اور اس معاملے کا دوبارہ ایسے انداز میں جائزہ لینے کا وعدہ کیا جس میں سب کی نجات اور فائدہ ہو۔وہ اس سلسلے میں اس سے ملاقات کا خواستگار ہوا …
چینی قائد مسکرایا اور مکاری سے آنکھ ماری، اسے تصور میں حسین و جمیل شہزادی سہاگ رات میں اپنے پہلو میں نظر آنے لگی، جس کے بعد زندگی کی آسودگی کمال تک پہنچ جائے گی۔ ہر چیز اس کے زیرِ تسلط ہوگی، اب کوئی میرے احکام سے سرتابی نہ کر پائے گا اور یہ احساس ہر طاقتور فاتح کو ہمیشہ لذت دیتا ہے خواہ چند لمحوں کیلئے ہی سہی اور وہ ان لمحات میں انسانیت کو بڑی ترس اور مہربانی کی نظروں سے دیکھتا ہے .. صاحبِ قدرت خود پسند اور جاہل متکبر کی مہربان نگاہیں .. !! قائد بولا:
’’امیر کو دربار میں حاضر کرو تاکہ جانیں کہ وہ کیا چاہتا ہے ‘‘
چل اے مسکین امیر اٹھ اور غم نہ کر، تجھے ہاتھوں میں بیڑیاں مغموم نہ کریں، یا یہ کہ تجھے کٹھور چینیوں کا لشکر محاصرے میں لئے ہوئے ہے اور ان کے غول تمام عمارت کو گھیرے ہوئے خطرے سونگھتے پھر رہے ہیں .. اے امیرِ قومول اپنی نظریں جھکا کر چل تاکہ تیری آنکھیں ذلت اور غرور کے مظاھر نہ دیکھ پائیں، اپنے راستے پر سمٹ کر چل اور اپنے کانوں کو توہین آمیز کلمات کے لئے بند کر لے، ان طربیہ مناظر سے اپنی نگاہوں کو بچا لے جو انھوں نے خوشی کا احساس دلانے کے لئے بڑے احمقانہ انداز میں سٹیج کئے ہیں‘‘
’’اے قائد صبح کا سلام‘‘
’’خوش آمدید امیر‘‘
امیر سر جھکا کر بیٹھ گیا، کچھ لمحے یونہی بیت گئے، پھر قائد نے اپنے حواریوں کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا، جب چند قابلِ اعتماد ساتھی ہی رہ گئے تو ترکستانی امیر نے قائد کو متوجہ کر کے سرگوشی کی:
’’ایسے معاملات یوں درشتی سے تو حل نہیں ہوتے‘‘
قائد بولا:
’’مدتِ مہلت ختم ہو جانے کے بعد میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تھا .. اور تم نے بھی تو شہزادی کا ہاتھ مجھے دینے سے انکار کر دیا تھا .. ‘‘
’’اے قائد ’’دوست‘‘ ہم اس معاملے کو نرمی سے بھی تو سلجھا سکتے ہیں .. ‘‘
’’وہ کیسے؟؟‘‘
’’میرے پاس ایک پلان ہے .. ‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
اور امیر نے قائد کے سامنے اپنا پلان پیش کیا۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ امیر کو رہا کر دیا جائے تاکہ وہ علماء کونسل کا اجلاس بلائے، اور ان کے سامنے سارے معاملے پر تفصیلی بحث ہو، ممکن ہے کہ وہ ان سے شرعی فتوی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے جس میں ایسے نکاح کو ’’سندِ جواز‘‘ عطا کی جائے، اور اس کی دلیل قدیم مذہبی کتابوں کے بطن سے حاصل کی جائے، اور جب فقہاء کے دستخطوں سے ایسا فتویٰ جاری ہو گا، ساری مشکلات ختم ہو جائیں گی، امن قائم ہو جائے گا اور سب ہنسی خوشی امن و سکون سے رہنے لگیں گے ..
قائد مسکرایا اور مونچھوں کو بل دیتے ہوئے بولا:
’’میں دیکھ رہا ہوں کہ روز بروز ہماری قربت میں اضافہ ہو رہا ہے . . اور ہمارے درمیان موجود خلیج کم ہوتی جارہی ہے .. میرا یقین کرو تو میں کرسئ امارت تک تمہیں لوٹانے کو تیار ہوں .. میری بات چینی قیادت کبھی رد نہیں کرتی .. ‘‘
اسکے زور دار قہقہے امیر کو دہشت زدہ کرنے لگے وہ بمشکل بولا:
’’بلا شبہ آپ خوش بخت ہیں قائد .. ‘‘
’’بڑا خوش نصیب ہوں میں امیر .. میں جب تصور کرتا ہوں کہ شہزادی میری ہو گی .. اور میرے بچے اس جیسے خوبصورت اور پر کشش ہوں گے .. میں خوشی سے پاگل ہونے لگتا ہوں .. اب تو ہم تم ایک ہی خاندان بن جائیں گے .. اور ہمارے درمیان غالب اور مغلوب کا فرق مٹ جائے گا .. ‘‘
یہ احمقوں کا فلسفہ ہے جو انسانیت اور اخوت کے خوشنما پردے تلے چھپا رہتا ہے، مجھے اس سے کتنی شدید نفرت ہے .. ہائے ری رسوائی کہ میری بیٹی اس کی دسترس میں پہنچ جائے!! میرا دل متلانے لگا اور مجھے ابکائی آگئی، اگر وہ اس جانور کے پنجہء گرفت میں آگئی تو اس کا کیا حال ہو گا .. اس کی نرم نازک سماعتوں سے اس کی کریہہ کھردری آواز ٹکرائے گی .. اور میری پیاری اس وحشی کی ہم نشیں ہو گی؟؟ کیسے؟؟ میرا یقین ہے کہ انسان محض گوشت پوست اور رنگ و خون کے مجموعے کا نام نہیں .. وہ تو فکر اور عقیدے کا نام ہے .. وہ عظیم تصورات جن پر وہ ایمان رکھتا ہے وہی اسے قابلِ توجہ بناتے ہیں اور اس کی قیمت مقرر کرتے ہیں، اسی بنا پر اس سے محبت کی جاتی ہے یا وہ نفرت کا مستحق ٹھہرتا ہے، اور عقیدہ گوشت پوست کے لوتھڑے کو معنی قبولیت اور شفافیت عطا کرتا ہے … اور یہ عقیدہ اس جثے میں رچ بس جاتا ہے .. اسی کا لباس زیب تن کر لیتا ہے .. اسی کی دلنشیں مسکراہٹ اسکے لبوں پر آویزاں ہو جاتی ہے، اور اسی کی محبوب گفتگو اسکا کلام بن جاتی ہے، اور اسکو انسانی پیکر میں ڈھال دیتی ہے …
اچانک قائد بولا:
’’کیا تم سمجھتے ہو امیر کہ یہاں چینی اور ترکستانی کے درمیان کوئی فرق ہے؟؟‘‘
’’پورے یقین سے.‘‘
قائد نے حیران ہو کر امیر کی طرف دیکھا اور کہنے لگا:
’’کیا؟؟‘‘
’’چینی فاتح ہیں .. ‘‘
قائد قہقہہ لگا کر بولا:
’’یہ تو درست بات ہے، ہم ہمیشہ سے فاتح ہیں .. ہماری تاریخ دور دور تک انہیں تذکروں سے بھری پڑی ہے ..
امیر جوابا گویا ہوا:
’’حربِ افیون کے زمانے سے اور اس سے پہلے سے‘‘
قائد کا چہرہ زرد پڑ گیا، وہ کھنگھار کر بولا:
’’استعماری غلبہ بھی ہماری انفرادیت مسخ نہیں کر سکا .. ‘‘
خاموشی چھا گئی پھر چینی قائد گویا ہوا:
’’اہلِ علم کہتے ہیں ہمارے اندر غلبے کی صفات نمایاں ہیں .. ‘‘
’’کیسے؟؟‘‘
قائد گھوم کر امیر کے قریب آگیا، اور بڑے اہتمام سے وضاحت کرنے لگا کہ علمائے وراثت کا کہنا ہے کہ اگر چینی مرد یورپی عورتوں سے شادی کریں، تو اولاد غالب چینی صفات کی حامل ہوتی ہے، اور اس کا سبب ہمارے طاقتور ’’جینز ‘‘ہیں جو ہمارے خلیوں میں پائے جاتے ہیں .. ‘‘
امیر حیرت زدہ بولا:
’’یہ جینز کیا ہیں؟؟‘‘
’’اس کے بارے میں میں بھی نہیں جانتا امیر … اسی طرح کہتے ہیں .. ‘‘
’’یا الہی .. تم اپنی بیٹیوں اور بچوں کا سودا کیوں کرتے تھے .. ‘‘
’’یہی ہوا .. غربت اور بدبختی کے دنوں میں .. مجھے وہ غمناک دن یاد نہ کراؤ .. ‘‘
