” ماڈلنگ سے حجاب تک کا سفر “

ایک عالمی تحقیقی رپورٹ کے مطابق چند ہی عرصے بعد اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔یہی وجہ ہے جہاں مغربی تہذیب آئے دن نت نئے طریقوں سے مسلم نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار کر رہی ہے وہاں خصوصاً یورپ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ لوگ اپنی چال چلتے ہیں اور اللہ اپنی چال چلتا ہے اور بے شک اس سے بہتر کوئی اور چال نہیں چل سکتا۔ حالیہ دنوں میں پورا مغربی میڈیا اس وقت حیرانی کا شکار ہوا جب سابقہ امریکی ماڈل “سارہ بوکر” نے اسلام قبول کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا، مجھے تو “سارہ” کی زندگی اقبال کے اس شعر کی مانند معلوم ہوتی ہے

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
اس تحریر کو لکھنے کا بنیادی مقصد “سارہ” کی زندگی میں آنے والے انقلاب کو بیان کرنا ہے تاکہ مجھ سمیت تمام لوگ اپنی اسلامی روایات اور اقدار پر فخر محسوس کریں اور استقامت کے ساتھ اپنے پیارے رب کے عطاء کردہ احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزاریں۔
میں نے امریکہ میں مقیم ایک عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی نوجوانی سے ہی میں آزاد خیال تھی، اپنے رب کی نافرمان تھی۔اس آزاد خیالی کا رجحان رکھنے کی بدولت میں نے گھر چھوڑ کر ساحل کے قریب رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ابتدائی دنوں میں میں نے ایک فیٹنس کلب میں بطورِ ہیلتھ انسٹرکٹر اپنی خدمات انجام دیں، مگر مجھے کسی اور چیز کی تلاش تھی۔ میں مغربی تہذیب سے وابستہ ہر لڑکی کی طرح وہ ساری خصوصیات اپنی شخصیت کا حصہ بنانا چاہتی تھی جس سے مردوں کا دل میری طرف مائل ہو، ہر کوئی میری خوش لباسی اور خوبصورتی کے گن گاتا پھرے، ہر طرف میرے حسن کے چرچے ہوں۔اسی گلیمر کی تلاش مجھے ماڈلنگ اور ایکٹنگ کے اس غلیظ بازار میں لے آئی جہاں عورت کا اصلی مقام و مرتبہ اس سے چھین کر اسے کھلونے کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد میں نے ماڈلنگ سمیت ادکاری کی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ میں وہ ساری چیزیں حاصل کرچکی تھی جس کے میں نے خواب دیکھے تھے۔خوبصورتی، حسن ،شہرت اور مال و دولت ہونے کے باوجود میرا دل بے سکون تھا، مجھے سکون کی تلاش تھی، سکون کو حاصل کرنے کے لئے میں نے سکون بخش ادویات کا استعمال شروع کردیا، میں نشہ کرنے لگی، مگر ان ساری چیزوں سے سے مجھے صرف چند لمحوں کا جسمانی سکون حاصل ہوتا تھا، میری روح بے چین رہتی تھی، مجھے روح کی غذا کی تلاش تھی، میں جان چکی تھی آنکھوں کو چمکا دینے والی اس دنیا کی رنگینیوں میں روح کی غذا نہیں ہے۔پھر میں نے اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا ارادہ کیا جس کے بارے میں میں نے سن رکھا تھا کے اس کتاب پر ایمان لانے والے لوگ عورتوں پر بڑا ظلم کرتے ہیں ان کو خیموں میں قید رکھتے ہیں۔ بالاخر میں نے اس “قرآنِ مجید” کا بغور مطالعہ کرنا شروع کردیا۔
قرآن کو پڑھنے کے بعد آہستہ آہستہ مجھے وہ سکونِ قلب میسر آ گیا جس کی میں سالوں سے متلاشی تھی، بے شک دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر سے ہی حاصل ہوتا ہے مجھے ایسا لگا جیسے اس کتاب نے میری دکھتی نبض پر ہاتھ رکھا ہے، میرے سارے غم دور ہوتے چلے گئے، میں نے اپنی سابقہ زندگی سے توبہ کی اور اسلام کو بطورِ دین قبول کرلیا۔
اسلام قبول کرنے کے بعد جب میں حجاب پہن کر سڑک پر نکلی تو میں نے زندگی میں پہلی بار اپنے آپ کو محترم اور محفوظ محسوس کیا، مجھے وہ وقت بھی یاد آیا جب میں ساحل اور سڑک پر آدھے کپڑے پہن کر گھوما کرتی تھی اور نہ جانے کتنی غلیظ نگاہیں مجھے دیکھا کرتی تھیں۔
مگر آج میں “سارہ بوکر” اپنے آپ کو اس حجاب میں عزت دار محسوس کرتی ہوں میں اپنے پیارے رب کی بھی شکر گزار ہوں جس نے مجھے توفیق بخشی اور مجھے برائی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر روشنی کی راہ پر گامزن کردیا۔
میں اب امریکہ میں رہتے ہوئے حجاب پر پابندی کے خلاف آواز بلند کرتی ہوں اور ہر صورت مسلمان عورتوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔میں پوری امتِ مسلمہ کی خواتین اور بالخصوص نوجوان لڑکیوں سے گزارش کرتی ہوں کے وہ مغرب کی طرف سے کیے گئے پرو پیگنڈے کا کسی صورت شکار نہ ہوں اور اسلامی اقدار اور احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حجاب کے استعمال کو اپنے اوپر لازم کرلیں کیونکہ حجاب ہی عورت کی آزادی کا نشان ہے اور اسی میں عورت کی عظمت ہے۔۔۔!

حصہ

جواب چھوڑ دیں