عوام اور با اثر افراد

عوام اور بااثر افراد ایسا موضوع ہے کہ ایک فلم بنائی جا سکتی ہے ، سماجی میڈیا کے توسط سے تو ایسے بے تحاشہ کارناموں تک رسائی دستیاب ہے کہ جن کو صرف دوبارہ فلمانہ پڑے گا۔ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کراچی جیسے بڑے شہر میں ایک نومنتخب صوبائی اسمبلی کے رکن نے شاہر اہ عام پر کسی بھی وجہ سے ایک معزز شہری کو اپنے حفاظتی گارڈ کیساتھ مل کر زدوکوب کیااور اپنے با اثر ہونے کی ایک اعلی مثال قائم کی، یہ واقعہ جوکہ تھا ہی منظر عام لیکن بعد میں پتہ چلا کہ زدوکوب ہونے والا شخص بھی ایک سرکاری افسر تھایعنی بااثر ہونے کا حق وہ بھی رکھتا تھا، بہت ممکن ہو نئے اور پرانے کا فرق آڑے آگیا ہو۔ ایک اس سے کچھ ملتا جلتا واقع لاہور میں ہوا تھا جس میں ایک بڑی گاڑی مسلسل آگے نکلنے کیلئے اپنے آگے چلنے والی گاڑیوں کو مختلف طریقوں سے اشارے کر رہی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ مجھے راستہ دو اور گاڑی چلانے والا بھلے ہی وہ کوئی ڈرائیور ملازم ہی کیوں نا ہو گاڑی یا جس کی گاڑی تھی اس کی فرمانبرداری میں ایسا کرنے پر بضد تھا ۔ ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جب جب بڑی گاڑی آپ کے آس پاس ہو بس آپ اپنے ساتھ چلنے والی اپنی جیسی چھوٹی گاڑیوں سے بھلے ہی ٹکرا جائیں لیکن ان بااثر افراد اور ان کے ڈرائیور حضرات کو رکنا تو دور کی بات ہے گاڑی کو ہلکا کرنا اپنی شان میں گستاخی تسلیم کرتے ہیں۔ ان واقعات کواجاگرکرنے اور اسکے صحیح انجام کی طرف لے جانے میں سماجی میڈیا نے اپنا قلیدی کردار ادا کیاہے لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ تاحال صورتحال تبدیل ہونے سے قاصر ہے۔ایسے لوگ سڑکوں سے ہوتے ہوئے جہاں کہیں بھی جاتے ہیں وہاں انکا اثر رسوخ قابل دید ہوتا ہے عوام لائن میں گھنٹوں کھڑے رہیں لیکن ان لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ شہر کا درجہ حرارت کیا ہے۔
اثر و رسوخ کی چیخ و پکار پر مشتمل واقعات تقریباً ملک کے کسی نا کسی حصے میں روزانہ کی بنیاد پر رونما ہوتے رہتے ہیں اور سماجی میڈیا کے توسط سے مرکزی میڈیا (مین اسٹریم میڈیا) تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے اسکی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور یہ واقعات ہمارے ملک کی معاشرتی تنزلی کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں اور ساری دنیا کے سامنے جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔
موقع کی مناسبت سے بشیر بدر صاحب کا ایک بہت خوبصورت غزل کا ایک شعر یاد آرہا ہے کہ
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سواکچھ دیکھائی نہ دے
پاکستان میں اقتدار کا ملنا یا اقتدار کا حصہ بننا سمجھ لیجئے کہ زمین پر خدائی کے ملنے کے مترادف ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ تمام تعلقدار اور کسی بھی طرح سے جان پہچان والے پاکستان کو اپنی خاندانی جاگیر سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور اپنے ہی جیسے اپنے ہم وطنوں کو اپنا ملازم سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سمجھ کا زاویہ ہی یکسر تبدیل ہوجاتا ہے اور اپنے کہے کو حرف آخر سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سڑکوں پر چلنے والی ساری گاڑیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں ، نئی اور پرانی ہونے کیساتھ ساتھ چھوٹی اور بڑی بھی ہوتی ہیں اور اب تو درآمد شدہ گاڑیوں نے سڑکوں کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ یہ گاڑیاں اپنے اندر کوئی خاص طاقت رکھتی ہیں کہ ان میں بیٹھنے والا کسی بھی طرح (زیادہ وضاحت آپ خود سمجھ سکتے ہیں)کا فردخود بخود طاقتور بن جاتا ہے اور اپنے سامنے آنے والے کو تو جیسے کچل ہی دینا چاہتا ہو۔ اسی طرح ہمارے دہی علاقوں میں ، علاقے کے ذمیندار ، جاگیردار ، سردار، وڈیرے واغیرہ کے سامنے کوئی کچھ کہہ تو دے یہ خاص لوگ اپنا ایسا اثر و رسوخ دیکھاتے ہیں کہ عزتوں کے ساتھ ساتھ زندگیاں بھی چلی جاتی ہیں اور ان کی صحت پر تو کیا بال بھی کوئی بیکا نہیں کرپاتا۔
یہ وہ بااثر لوگ ہیں جو شائد وی آئی پی پروٹوکول سے آگے کی یا پھر کہیں پیچھے کی چیز ہوتے ہیں، جن کیلئے رکنا ٹہرنا توہین کی بات ہوتی ہے، یہ اپنی بات کو کاٹنے والے کو کاٹ دینے کا حق رکھتے ہیں، قانون انکی کی جانے والی حق تلفیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں نبھاتا چلا آرہا ہے ۔ کاروکاری یا ونی کرنے والے یہ کوئی مذہبی انتہا پسند لوگ نہیں ہیں بلکہ یہ ایسے ہی زمینی خداؤں کی پیروی کرنے والے لوگوں کا کام ہے جو ہمارے ملک میں ہمارے اسلام کے خلاف عورتوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا ہوا ہے جو کہ اسلام سے قبل عرب والے کیا کرتے تھے۔ علم کی ترویج میں بھی یہی بااثر لوگ حائل ہیں ۔
موجودہ حکومت اس عزم کیساتھ اقتدار میں آئی ہے کہ پاکستان سے ہر قسم کا فرق ختم کردے گی، یہ وہی عزم ہے جو چودہ سو سال قبل ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت اور برتری نہیں ہے اور نہ کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر فضیلت اور برتری ۔آپ ﷺ نے فرمایا خبردار! زمانہ جاہلیت کی(قبل از اسلام) تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے روند دی گئی ہیں ۔آپ ﷺ نے اور ارشاد فرمایا کہ خبردار! میرے بعدگمراہ یا کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ یہ اس خطبے سے لئے گئے چند احکامات ہیں جو رہتی دنیا تک کیلئے دنیا کا منشور ہے ، آج دنیا میں سیاسی جماعتوں کے اور طرح طرح کی تنظیموں نے منشور بنائے ہوئے ہیں لیکن ہمارے پیارے نبی ﷺ کا یہ خطبہ دراصل دائمی منشور ہے ۔ہم ان تمام باتوں کو رد کرتے جا رہے ہیں اور اپنا ٹھکانا یقینی طور پر آگ کو بنا رہے ہیں۔
یہ جتنے بھی عارضی بااثر لوگ ہیں جو جھاگ کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہوئے ہیں یہ ان کے لئے ہے کہ موت سے کوئی بچ نہیں پاتا اور اصل زندگی تو مرنے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے یہ زندگی تو دی ہی اسی لئے گئی ہے کہ اس زندگی کیلئے آسائشیں جمع کرلیں ورنہ بڑے ہولناک آگ ہے اور وہاں ہمیشہ ہی رہنا نہ پڑ جائے۔آخیر میں ایک بہت ہی مودبانہ گزارش ہے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا آخری خطبہ کسی ایسی جگہ رکھیں کہ جہاں سے آپ باآسانی اٹھالیں اور پانچ منٹ سے بھی کم میں اسے ہفتے دس دن میں ایک بار پڑھ لیا کریں اور دل سے یہ محسوس کیا کریں کہ یہ وجہ کائنات محمد مصطفی ﷺ کے الفاظ ہیں ۔ کوئی شک نہیں کہ رقت طاری ہوہی جائے گی۔ اپنے اندر تبدیلی لانے کیلئے اللہ اور اسکے رسول سے سچی محبت ضروری ہے۔ پھر کوئی بااثر نہیں رہے گا یا پھر سارے کے سارے با اثر ہوجائینگے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں