’’تین راستے‘‘

ٓٓٓٓٓکیا یہ معمہ کوہ ہمالیہ تھا جوحکومت کے لیے بھاری چٹان بنا رہا ؟ فرد واحد کی حمایت کر کے 22 کروڑ پاکستانیوں کے جذبات کو حکومتی سطح پہ مجروح کیا گیا۔ اورعوام کی دینی حمیت کا امتحان لیا گیا ۔تا کہ اس سے مستقبل کے گھناؤنے پلان تیار کیے جا سکیں ۔عاطف میاں کو اقتصادی کمیٹی کا رکن بنا کر ہر محاذ پہ جس طرح کی دلیلیں گھڑی گئیں ان میں مصنوعی پہلو غالب تھا ۔ عوام پہ ان دلیلوں کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔سماج نے ثابت کیا کہ وہ کسی طرح بھی ملک وآئین کے دشمن کو قبول نہیں کریں گے۔بھوک پیاس سے لڑ لیں گے، مگر وطن کے نظریات کا سودا انہیں کسی طور قبول نہیں ۔مسلہ ختم نبوت پہ مسلک ، عقائدسے بالا تر ہو کر جس طرح کا عوامی رد عمل سامنے آیا ہے، اس سے حکومت کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ قادیانی لابی کو عوام برداشت نہیں کریں گے۔چہ جائے کہ انہیں کسی اہم ملکی عہدے پہ فائز کیا جائے ۔عاطف میاں کی تقرری کا دفاع کسی طور سمجھ میں نہیں آیا۔شبہ ہوتا ہے کہ کیا تنازعات کی راہ ہموار کی جارہی ہے؟ کیا حکومت کے سینئر اورقابل ترین وزرا ء کو یر غمال بنا لیا گیاہے ؟ ان پہ نادیدہ قوتوں کا ایسا دباؤ ہے کہ وہ کسی بھی پیش خیمہ کا ادراک نہیں رکھ پا رہے۔ حکومت عوامی بحران کی متحمل ہونے جا رہی ہے ۔چاہیے کہ ملکی ایشوز پہ حکومت پہلے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ضرروی سمجھے۔کسی بھول میں رہے بغیر یہ بات یاد رہے کہ عوامی ردعمل کاسیلاب آیا تو تحریک انصاف اپنا وجود کھو بیٹھے گی۔
مورخہ 6 ستمبر ملک کے نظریاتی محافظ اخبار میں قادیانی جماعت کا اشتہار شائع ہونا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے مذہبی اساسی نظریہ کو باربار نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔یک بار کئی پلیٹ فارم استعمال کیے جارہے ہیں۔تین مشہور اخبارقادیانی لابی کا دفاع کرنے پہ سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔ نامور لکھاری انہیں ملک کا خیر خواہ بتا کرمسلمانوں کے ذہنوں میں طوفان بپا کرتے ہیں ۔اشتہار لگانے میں دن کا انتخاب بھی ایسا رکھا جاتا ہے کہ پیغام ہر جگہ پہنچنے کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔اتنی جرات تو گزشتہ حکومتوں کے دور میں کسی کو نہ ہوئی تھی کہ آئین کامنکر کھلاسانڈھ بن جائے،اور اسے لگام دینے والے نہ ہوں ۔ ابھی جب حکومت اپنی ابتدائی پالیسی کے سو دن پورے کرنے میں مصروف ہے ،بجائے کسی غیر آئینی غیر قانونی محاذ کھولنے کے،حکومت کو چاہیے کہ اپنے اہداف کو سامنے رکھے۔ ملکی و عالمی سطح پہ تحریک انصاف کا ایجنڈا کھلی کتاب ہے۔تحریک انصاف کو حالیہ الیکشن میں جو ووٹ پڑا ہے ،اس میں مذہبی حلقوں کی ایک کثیر تعداد ہے ۔جو اپنی جماعتوں سے کسی حد تک نالاں تھے ۔عمران خان میں انہیں دیدہ وری نظر آئی تھی ۔یقین ہو چلا تھا کہ نیے وزیر اعظم صاحب ملک کا ہر پلیٹ فارم پہ دفاع کریں گے۔ہالینڈ میں خاکوں کی اشاعت کا پروگرام بنا تو ایوانوں سے اٹھنے والی آواز سے مذہبی حلقوں سے بے حد پذیرائی دیکھنے میں آئی ۔لیکن جناب وزیر اعظم صاحب کھڈے سے بچتے کہ کنویں میں گر نے گئے ۔آئین کی بالا دستی کی باتیں کرتے کرتے منحرف قانون کا دفاع شروع کردیا گیا ۔عاطف میاں کے مسلے کو حل تو کر لیا گیااور اس سے اقتصادی کونسل کمیٹی کی رکنیت واپس لے لی گئی ہے ۔مگر اس تنازع کو عوام و حکومت کے درمیان آخری کیل جاننا چاہیے۔کیوں کہ عوامی سطح پہ بار بار حکومت کو چانس نہیں ملے گا ۔
قادیانی لابی جن سوراخوں سے منھ نکال کر مسئلہ ختم نبوت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے ،اسے ہر جگہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے محافظ سپاہیوں سے واسطہ پڑے گا۔پہلے صرف ختم نبوت کامسلۂ تھا، اب معاملہ دہرا ہے۔یعنی پاکستان کی سالمیت بھی اس سے مشروط ہو چکی ہے۔کیوں کہ پاکستان کی بنیادیں دین سے جڑی ہیں۔ اسلام کی حفاظت کے لیے بلا تفریق یہاں تمام مسالک یک جان دو قالب ہیں ۔اگر ختم نبوت کامنکر اس حربے پہ عمل پیرا ہے کہ یہاں ختم نبوت پہ مذہبی جماعتوں کابٹوارا کرادیا جائے تو ایسے کند ذہنوں کو ماہر طبیب کی ضرورت ہے۔کیوں کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کا اجماعی عقیدہ اور دین کی ضروریات میں شمار ہوتا ہے۔عہد نبوی سے لے کر آج تک ہر مسلمان یہ ایمان رکھتا آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔اس بات پہ کامل ایمان ہے کہ نبوت کا در بند ہوچکا ہے اور ختم نبوت کی نعمت اللہ پاک نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم مسلمانوں کو عطا کی ہے ۔وطن عزیز میں دین وملک دشمن سازشیں پنپنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔اورا نہیں اعلیٰ سطح پہ مکمل سپوٹ کیا جا رہا ہے ۔شرکی فضا پیدا کرکے تین راستے نکالے جارہے ہیں۔پہلاراستہ جو براہ راست قادیانی لابی کوملک کے اعلیٰ عہدوں پہ لے جائے۔دوسرا ،قادیانیوں کو کھویامقام مل جائے،تیسرا ،یہ ختم نبوت پہ کھلے عام وار کریں تو ان کی پکڑ نہ ہو اور یہ اپنی من مانیاں کرتے پھریں ۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں