اندر سے باہر کا سفر

سرگودھا سے چلا سوشل میڈیا کا ایک مضمون، جسے ہمارے  لکھنو کے دوست اصغر مہدی نے ہمیں اپنے اس نوٹ کے ساتھ  بھیجا ہے کہ یہ ’’اُن کے فیس بک کے دوست میاں عمار کا فرستادہ ہے‘‘ اس لائق ہے کہ پرنٹ میڈیا میں بھی محفوظ ہوجائے کہ :

عمل ہے فرض میرا ،پھر مآل ِ کار جو کچھ ہو ۔۔وہ کوئی اور ہے جو ذمہ دارِ کار سازی ہے !

 ہم اس مضمون کے شروع کے حصے کی تلخیص اپنے لفظوں میں پیش کر کے آخری حصہ جو بیشتر ڈائلاگ پر مبنی ہے ، مِن وَ عَن نقل کرنے کی کوشش کریں گے ۔

’’دو دوست موٹر سائکل پر کہیں جارہے تھے کہ ایک چوراہے پر بریک لگانے کی انتہائی کوشش کے باوجود وہ بائیں جانب سے اچانک سامنے  آّجانے والی ایک کار سےٹکرا  کر زمیں بوس ہوگئے۔ موٹر سائکل کی ٹکر سے کار کو بھی خاصا نقصان  پہنچ چکا تھا ۔آس پاس موجود لوگ انہیں اٹھانے کے لیے دوڑ پڑے  لیکن اس سے پہلے کہ انہیں اٹھایا جاتا ، حادثہ زدہ کار سے ایک باریش اور صاحب عمامہ مولانا  غصے سے بے قابو ہاتھ میں لوہے کا ایک راڈ لیے ہوئے نکلے اور اس سے پہلے کہ لوگ کچھ سمجھ پاتے  لوہے کے  راڈ  نے موٹر سائکل ڈرائیور کا سر پھاڑ دیا ۔ وہ جو  کار سے ٹکرا کر گرنے کے باوجود ہوش میں تھا، اب  زخمی ہوکر اپنے حواس کھو چکاتھا۔اس کا دوست  اور دوسرے لوگ اسے اٹھا کر اسپتال لے گئے جہاں چوبیس گھنٹے بعد اسے ہوش آیا لیکن راڈ پڑنے کے بعد کیا ہوا تھا یہ اسے یاد نہ آسکا ۔ بس اتنا احساس تھا کہ سر، درد سے جیسےپھٹا جارہا ہے کہ اتنے میں کچھ لوگ قریب آتے نظر آئے ان کے سفید کوٹ اور اسٹیتھو اسکوپ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سب ڈاکٹر ہیں ۔ان میں جو سب سے آگے اور سب سے زیادہ معمر نظر آتے تھے انہوں نے مسکراتے ہوئے نہایت نرم آواز میں  کہا :ما شا ء اللہ ۔ہوش میں آگئے مولانا صاحب ! اب کیسامحسوس  کر رہے ہیں آپ ؟ وہ جو پہلے درد سے بے حال تھا ڈاکٹر کے  نرم اور شفیق انداز نے جیسے  اس کی ساری تکلیف ہی  بھلا دی ۔اُس کی زبان سے بے اختیار نکلا : ’’الحمد للہ  بہتر ہوں ‘‘۔ اس بے ریش معمر ڈاکٹر نے اپنے ساتھیوں کی طرف مڑتے ہوئے انہیں ہدایت کی: ’’مولانا صاحب کا بہت زیادہ خیال رکھیں اور کل تک انہیں وارڈ میں منتقل کر دیں ‘‘۔ڈاکٹر کا ہمدردی سے بھرا ہوا شفیق انداز کسی کا بھی دل موہ لینے کے لیے کافی تھا ۔

دوسرے روز اُسے  آئی سی یو سے جنرل وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ۔ڈاکٹر اسی طرح  روز آتے ،ہنستے بولتے، مریضوں کو ہنساتے ، چک اَپ کرتے اور  چلے جاتے ۔پوری طرح ٹھیک ہو نے میں اُسے  دو ہفتے لگ گئے، اِسی دوران ایک روز ڈاکٹر صاحب آئے تو اُن کے دائیں ہاتھ میں پٹی بندھی ہوئی تھی ۔پہلے جیسے ہشاش بشاش تو نہ تھے لیکن ہنسنا ہنسانا بدستور جاری تھا ۔

