غیر سرکاری تنظیموں سے گزارش

سرکار کے ہوتے ہوئے غیر سرکاری تنظیم بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟کیا سرکار نے بوجھ بانٹنے کیلئے ایسی تنظیمیں بنائیں یا پھر اپنے عیش و آرام سے بھرپور لطف اندوز ہونے کیلئے ایسی تنظیموں کی تشکیل کی؟ تحقیق سے پتہ چلا کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر سن ۱۹۴۵ میں جب دنیا کو ایک مرکزی تنظیم اقوام متحدہ کی صورت میں ملی ۔ اقوام متحدہ نے غیرسرکاری تنظیموں کی داغ بیل ڈالی تاکہ دنیا میں انسانیت کی خدمت کیلئے کسی سیاسی و مذہبی وابستگی کو خارج از امکان قراردیا جاسکے۔ دنیا کے تمام ممالک میں غیر سرکاری تنظیمیں کام کر رہی ہیں کہیں بہت زیادہ ہیں اور کہیں کم ۔ان کا بنیادی مقصدشہری آبادی سے دور افتادہ علاقوں میں رہنے والی عوام کو بدلتی ہوئی دنیا سے ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کرناہے۔ کوئی تعلیم کو پھیلانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے اور دنیا سے جہالت ختم کرنا چاہتا ہے، کوئی دنیا سے مختلف بیماریوں سے نمٹنے کیلئے اپنی خدمات پیش کررہا ہے انکے ساتھ کچھ ضرورت مندوں کو دواؤں کی دستیابی کیلئے بر سر پیکار ہیں ،بھوک ختم نہیں کی جاسکتی لیکن اس کو کم کرنے کیلئے بے تحاشہ تنظیمیں صبح و شام کھانے کھلا رہی ہیں، مستحق لڑکیوں کی شادیوں کا بندوبست بھی کیا جا رہا ہے ، بہت ساری تنظیمیں قانونی معاونت بھی فراہم کررہی ہیں غرض یہ کہ جس نوعیت کا مسلۂ درپیش ہے اس کے حل کیلئے غیر سرکاری تنظیمیں موجود ہیں۔ اسی طرح سے مذہبی ادارے بھی اسی طرح کی سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں۔ دنیا کی نامی گرامی شخصیات بھی ایسی تنظیموں کے ذریعے دنیا کی بھلائی کیلئے اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔
مسائل ہیں کے کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے روزانہ کی بنیاد پر بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں جبکہ وسائل لگتا ہے کہ محدود سے محدود ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ تمام تر توجہ کا مرکز غیر معروف دور افتادہ اور ملک کے نواحی علاقوں پر دی جارہی ہے جہاں تک رسائی مخصوص نقل و حمل سے ہی ممکن ہے ۔ ہم کراچی شہر کی بات کرلیتے ہیں جہاں سرکارکی مہیا کردہ تمام سہولیات موجود تو ہیں لیکن ان سہولیات کی حالت دیکھ کراپنی قومی بے حسی کا شدت سے احساس ہوتا ہے، صرف لوگوں کو بیچارا کہہ کر ہی خاموش ہوجاتے ہیں۔ دراصل ہر فرد کا یہ خیال ہے کہ میرا کام ہوگیا اب اس چیز کی ضرورت کسی کو نہیں پڑنے والی اس لئے جیسے چاہو اسے استعمال کرو۔ عباسی شہید ہسپتال کراچی کے سرکاری ہسپتالوں میں سے ایک ہے گزشتہ دنوں وہا ں ایک عزیز کی عیادت کیلئے جانا پڑا عمارت تو بہت اچھی حالت میں موجود ہے لیکن دیواروں پر جگہ جگہ پان و گٹکے کی پچکاری کے نقش و نگار ہیں ، کھڑکیا ں اور دروازے کچھ دنوں کے بعد شائد نا ہوں اور سب سے بڑھ کر استنجا خانہ(باتھ روم) جہاں شائد ہی کسی دروازے میں کنڈی لگی ہے ، پانی موجود ہے لیکن تمام نلکے تقریباً ٹوٹے ہوئے ہیں اور پانی کی بربادی کا سبب بنے ہوئے ہیں اور انتہائی گندی حالت میں ہیں جبکہ استنجا خانہ(باتھ روم)وارڈ کے اندر ہی ہیں اور یہاں تو بس نا ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ ایسی جگہوں پر کام کرنے والے لوگ شائد آمدنی میں اضافے کیلئے ایک سے زیادہ جگہوں پر کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے کام پوری توجہ اور دھیان سے نہیں کیا جاتا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبان اور پیرا میڈیکل اسٹاف سوائے اپنی محدود ذمہ داریوں کے صفائی ستھرائی پر قطعی دھیان نہیں دیتے یا شائد انکے کمرے یا بیٹھنے کی جگہیں اور استنجا خانہ(باتھ روم)خاص طور سے صاف کئے جاتے ہونگے جسکی وجہ سے وہ مریضوں کے استعمال کی جگہوں اور استنجا خانہ(باتھ روم) پر کوئی دھیان نہیں دیتے۔