گلیور کا دشراتھ ما ن جھی اور ہمارا طرزِ عمل

سورج کی کرنوںکوزمین پر اترنے میں ابھی کچھ سَمے باقی تھا کہ حرماں نصیب دشراتھ مان جھی   نےحسبِ معمول  کلہاڑا پکڑا اورحصولِ رزق کے لیے  پہاڑ کی طرف چل دیا ۔ ہرچند کہ اس کی دھرم پَتنی فگونی دیوی  نو ماہ کی حاملہ تھی مگر گھرکا سارا کام کاج وہی کرتی ،صدیوں سے،پشت بہ پشت یہی پرم پرا چلی آرہی تھی۔پانی لینے کے کارن،مٹکا سر پہ ٹکائے فگونی دیوی جھرنے تک پہنچ تو گئی ،با ایں ہمہ لوٹتے   سَمَے ،پاؤں سنبھل نہ پائے کہ مٹکے کے ساتھ ساتھ غریبوں کے مقدر بھی پھوٹ گئے۔چوٹکی گہرائی ،اسپتال کی راہ پیمائی سے زیادہ تھی۔ستر کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ،دشراتھ”گیا “کے  اسپتال سے  ایک لاشہ،نومولود بچی اور پہاڑ سا عزم لیے واپس اپنے گاؤں گلیور لوٹ آیا۔

گلیور،بھارتی ریاست بِہارکے پورب  میں ،پہاڑوں کے بیچ ،گیا شہرکا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے،جہاں  نچلی ذات کے ہندؤ آباد ہیں۔گیا سے گلیور ،پہاڑیوں کے گرد لپٹے ہوئے راستے کا طول سترکلومیٹر کا ہے،اگر پہاڑ کاٹ دیا جائے تو یہی فاصلہ سمٹ کرسات کلومیٹرتک رہ جاتا ہے۔مگر وہی خاک زادوں کی  بدنصیبی ،پرسان حال کون ہو؟۔ نیتا جی پانچ برس بعد ووٹوں کے موسم میں ایک چکر لگاتے  اورپھر اگلے چناؤ تک کبھی درشن نہ دیتے!! لکیر کے دونوں طرف خا ک نشینوں کی آواز کم ہی سرکار کے در تک رسائی پاتی ہے،کبھی ایساحادثہ  رونما ہوجائے تو یہ کئی حادثوں کی پیدوار ہوتاہے۔بقول ضمیر اترولوی

؎ خاک زادے خاک میں یا خاک پر ہیں آج بھی

سامنے اک کوزہ گر کے چاک پر ہیں آج  بھی

دشراتھ کو اپنی دھرم پَتنی فگونی دیوی سے بے پناہ انسیت تھی،باپ نے دوسرے بیا ہ کے لیے بہت کہا مگر مان جھی ماسوائے فگونی دیوی ،کسی دوسری کنیارتَن کا نام سننے کو بھی تیار نہ تھا ۔ فگونی کی  موت دشراتھ کی محبت کے لیے برانگیختہ ثابت ہوئی۔فگونی دیوی کی سوگند کھا کر اس نے پہاڑ کو چنوتی دی کہ “جب تک تجھے کاٹ نہیں لیتا،چین سے نہ بیٹھوں گا”۔ داشراتھ کو بھگوان سے کوئی گلہ نہ تھا،شکوہ تھا تو اس پہاڑسے،جس کی موجودگی نے اس کی محبت کی سانسیں چھین لیں تھیں۔ فگونی کی محبت نے اس کے مَن میں چراغاں کردیا تھا۔اس کی یاد میں اس نے راستہ بنانے کی ٹھان لی کہ آج کے بعد فگونی کی طرح کوئی اور نہیں مرے گا۔جمع پونجی کیا تھی،چرنی پرتین بکریاں کھڑی تھیں،بیج کر عہدِ قدیم کے اوزار یعنی ایک ہتھوڑا،کدال اور بسولی خرید لایا اور پہاڑ کاٹنے میں جُت گیا۔یہ سن 1960کی بات ہے۔ہر راہ چلتے نے دشراتھ کا ٹھٹھہ اڑایاکہ باؤلا ہوگیا ہے،چلا ہے پہاڑ کاٹنے۔

دشراتھ شاید ہمت ہار جاتا مگر فگونی دیوی کی محبت اس کے رگ و پے میں اتر کرحدت پہنچاتی رہی اور وہ تن ِتنہا،اسباب سے لاتعلق،موسموں کے تغیر سے بے نیاز،پہاڑ کا سینہ چاک کرنے میں لگا رہا۔بائیس برس کا آنکڑہ پورا ہواتو خلق نے دیکھا کہ دشراتھ نے تین سو ساٹھ فٹ لمبائی اور تیس فٹ چوڑائی میں پہاڑ کا سینہ چیرکرراستہ بنا دیا تھا۔یہ سن 1982کی بات ہے۔آج گلیور کو دشراتھ نگرکے نام سے جانا جاتا ہے اور دشراتھ کو سب بابا مان جھی کےنام سے یاد کرتے ہیں۔اب اس گاؤں میں ریل کا اسٹیشن بھی ہے اور پختہ سڑک بھی۔ راحت اندروی کا شعر کچھ یوں ہے۔

؎ یہ خاک زادے جو رہتے ہیں بے زبان پڑے

اشارہ کردیں تو سورج زمین پہ آن پڑے

 ہماری نئی حکومت کو بھی دشراتھ ایسےگمبھیر حالات کا سامنا ہے مگر کچھ بزرجمہر ایسے بھی ہیں جو مسلسل حکومت کا ٹھٹھہ اڑا رہے ہیں  ۔ ڈیمز کی تعمیر کے لیے چیف جسٹس ثاقب نثار نےفنڈ کیا قائم کیا،تنقید کے نشتر ہر جہت سے وارد ہوئے۔تنقید بجا بھی  ہےکہ یہ چیف جسٹس کے فرائض میں نہیں،اُن کایہ کام ہی نہیں،مگر کیا ہمیں ادراک ہے کہ ہم کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔حکومتیں ہی اگر ایسے کاموں کے لیے پہل کرنے سےگریزاں ہوں  تو پھر چیف جسٹس پر اعتراض کیوں؟وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس کے اقدامات کو ناصرف سراہابلکہ تائید کی اوراندرون و بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈیمز فنڈ میں چندہ جمع کرانے کی اپیل بھی کی ہے۔یار لوگ اسے دیوانے کی بڑ قرار دے رہےہیں۔شور ہے کہ چندے سے ڈیم نہیں بنتے،بجاارشاد! نہیں بنتے۔ دونوں ڈیمز کے لیے18سے 20ارب ڈالر کی خطیر رقم چندے سے جمع نہیں کی جاسکتی توپھر کیا کیا جائے،ہمارا طرزِ فکر کیا ہے؟ژولیدہ فکری،مایوسی اور محض آہ و زاری۔۔۔۔

دیامربھاشا ڈیم کے لیے کوئی ہماری  مدد کرنے کو تیارنہیں،ورلڈ بنک اور ایشین بنک کے انکار کے بعد ہمارے دوست ملک چین نے بھی اس معاملے میں اپنا ہاتھ نہیں پکڑایا ۔ ایسی کڑی شرائط رکھیں کہ حکومت نے معائدہ نہ کرنے میں ہی عافیت جانی ۔ وجہ کیا بتائی جاتی ہے کہ یہ ڈیم متنازع علاقے میں بنایا جارہاہے۔ بھارت کی تائید ضروری ہےمگر وہ ہماری تائید کیوں کرےگا!!ورلڈ بنک اور ایشین بنک کو قائل کرنے کے لیے گزشتہ حکومتوں نے کاغذوں کی حد تک بھی کوئی اقدامات نہیں کیے۔ہم چین کو بھی بات سمجھانے میں ناکام رہے۔

پانی کے مسئلے پر موجودہ وزیراعظم اپنے پیشرؤں سے زیادہ سنجیدہ نظر آتا ہے۔کیا ہم دشراتھ مان جھی کے طرزِ عمل اور طرزِ فکر سے کچھ گیان لینے کو تیار ہیں؟ سرِتسلیم خم ہے کہ صرف چندے سے یہ پہاڑ نہ کاٹا جائے گا،کوئی اور تدبیر بھی کرنا ہوگی،اس باب میں ماہرین کی آراء قابلِ غور ہیں۔مگر کیا آغاز بھی نہیں کیاجاسکتا۔پہلا قدم اٹھانے میں اتنا تردد کیوں؟چندہ قوم دے رہی ہے،اس پر اتنا واویلا کا ہے کو؟

حصہ
mm
فہد محمود صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں ،ایکسپریس ٹی وی میں بطو ر ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کام کررہے ہیں۔اسلامک انٹرنیشل یونیورسٹی سے میڈیا اینڈکمیونیکیشن میں ایم فل کررہے ہیں۔ ادب ،سیاست ،تاریخ اور بین الاقوامی حالات حاضرہ سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں