“بڑے لوگوں کے بڑے دکھ”‎

لفظ “دکھ” بولتے ہی عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔دکھ ہر انسان کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔دکھ ہر انسان کو پہنچتا ہے،دکھ کاا سٹیشن امیر اور غریب دونوں ہیں،کبھی یہ دکھ غربت والے اسٹیشن پر ٹہرتا ہے تو کبھی یہ دکھ دولت کے اسٹیشن پر ٹھکانہ پکڑتا ہے۔بہت سے دکھ ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں ہر حال میں قبول کرنے پڑتے ہیں۔بعض دکھ اس قدر درد ناک ہوتے ہیں کہ انہیں  اپنے تصورات میں  رکھ کر ہم آنے والی خوشی کو بھی دیکھ نہیں پاتے۔ہم دکھوں کو بھلا کر آگے بڑھنا چاہیں تو بھی نہیں بڑھ سکتے کیونکہ ہمارا ماحول ہمیں دکھ سے جدا کر نہیں سکتا۔ کچھ دکھ ہماری شخصیت میں سرایت کر جاتے ہیں اور ہم غیر محسوس طریقے سے ان دکھوں کی تصویر بن جاتے ہیں۔قدرت بھی بہت مہربان ہے کہ دکھ بھی ایک لامحدود عمر لیکر نہیں آتا،آتا ضرور ہے پر ختم بھی ہوجاتا ہے۔
اس زمین نے دکھوں کی کئی لازوال داستانیں سمیٹیں ہیں پر کچھ داستانیں ایسی ہیں کہ وہ رہتی دنیا تک یاد رہیں گی۔ تاریخ شاید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا دکھ سب سے بڑا دکھ تھا،ایسا دکھ زمین و آسمان نے کبھی دیکھا تک نہ ہوگا،یہ ایسا دکھ تھا کہ جس نے بڑے بڑے بہادروں کو دکھ سے دو چار کردیا تھا،اس دکھ نے دھرتی کی ہر چیز میں ہیجان کی سی کیفیت پیدا کردی تھی،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے حجرے کا دروازہ کھول کر جب یہ فر مایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے تو مسجد آہوں سے گونج اٹھی،حضرت علی رضی اللہ عنہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے اور ہلنے کی طاقت تک نہ رہی،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملتے رہے، عمر رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی بھی کہہ  پڑے تھے کہ خبردار کسی نے یہ کہا کہ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جہاں سے رخصت ہوگئے ہیں تو میں اس کی گردان اڑا دوں گا”۔اس وقت سب سے زیادہ صبر اور برداشت کرنے والی شخصیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے،آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک پر سر رکھ کر رو دئیے اور فرمایا”ہائے میرے پیارے دوست،ہائے میرے مخلص ساتھی،ہائے میرے محبوب،ہائے میرے نبی”پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور فرمایا “یارسول اللہ!آپ پاکیزہ جیئے اور پاکیزہ اس جہاں سے رخصت ہوئے”۔سارے صحابہ پر غم اور دکھ کی عجیب کیفیت طاری ہوگئی تھی ایسی کیفیت شاید ہی اس دھرتی نے سمیٹی ہو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے بعد حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے وہ دکھ بھرے الفاظ  تاریخ نے قلمبند کیے”تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرہ پر مٹی ڈالو؟”پھر کہنے لگیں”ہائے میرے پیارے بابا جان کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیئے،ہائے میرے پیارے بابا جان کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے”۔یہ ایک عجیب دکھ و درد کا منظر تھا اس جتنا بڑا دکھ شاید کہ اس دھرتی پر رونما ہوا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کااپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کا دکھ بھی ایک عجیب داستان رکھتا ہے کیسے انہوں نے اپنے بیٹے کے دکھ کا کڑوا گھونٹ نگلا تاریخ نے اسکے بھی اوراق بھی بھرے۔قرآنی آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو بیٹے کا کتنا دکھ تھا اور اس دکھ میں بینائی تک چلی گئی تھی۔ قرآنی آیات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے محبوب بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کے رنج وغم اور رونے کی وجہ سے ان کی بینائی گئی تھی۔
قدرت نے ایک رشتہ پیار کا بھی پیدا فر مایا ہے،اس پیار کے رشتے کو نبھانے کیلئے جان تک قربان کی جاتی ہے۔یہ قدرت کا عظیم احسان ہے کہ اس نے یہ پیار کا رشتہ اس جہاں کو نصیب فر مایا اگر پیار کا رشتہ نہ ہوتا صرف نفرت ہی کا رشتہ ہوتا تو اس جہاں میں گزروبسر تو درکنار سانس تک لینا مشکل ہوتا۔اس قدرت کا سب سے میٹھا رشتہ ماں کا رشتہ ہوتا ہے۔ماں بولتے ہی محبت اور پیار محسوس ہوتا ہے،ماں نہیں تو کچھ نہیں،مخلوق میں سب سے زیادہ پیار کرنے والی ذات ماں کی ہے،ماں جب تک زندہ ہوتی ہے تو دکھوں کو مٹاکر خوشی کی امیدیں وابستہ کرتی ہے اور جب اس جہاں سے رخصت ہوتی ہے تو دکھوں کی ایک لازوال داستان رقم کردیتی ہے۔
محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی موت ایسے وقت میں ہوئی کہ جب اسکا ہم سفر جیل کی سلاخوں کے پیچھے قیدی کی زندگی جی رہا تھا،وہ بیٹی جو ماں کی آخری رسومات ادا کرتی ہے،وہ بیٹی جو ماں کے سرہانے بیٹھتی ہے،وہ بیٹی جو ماں کی محبت سے سرشار ہوتی ہے وہ بھی آخری وقت میں ماں کا دیدار نہ کرسکی،جو ماں سے پیار بھری بات تک نہ کرسکی اور جیل میں پڑی اپنی قسمت کو کوستی رہی۔ماں کی وفات کا دکھ یقینا ایک بہت بڑا دکھ ہوتا ہے۔لیکن ماں کی وفات ہو، اور وہ ماں ایک سال سے شدید بیمار بھی ہو،اور شوہر،بیٹی جیل کی سلاخوں میں ہوں تو دکھ کا پہاڑ ایسے ٹوٹتا ہے جیسے سیمنٹ کی چھت ٹوٹتی ہے۔کل بینظیر بھٹو یہ ستم سہ رہی تھی اور آج مریم نواز۔آپ ایسے مکافات عمل کا نام دیں یا جو بھی کہیں لیکن یہ دکھ سہنا ایک بڑے جگرے کا کام ہے۔2004 میں شریف برادران اپنے والد کے جنازے کو کندھا تک نہ دے سکے۔بڑے لوگوں کے واقعی بڑے دکھ ہوتے ہیں یہ انکی بدقسمتی ہے یا کچھ اور ہے لیکن! ہوا کچھ ایسا ہی ہے۔