’’یہ کیا ہوگیا ڈاکٹر صاحب ؟‘‘ اس نے فکر مندی کے ساتھ پوچھا ۔

’’کل ایک بے چارے نے میری کھڑی  ہوئی گاڑی میں اپنی گاڑی سے ٹکر ماردی ۔میری گاڑی تو تباہ ہو گئی لیکن اللہ  کا لاکھ لاکھ شکر و احسان کہ اس نے مجھے بچا لیا ۔بس ہاتھ میں معمولی سا زخم  لگا ہے یہ بھی، اِن شا ء اللہ ،بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا ۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ والے اپنے اسی مطمئن انداز میں جواب دیا ۔

’’تو آپ نے اسے پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا ؟جب گاڑی چلانی نہیں آتی تو روڈ پر نکلا ہی کیوں؟‘‘ وہ شاید کچھ  زیادہ ہی جذباتی ہو گیا تھا ۔لیکن ڈاکٹر صاحب کا جواب تو بالکل ہی غیر متوقع تھا :

’’مولانا صاحب اُس بے چارے سے غلطی سے ایسا  ہوا ہے، بھلا جان بوجھ کو کوئی ایسا کرے گا کیا ؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اپنے  اُسی مخصوص  مطمئن  اور نارمل انداز میں جواب دیا تھا  ۔

’’آپ کم از کم اپنی گاڑی کا نقصان تو بھروا ہی لیتے۔ کچھ تو نصیحت ہوتی اسے‘‘ اس کا لہجہ اب بھی جذباتی تھا ۔

’’غریب آدمی تھا بے چارہ ۔جس گاڑی کو اُس نے توڑا اس کی قیمت ستر لاکھ روپئے تھی ۔نقصان بھرتے بھرتے بے چارہ بوڑھا ہوجاتا ۔اور پھر اس  غریب کی اپنی گاڑی بھی تو ٹوٹی ۔اس لیے میں نے پچاس ہزار روپئے اسے دے دیے تا کہ وہ اپنی گاڑی بنوا سکے‘‘۔

یہ جواب سن کر اس کی تو آنکھیں پھٹی  کی پھٹی  رہ گئیں جبکہ ڈاکٹر صاحب کا لہجہ بالکل نارمل تھا ۔انہوں نے اس کے نسخے میں کچھ دوائیں لکھیں ،جونیئر ڈاکٹروں  کو کچھ ہدایات دیں اور روز کی طرح ہنستے مسکراتے رخصت ہو گئے ۔

وہ جلد ہی ٹھیک ہو کر گھر آگیا ۔ایک ہفتے بعد ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے ان کے نجی کلینک پر گیا تو انہیں تلاوت قرآن میں مصروف پایا ۔اسے دیکھتے ہی وہ کھڑے ہوگئے اور قرآن پاک  سائیڈ میں رکھتے ہوئے بولے: :’’آج فجر سے پہلے کا وِرد چھوٹ گیا تھا اِس لیے سوچا کہ ابھی مکمل کر لوں ۔‘‘

فجر سے پہلے کا ورد ؟اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب تہجد گزار ہیں ۔اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ انہوں نے اس کا معائنہ شروع کیا اور ساتھ ہی چائے بھی منگوالی ۔’’اس تکلف کی کیا  ضرورت  تھی‘‘ اس نے  احتجاج کیا ۔’’قبلہ آپ دین کا علم رکھتے ہیں ،انبیا ء کے وارث ہیں ،آپ دوسرےمریضوں کی طرح تھوڑی ہیں ۔۔‘‘

اچھا تو آپ بھی لیں ۔اس نے چائے کا کپ ڈاکٹر کی طرف سرکاتے ہوئے کہا۔ ’’ویسے بہت مزہ آتا اگر ہم اکٹھے چائے پیتے لیکن آج پیر ہے ،اس لیے میرا روزہ ہے ‘‘

اس کی حیرت میں اور اضافہ ہوگیا ۔ایک تو سرگودھا کی گرمی دوسرے جون کے مہینے میں نفلی روزہ ! انگریزی وضع قطع کا حامل ڈاکٹراور نماز روزہ کا ایسا پابند !!اتنا خوش مزاج اور مخلوق کا اتنا ہمدرد !!!اسے تو یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ ایک داڑھی منڈا آدمی اندر سے ایسا کامل مسلمان   بھی ہو سکتا ہے!