اچانک چینی قائد کا چہرہ لٹک گیا اور انقلاب کی قربانیاں اسکے زرد چہرے پر نمودار ہونے لگیں، وہ چلتے چلتے رک گیا، پھر چند قدم کے فاصلے پر گیلری میں داخل ہوا، اور جب لوٹا تو اسکے ہاتھ میں عمدہ شراب کا جام تھا، اس نے بڑے تناؤ میں اسے گھونٹ گھونٹ پینا شروع کر دیا، وہ اپنے اوپر قابو رکھنے کی کوشش کر رہا تھا، اور اپنے غیظ و غضب کو دباتے ہوئے ہمکلام تھا:
’’میں نے اسے برسوں تلاش کیا .. ‘‘
’’قائد کس کے بارے میں فرما رہے ہیں .. ‘‘
’’میری بہن ….. ‘‘
’’کیا وہ جنگ میں کھو گئی .. ‘‘
’’حربِ افیون کے دنوں میں اسے کسی نے اغوا کر لیا .. میں یقین نہیں کرسکتا جو اس بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ میری ماں نے اسے چند نوالوں کے عوض بیچ دیا .. یہ جھوٹ ہے .. جھوٹ .. جھوٹ .. ‘‘
امیر اسکے قریب ہو کر کہنے لگا:
’’اتنے پریشان نہ ہوں قائد .. علمائے شریعت سے ملاقات کے بعد میں آپکو خوش خبری سناؤں گا .. کیا مجھے جانے کی اجازت ہے؟؟
چینی قائد کے چہرے کی رونق لوٹ آئی، اس نے جام دائیں جانب رکھ دیا ..
’’اب تم آزادی سے جا سکتے ہو امیرِ قومول .. اب شادی کی رات ہی مے نوشی ہو گی .. ہم ملکر ناچیں گے گائیں گے اور شباب کے مزے لیں گے .. اور دیکھیں گے کہ قوموں میں غلبے کی صفات کیا ہوتی ہیں .. ہم نے مشرق و مغرب میں یلغار کی اور ہمیشہ کامران رہے .. موت سے زیادہ آسان کچھ نہیں .. میں نے کبھی اسکے بارے میں نہیں سوچا اسی لئے میں اس سے نہیں ڈرتا .. ہزار مرتبہ میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں .. ہاں میں نے اسے شکست دے ڈالی اور فاتح بن گیا .. اور قومول پر میرا حکم چلنے لگا .. میری ساری خوش بختی یہی ہے کہ میں جیت گیا .. اے امیر اس کے سوا مجھے کچھ نہیں دکھائی نہیں دیتا .. جب کہ تم جنت اور جہنم کی بھول بھلیوں ہی میں کھوئے رہتے ہو
’’کیونکہ یہ حقیقت ہے اے قائد‘‘
کیسے؟
’’اسوقت آپ بھرا ہوا جام تھامے ہوئے ہیں‘‘
’’ہاں .. ‘‘
’’یہ جام جس لذت کے لئے آپ پی رہے ہیں وہ لذت دکھا دیجیے‘‘
’’لذت؟؟‘‘
’’ہاں .. لذت کہاں ہے اے قائد .. ‘‘
’’یہ مادہ نہیں ہے .. میں نے اس بارے میں لینن مارکس اور اینجل کی کتابوں میں کچھ نہیں پڑھا .. وہ لذت کی بات نہیں کرتے کیونکہ وہ غیر مادی ہے .. ‘‘
’’لیکن آپ اس کو محسوس کرتے ہیں .. ‘‘
’’ہاں .. اگر یہ نہ ہو تو میں جام کو ہاتھ بھی نہ لگاؤں .. ‘‘
’’وہ موجود ہے ‘‘
’’یقیناًاے امیر .. ‘‘
’’میں اسے چھونا چاہتا ہوں .. ‘‘
’’نہ میں اور نہ ہی تم اسے چھو سکتے ہو .. ‘‘
امیر آہستگی سے بولا:
’’اس سے بھی بڑی لذت اﷲ کی جنت کے حصول میں ہے اے قائد .. اور میں بلا جام بھی اس کی لذت محسوس کرتا ہوں .. ‘‘
حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

2 تبصرے

  1. بہت ہی دردناک داستان ۔۔۔۔ سچ کا آگہی کا کرب
    اور شائد یہی داستان بس جگہ اور زمانے کے فرق سے دہرائ جاتی رہی ہے ۔

  2. میمونہ حمزہ نے ڈوب کر ترجمانی کا حق ادا کیا ہے،فاتح اور مفتوح کے جذبات اور قوموں کے عروج وزوال کو اپنے رواں قلم سے پیش کرنا بہت بڑا کارنامہ ہے۔۔۔شاباش

Leave a Reply to رمانہ عمر