مضبوط اعصاب کی بیوی 

محترمہ بیگم کلُثوم نواز شریف29ماچ 1950کو خطہ لاہور میں مقیم ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئیں ۔جن کا انتقال مورخہ 11ستمبر 20118بروزمنگل ،بانیِّ پاکستان کی وفات کی تاریخ 11ستمبر کو ہوگیا۔’’انا للہِ وانا الیہ راجِعون ‘‘یہ رستمِ زماں گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔انہوں نے 1970میں پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹر کیا(ایکسپریس ٹریبیون نے 11ستمبر 2018 کی اشاعت میں تحریر کیا ہے کہ انہوں نے فلسفہ میں پی ایح ڈی بھی کیا ہوا تھا) اس حو الے سے انہوں نے اردو ادب سے بھی اپناشغف برقرار رکھا اور پاکستان کی قومی زبان کو ملحوظ خاطر رکھ کر اردو میں انہوں نے ایک پُر مغز مقالہ’’ رجب علی بیگ سرور ‘‘پر لکھا۔اس کے علاوہ وہ اردو ادب کی مخصوص محفلیں بھی وقتاً فوقتاً اٹینڈ کرتی رہی تھیں۔ان کا اردو ادب کا ذوق بھی قابلِ دید تھا۔پنجاب کی روائتی خاتون ہونے کے باوجو د وہ اردو سے بے حد شغف رکھتی تھیں۔بیگم صاحبہ بے حد مذہبی خاتون تھیں جو صوم و صلوۃ کی پابند تھیں۔ پاکستان کی سیاسی خوتین میں وہ سب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں ۔جو تین مرتبہ خاتونِ اول بھی رہیں مگر تکبُر نام کی شے ان کے قریب سے بھی نہیں گذری تھی۔وہ ن لیگ کے ہر کارکن سے بہت محبت کرتی تھیں۔ان کے چار بچے ہیں مریم صفدر،حسن نوازشریف ، حسین نوازشریف اور اسماء نوازشریف۔ انہوں نے12ماہ کینسر کے خطرناک عارضے میں گذارے۔
بیگم صاحبہ پاکستان کی سیاست کا ایک اہم اور بڑا نام بن گئی تھیں(گو کہ انہوں نے سیاست مختصر مدت کے لئے کی۔ مگر اس میں بڑانام پیدا کیا) بیگم کُلثوم نواز ا یسے افراد کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔جو تاریخ میں اپنے آپ کو امر کر جاتے ہیں اور اپنے گرد کے ماحول پر انمٹ نقوش دنیا(اورسیاست کی دنیا پر) پر ثبت کر جاتے ہیں۔جن کی تعریف ان کے شدید ترین مخالفین بھی کئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔یہ خاتون محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رانا لیاقت علی خان،محترمہ بے نظیر بھٹو،اور بیگم نصرت بھٹو کی ہم پلہ خواتین کی صف میں شامل دکھائی دیتی ہیں۔اللہ مغفرت کرے ۔یہ بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں ۔جب 12،اکتوبر 1999کوپرویز مشرف نے پاکستان کا آئین توڑتے ہوئے اقتدار پر شب خون ایک جنرل کی وردی میں مارا تو پولیس نے بیگم کُلثوم نوازشریف کو بھی گرفتار کر لیا ، مگر انہیں ان کے گھر میں ہی نظر بند کر دیاگیا۔نواز شریف نے انہیں پاکستان مسلم لیگ کی صدر بنا دیا۔پرویز مشرف جیسے آئین شکن جنرل کی آمریت کے اعصاب شکن دورمیں وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند آمر کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر آگے بڑھتی رہیں ۔ان کے شوہر میاں محمد نواز شریف کو فوجی بوٹوں کے سائے تلے ایک جھوٹے مقدمے میں ہائی جیکنگ کے نام نہاد ڈرامے کے تحت گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا گیا۔یہ اس وقت ایک گھریلو خاتون کے طور پر اپنی پر سکون زندگی گذار رہی تھیں۔ مگر جب ایک آمر نے اس مشرقی خاتون کے سہاگ کو چھیڑا ،تو وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح چنگھاڑتی ہوئی اس آئین شکن جنرل کے مدِ مقابل آ کھڑی ہوئیں۔اب اس کمانڈو کا مقابلہ ایک نہتی خاتون سے تھا ۔بیگم صاحبہ نے مارشل لاء کے نفاذ سے لے کر دسمبر 2000میں شریف خاندان کی جلا وطنی تک سیاسی محاذ پر سخت جدوجہد کر کے مسلم لیگ ن کو زندہ و جاوید اور متحرک رکھا۔وہ اپنے خاندان کی اکیلی فرد تھیں جنہون نے اپنے شوہر اور بچوں کی رہائی کے لئے مہم چلائی۔آمر کے اس کربناک دور میں وہ واحد خاتون تھیں جو مشرف کے مدِ مقابل کھڑی رہیں اور سخت مزاحمت کر رہی تھیں۔ان کے علاوہ دوسرے سیاسی لوگوں نے اپنے لئے سیف ہیون تلاش کر لیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کمانڈو اس خاتون سے بے حد خوف کے عالم میں تھا۔
جب 2000میں بیگم کُلثوم نواز نے ایک پبلک ریلی لاہور سے پیشاور تک ن لیگ کے کاکنو ں کی نکالی۔تو انہیں جاتی امرء سے نکلتے ہی گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی ۔پولیس کے گھیرے میں وہ اپنی گاڑی کے دروازے لاک کر کے گھنٹوں بیٹھی رہیں۔ تو ایک کرین کے ذریعے ان کی گاڑی کواُٹھا لیا گیا۔جس کا ساری دنیا میں خوب چر چا بھی ہوا۔جب سُپریم کورٹ کے حکُم پر نوازشریف کو تاحیات نا اہل کیا گیا۔ تو بیگم کلثوم نوز ایک مرتبہ پھر سیاست کے میدان میں اپنی خطر ناک بیماری کے باوجود نمودار ہوئیں اور نواز شریف کی خالی کی گئی حلقہ120کی نشست پر بہت سوں کے جتن کے باوجود کلثوم نواز نے ستمبر 2017کا انتخاب ملک سے باہر رہتے ہوئے بیماری کی حالت میں لڑا۔تنہا مریم نواز کی چلائی گئی مہم پروہ کامیاب ہوئیں۔جس پروہ اپنی بیماری کی وجہ سے غیر حاضر رہتے ہوئے بھی کامیاب ہوئیں اور کلثوم نواز کی اس کامیابی نے بڑے بڑوں کے منہ پر کالک مل دی۔
بعض لوگوں نے محترمہ کلثوم نواز کی بیماری کا کھل کر مذاق اڑیا۔ان میں دو میڈیا میں گھس بیٹھیوں کے علاوہ ایک بڑی فہرست ہے جو اپنے مصنوعی چہروں سے مسلسل ا ن کا مذاق اڑاتے رہے تھے۔ان کے علاوہ چوہدری اعتزازاحسن جیسے سنجیدہ سیاسی لوگ بھی اس فعلِ قبیع میں برابر کے شریک تھے۔قمر زمان کا ئرہ بھی اس ہتک آمیزی میں پیچھے نہ رہے۔ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے زیادہ تر رہنما وزیر اعظم عمران احمد نیازی سمیت بیگم صاحبہ کا بیماری کے حوالے سے مذاق بناتے رہے تھے۔مگر آج ان سب نے دیکھ لیا کہ وہ حقیقتاً کینسر جیسے خطر ناک عارضے میں نہایت تکلیف دہ ماحول میں ایک سال بیماری کی اذیت میں مبتلا رہنے کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ مضبوط اعصاب کی خان تھیں اس کے علاوہ پاکستان کی سیاست کا بھی بڑا نام تھیں ۔

جواب چھوڑ دیں