ڈاکٹر صاحب ایک بات کہوں ۔۔اگر آپ برا نہ مانیں تو ۔۔! اس کی زبان سے بے اختیار نکلا تو ڈاکٹر صاحب بولے ’’جی مولانا صاحب فرمائیں آپ اجازت کیوں مانگ رہے ہیں ؟

’’ڈاکٹر صاحب آپ اپنا حلیہ بھی اسلامی کیوں نہیں بنا لیتے ؟ ‘‘اس  نے بہ مشکل اپنا جملہ پورا کر ہی دیا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب برا مانیں گے مگر وہ تو بالکل نارمل رہے اور ہنس کر بولے : کبھی آپ نے کوئی ایسا بادام یا اخروٹ دیکھا جس کا باہر کا چھلکا تو پک چکا ہو مگر اندر سے وہ کچا ہو ؟ ظاہر ہے کہ اس جواب نفی میں تھا ۔ڈاکٹر صاحب پھر بولے :’’ کبھی کوئی گلاب جامن یا اسی طرح کی کوئی اور مٹھائی آپ کو کھانے کو ملی کہ باہر سے بالکل ٹھیک ہو اور اوپری حصہ خوب مزےدار بھی ہو لیکن اندر کا حصہ پوری طرح پکنے اور شیرہ جذب ہونے سے رہ گیا ہو ؟

اس نے کہا :’’کیوں نہیں ۔بیشتر مٹھائی والے ایسی ہی ناقص مٹھائی بناتے ہیں ۔‘‘

’’مولانا صاحب یہی فرق ہے مجھ میں اور آپ کو لوہے کی راڈ سے مارکر ادھ موا کر دینے والے مولوی صاحب میں ۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور سلسلہ گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے بولے: ’’بادام اور اخروٹ کے پکنے کا عمل اندر سے باہر کی طرف آتا ہے ۔لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ باہر سے پک جائے تو اندر سے کچا رہ جائے ۔جبکہ مٹھائی بنانے والے گلاب جامن کو باہر سے تلنا شروع کرتے ہیں سلیقے اور ایمانداری سے کام کیا جائے تو مٹھائی اندر سے بھی پوری طرح پک جاتی ہے اور شیرہ اندر تک جذب ہوکر  اسے یکساں طور پرخوش ذائقہ بنا دیتا ہے ۔ورنہ بیشتر وہی ہوتا ہے جو ابھی آپ نے بتایا ۔اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ مٹھائی والوں کی اکثریت  جلد باز اور بے ایمان  ہوتی ہے ۔۔پچیس سال کی عمر میں تین حدیثیں پڑھی تھیں میں نے کہ ’اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : ’’کسی آدمی کے ایمان کو استقامت اس وقت تک نہیں مل سکتی  جب تک اس کے دل کو استقامت نصیب نہ ہو ۔‘‘اور دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ’’تقویٰ یہاں ہے ‘‘ُاور تیسری حدیث جس میں قرآن پڑھنے والی ایک قوم کا ذکر ہے جن کی تلاوت ان کے حلق سے آگے نہ جائے گی ۔ایک عالمِ  دین سے  اُس کی وضاحت جاننا چاہی تو انہوں نے یہی مثال دی جو ابھی میں نے تمہارے سامنے پیش کی ۔وہ میرے دل پر نقش ہو کر رہ گئی ہے ۔آپ میرے ساتھ میرے محلے میں چلیے ،میرا کوئی پڑوسی میری شکایت کرے ،میرے خاندان میں کوئی شخص مجھ سے ناراض ملے ،کبھی کسی نے مجھے کسی کی غیبت کرتے پایا ہو ،کبھی میں نے کسی کو گالی دی ہو ،گلی محلے میں میری کسی سے لڑائی ہو ،حتیٰ کہ میرے گھر کے ملازموں کو مجھ سے شکایت ہو تو جو سزا آپ میرے لیے تجویز کریں میں اسے قبول کرنے کو تیار ہوں ۔مولانا صاحب میرا  ظاہری حلیہ یقیناً اسلامی نہیں ،بے شک یہ میری کوتاہی ہے اور عنقریب اس کوتاہی کا ازالہ کرنے کا پختہ ارادہ بھی ہے لیکن اس کوتاہی کی بنیاد محض اتنی ہے کہ میں ’’اندر سے پک کر باہر آنا چاہتا ہوں !

اللہ   کریم  کا فضل ہے کہ میرے دل میں کسی کے لیے حسد نہیں ،کینہ ،تکبر ،بخل اور دیگرامراض قلب سے بھی الحمد للہ پاک ہوں ۔جماعت سے نماز پڑھتا ہوں اور سالہا سال سے کبھی میری نماز قضا نہیں ہوئی ہے ۔تقریباً بیس سال کے دوران دو چار دفعہ کے علاوہ تہجد بھی نہیں چھوٹی ،پیر اور جمعرات کا روزہ پچھلے پندرہ سال سے معمول ہے ۔ماہانہ آمدنی کا صرف بیس فیصد اپنے لیے رکھتا ہوں ۔چالیس فیصد سے ایک تعلیمی ادارہ چلتا ہے جس میں بچے دینی و عصری علوم سیکھتے ہیں اور میرے اہل خانہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ ادارہ میں چلاتا ہوں ۔باقی کے چالیس فیصد ارد گرد کے ضرورت مندوں کے لیے مختص ہیں ۔۔مولانا صاحب یہ سب بتانے کا مقصد آپ سے اپنی تعریف سننا  ہر گز نہیں۔بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جس قدر اسلام کو میں نے اسٹڈی کیا ہے اس سے تو میں نے یہی سمجھا ہے کہ ۔۔

’’اسلام کا ہم سے تقاضہ یہ نہیں کہ ہم باہر سے اندر کی طرف جائیں،بلکہ اندر سے اپنے دل سے شروع کر کے باہر کی طرف آئیں ،اگر اسلام ہمارے اندر نہیں  تو ظاہری حلیہ کافی نہیں ۔۔اس لیے میری آپ سے بھی التجا ہے کہ ’ہو سکے تو لوگوں کو اندر سے پکانا شروع کریں ۔۔بے شک ظاہری حلیے کی بھی اپنی جگہ ایک حیثیت ہے لیکن ،آج کل پکانے کا عمل باہر سے شروع کیا جاتا ہے ،جس کا نتیجہ ہم سب اپنے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں ۔مسلمان تو ہیں مگر اسلام ابھی تک ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر سکا ہے اس لیے  لمبی داڑھی ،گول ٹوپی یا عمامہ اور  اونچا پائجامہ  تو ہے لیکن نہ اخلاق ہے نہ انفاق ، نہ ایثار ہے نہ قربانی کا جذبہ  ،نہ دیانت ہے نہ ایفائے وعدہ ۔وہی جھوٹ ،وہی خود غرضی،وہی بے حسی اور وہی مکاری ،وہی رشوت اور بینکوں کے ذریعے  وہی سود خوری ،۔اسی لیے ان کی نمازیں بھی انہیں فحشاء اور منکر  سے نہیں بچاتیں بلکہ لوگوں پر ’ظاہری تقویٰ ‘کی دھونس ڈالنے کے کام آتی ہیں ۔داڑھیوں ٹوپیوں ،عماموں اور اونچے پائجاموں کی اکثریت کے دل پیشہ ور مجرموں سے بدتر ہو چکے ہیں ۔حسد ،کینہ ، بغض و غیبت،عیب جوئی اور چغل خوری ان کی فطرت ثانیہ ہیں ۔۔اور مولانا صاحب! آپ بھی تو بھگت رہے ہیں۔ جس کی گاڑی سے آپ ٹکرائے اُس کا حلیہ تو’اسلامی ‘ ہی تھا نا ! مگر اس نے کیا کیا آپ کے ساتھ ؟ ‘‘

ڈاکٹر صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور اس  سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ـ ’’مولانا  صاحب !اندر سونا ہو تو ہ باہر ردی کاغذ بھی لپیٹ دو جب بھی قیمت کم نہیں ہوتی لیکن سونے کی خوب صورت  ڈبیہ میں کچرابھر دینے سے وہ کبھی قیمتی نہیں بنتا ۔۔۔‘‘

آخری جملہ ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب جھکے ،اس کا ہاتھ چوما اور باہر نکل گئے ۔اور  حواس باختہ سا وہیں کھڑا رہ گیا ۔کچھ دیر میں اوسان بحال ہوئے تو بوجھل قدموں سے باہر نکلا ۔آج پہلی بار اسے احساس ہورہا تھا کہ  ظاہری مذہبی حلیے کے باوجود اپنے اندر صرف کچرا بھرا ہوا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ۔۔۔جب تک یہ کچرا باہر نہیں نکلے گا تب تک مذہبی حلیہ کسی دھوکے سے کم نہیں ۔۔!

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں