روزن کی روشنی

چھٹی  کے دن  کبھی ہشاش بشاش اور کبھی نیند میں جھومتے جھامتے پراٹھے بناتے ہوئے  باورچی خانے کی کھڑکی سے چھن چھن کے آتی دھوپ  مجھے ہمیشہ ہی اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے، دھوپ جو  روزانہ اس سمے میرے باورچی خانے کی کھڑکی تک پہنچتی ہے جب میں گھر میں ہوتی ہی نہیں ہوں ، یہ دھوپ تو روز ہی یہاں آتی ہوگی اور مجھے نہ پاکر خاموشی سے کچھ دیر ٹھہر کر لوٹ جاتی ہوگی ،لیکن جس دن میں ہوتی ہوں  میرے لیے کچھ گھڑی زیادہ ٹھہرتی ہے، شاید یہ اس طرح ممکن ہوتا ہے کہ ان تھوڑے سے لمحات سے میں بہت زیادہ کچھ کشید کر لیا کرتی ہوں، یہ دھوپ مجھے میرے ہونے کا احساس دلاتی ہے، یہ یاد دلاتی ہے کہ دنیا میں کچھ نعمتیں ایسی ہیں جو مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا ، جو بہت سوں کی شراکت ہونے کے باوجود بلا شرکتِ غیرے میری ہیں، یہ دھوپ مجھے روٹی بیلتے بیلتے کتنے جہانوں کی سیر کروا لاتی ہے، جانے اس چھن چھن کے آتی ہوئی روشنی  میں ایسی کیا کرامت ہے جو اکثر مجھ پہ سوچ کے کئی نئے در وا کر جاتی ہے۔ کبھی کسی نظم کا خیال ، کوئی مصرعہ ،کوئی شعر اور کبھی کسی افسانے کا پلاٹ۔ کبھی کبھی اسی قطرہ قطرہ بن کے پھیلتی روشنی  میں دیوار کے ساتھ موبائل ٹکا کر میں کوئی بیان یا درس سنتی ہوں،

اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھتی ہوں تو کبھی مشاعرے کی سامع بن جاتی ہوں اور بعد میں اپنے فون کی اسکرین سے آٹے اور گھی کے نشانات مٹاتی ہوں ۔ ایک بات ہے جو مجھے موتیوں کی صورت بکھرتی دھوپ نے بڑی گہرائی سے سمجھائی ہے ، یہ سورج کی گرمی روئیے کی گرمی سے کم نہ ہو گی تو زیادہ بھی نہ ہو گی، اسی دھوپ کا سامنا اگر میں بنا کسی کھڑکی،بنا کسی جالی کے کروں تو یہ کیسی ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے جذبات کو الفاط اور انداز کا روپ دینے سے  پہلے ایسی ہی کسی کھڑکی کسی جالی سے گزار لیا کریں ،کہ سہنے والے کو ہمارے جذبات کی دھوپ بھی خوبصورت معلوم ہو، اسے ہمارے احساسات کی تپش سے بھی پیار ہو جائے۔

حصہ

4 تبصرے

Leave a Reply to مریم حسن