میں نواز شریف کا سیاسی حامی ہر گز نہیں ہوں۔وہ مجرم ہے اسے سزا پوری ملنی چاہیے لیکن جرم ثابت کرنے کا جو معیار تھا وہ ہر گز انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہ تھا۔یہ نواز شریف کے مخالفین کا ماننا بھی ہے اور عدالت کے کچھ ججوں کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ اس فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔افسوس ہوتا ہے کہ ہم کس قسم کے معاشرے میں جی رہے ہیں،جہاں بے بسی اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک عورت کی بیماری کو “سیاسی کارڈ” کہا گیا،ایک سابقہ خاتون اول کی بیماری کا مذاق اڑایا گیا۔محسوس یوں ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں بیماری کا یقین دلانے کیلئے لوگوں کو مرنا پڑتاہے۔سیاست ضرور ہو اور سیاسی اختلاف بھی لیکن سیاست میں اس نہج پر پہنچنا کہ ایک بیمار کا مذاق اڑانا ہر گز مناسب نہیں۔اس وقت سیاست کو ایک طرف رکھ کر نواز شریف کا سیاسی عروج و زوال دیکھ کر ان پر ضرور ترس آتا ہے۔ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جس نے فتح مکہ کے دن دشمنوں کو معاف کرکے ہمیں ایک سبق دیا۔ہم اس امت کے افراد ہیں جو امت اعتدال والی امت ہے اس امت کے شایان شان نہیں کہ وہ اعتدال سے تجاوز کرے۔اللہ کلثوم نواز کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین

حصہ

جواب چھوڑ دیں