“شہیدِ کراچی”

عباسی شہید ہسپتال ناظم آباد میں اُس وقت پولیس کی بھاری نفری موجود تھی اور ہر طرف سے ‘ہٹو بچو’ کی آوازیں سنائیں دے رہی تھیں معلوم ہوا کہ ایک صوبائی وزیر جن کا تعلق ایم۔کیو۔ایم سے ہے وہ ایک پولیس آفسر کی لاش جو چند گھنٹے قبل ہی ہسپتال میں پہنچائی گئی ہے اس پر اظہارِ افسوس کرنے آرہے ہیں پروٹوکول میں مسلح گاڑڈ سمیت دیگر ایم۔کیو۔ایم کے کارکنان بھی اس وزیر کے استقبال کےلیے ہسپتال میں عام لوگوں کو داخل ہونے سے منع کر رہے تھے  خیر وزیر ابھی اس لاش کے پاس پہنچا ہی تھا کہ سب لوگوں کی توجہ اس وزیر سے ہٹ کر اس شخص کی جانب مرکوز ہوگئی جو پروٹوکول کو چیرتا ہوا اس وزیر کی جانب بڑھ رہا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ وزیر کے سامنے موجود تھا اور اس نے وزیر کو مخاطب کرکے کہا” کہ اگر تم اس لیے یہاں آۓ ہو کے پولیس آفیسر کی موت کی تصدیق کرکے اپنے قائد الطاف حسین کو خوشخبری دے سکو،کیونک اسی کے حکم پر   اس کی جان لی گئی ہے تو میں یہ کام تمہیں ہرگز نہیں کرنے دوں گا ، پھر کیا تھا اس وزیر پر اس شیرِ خدا کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کے وہ ہسپتال سے واپس جانے پر مجبور ہوگیا یہ شخص جس نے یہ سارا کام اس وقت کے فرعون الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ کیا اسے لوگ “ڈاکٹر پرویز محمود شہید” کے نام سے جانتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے ہر ایک موقع پر ایم۔کیو۔ایم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جب شہرِ کراچی میں ایم۔کیو۔ایم کا طوطی بولا کرتا تھا اور اس کے خلاف بات کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کی مانند سمجھا جاتا تھا۔ غرض ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی اہل کراچی کے لیےوقف کردی تھی ۔صبح ہو شام وہ ہر وقت شہرِ کراچی کو الطاف حسین کے شکنجے اور اس کی خدائی کے خلاف آواز حق بلند کرتے دکھائی دیتے تھے ۔اس جدوجہد میں انہیں ایم۔کیو۔ایم کی طرف سے دھمکیاں تو اکثر ہی موصول ہوتی تھیں پر یہ شیر اور مجاہد صفت لیڈر ہمیشہ یہ بات کہتا کے ”کوئی آدمی گولی سے نہیں مرتا بلکہ اپنی موت سے مرتا ہے” شہادت سے چند روز قبل پولیس آفیسر چودھری اسلم نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب چند دن کے لیےہی شہر کو چھوڑ جائیں آپ کی جان کو خطرہ ہے تو اس مردِ مجاہد نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا کہ موت آنی ہوگی تو بستر پر ہی آجاۓ گی، پھر کیا تھا 17 ستمبر کو الطاف حسین کی سالگرہ سے ایک دن قبل تحفہ میں اس شیر کی زخموں سے سجی لاش عباسی شہید ہسپتال میں موجود تھی ہر طرف آنسوؤں کو نہ رُکنے والا سلسلہ جاری تھا کیا جماعتی،اور کیا دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنان غرض ہر شخص اس مردِ مجاہد کی شہادت پر غمگین دکھائی دے رہا تھا ،کیونکہ شہرِ کراچی کے لوگ ایک غظیم لیڈر اور مسیحا سے محروم ہوگئے تھے ۔۔۔

وہ شخص تو شب خون میں مارا گیا ورنہ،

اس جیسا بہادر تو سارے لشکر میں نہیں تھا ۔۔۔!

حصہ

جواب چھوڑ دیں