بنیادی مقصد تو یہ ہے کہ ہرفرد اپنے ذمے کا کام تندہی اور ایمانداری سے کرنا شروع کردے۔ نجی ہسپتالوں میں منتظمین کا عملہ کہیں نا کہیں دیکھائی دے جاتا ہے لیکن سرکاری ہسپتالوں میں سوائے انتظامیہ کے باقی سب کچھ دیکھا جاسکتا ہے۔
اپنی سی کوشش کی جوکہ نا کافی رہی کہ یہ معلوم کرسکیں کہ پاکستان میں کتنی غیر سرکاری تنظیمیں عملی طور پر برسر عمل ہیں ۔ اتنا تو یقین ہے کہ بہت ساری غیر سرکاری تنظیمیں ملک کے دور دراز علاقوں میں جہاں زندگی، زندگی گزارنے والوں پر بوجھ کی مانند ہے کچھ نا کچھ آسانیاں پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ کچھ تو ایسی بہت بڑی بڑی تنظیمیں ہیں جو واقعی کام کرتی دیکھائی دے رہی ہیں اور انکا کام عملی طور پر معاشرے میں دیکھائی دے رہا ہے ۔ یہ تمام غیر سرکاری تنظیمیں اور ان سے وابستہ لوگ بھی ملک کو بہتر بنانے کے خواہ ہیں ۔اب جبکہ پاکستان میں بدلاؤ لانے کی جدوجہد جارہی ہے اور اس کوشش کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے اپنے ذمے کوئی اپنی اہلیت کے حوالے سے کام بانٹ لیں۔
محدود وسائل کہ باعث حکومت ہنگامی بنیادوں پر بھی حالات پرجلدی قابو نہیں پا سکتی ، لیکن ان غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے کچھ مشکلات پر بہت جلدی قابو پایا جاسکتا ہے جیساکہ ہسپتالوں ، تقل و حمل کے اڈوں اور اسکولوں کے انتظامی امور ۔یہ تنظیمیں اتنی منظم ہیں کہ بغیر کسی قسم کی سرکاری امداد کے عملے اورماحولیاتی آلودگی کی درستگی کے امور سدھارنے میں قلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ خصوصی طور پر پاکستان کے تمام ہسپتالوں میں چھ ماہ کیلئے ہنگامی صورتحال کا اعلان کردے اور چھ ماہ کیلئے ان غیر سرکاری تنظیموں کیساتھ تحریری معاہدے طے کرلے ، انکے ساتھ بیٹھ کر وہ بنیادی مسائل جو محدود مالی اخراجات کے سدھارے جاسکتے ہیں ، سدھارنے کا ہدف دے دیا جائے اور جہاں کہیں سرکاری اعانت کی ضرورت ہو فراہم کی جائے۔ اسی طرح کی اعانت ان غیر سرکاری تنظیموں سے اور دیگر معاملات نمٹانے کیلئے بھی لی جاسکتی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں اگر واقعی افراد کی بھلائی چاہتی ہیں تو پاکستان کی بھلائی بھی چاہتی ہونگی اب وقت ہے کہ پاکستان ہم سے ہماری تھوڑی سی خصوصی توجہ مانگ رہا ہے ۔ قدم ملانے کا وقت ہے۔
مختلف ادوار میں وقت پڑنے پر لوگ بطور رضاکار اپنی خدمات پیش کرتے رہے ہیں آج بھی حکومت کو چاہئے کہ ایک رضاکاروں کی اندراج (رجسٹریشن) کا سسٹم ترتیب دے (ڈیٹا بیس) جہاں وہ تمام لوگ جو اپنی مہارت کی بنا پر کسی ادارے میں ذمہ داریاں نباہ کر ریٹائرد زندگی گزار رہے ہیں ملک کو اپنی ہر ممکن خدمات حذبِ ضرورت پیش کریں اور تبدیلی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں۔ ہم نے اب تک کی ساری زندگی اپنے لئے بھاگ دوڑ میں گزاری ہے آج پاکستان ہم سے ہمارا تھوڑا سا ساتھ مانگ رہا ہے کیا ہم یہ ساتھ نہیں دے سکتے؟

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں