مکافات عمل

1985 میں جنرل ضیاء الحق نے ایک نئی حکومت کی بنیاد رکھی ۔ اس حکومت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو بنائے گئے ۔ جب کہ جنرل ضیاء الحق کے ” منہ بولے بیٹے ” میاں محمد نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلی کے روپ میں سامنے آئے ۔ تاریخ میں میاں نواز شریف کی ” سیاسی جدوجہد ” کی تاریخ اتنی ہی ہے کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے گملے کی پیداوار ہیں ۔1988 میں بالآخر جنرل ضیاء الحق اللہ کو پیارے ہوگئے اور مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ فدا محمد خان  نے مسلم لیگ (ف) کی اور جونیجو نے مسلم لیگ ( ج ) کی بنیاد ڈالی ۔

اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ” اسلام پسند” آٹھ جماعتوں کا اتحاد وجود میں آیا لیکن کیوں کہ انکا اسلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا اس لیے جلد ہی ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے ۔ 1993 میں میاں نواز شریف نے مسلم لیگ ( ن ) کی بنیاد رکھی اور اس کے باقاعدہ صدر بن گئے ۔ یہاں سے میاں نواز شریف کے اقتدار کی کہانی شروع ہوئی ۔3 فروری 1997 کو انتخابات ہوئے ۔اپنی ہی بہن کے دور حکومت میں مارے جانے والے مرتضی بھٹو کی موت کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۔میاں صاحب ملک کے بارھویں وزیراعظم منتخب ہوگئے ۔

میاں نواز شریف کی ” بدمعاشی ” کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے ذاتی پرخاش کی بنا پر نومبر 1997 میں اپنے کارکنان اور رہنماؤں کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ پر حملہ کردیا ، ججز بمشکل اپنی جانیں بچا کر پچھلے دروازوں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے ۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کا تکبر اور غرور اپنے عروج پر تھا ۔ وہ شاید اس غلط فہمی میں تھے کہ یہ کمزور سا ” اقتدار ” قیامت کی شام تک انھی کے پاس رہیگا ۔

1999 کو اٹل بہاری واجپائی کو باقاعدہ پاکستان آنے کی دعوت دی گئی ۔ جماعت اسلامی نے 20 فروری 1999 کو لاہور میں مظاہرے کا اعلان کردیا ۔ میاں نواز شریف کی ” تربیت یافتہ ” پولیس نے وحشت کی وہ داستانیں رقم کیں کہ ہندوستانی فوج بھی کشمیر میں شرماگئی ہوگی ۔ لاہور کی سڑکوں پر بزرگ ترین لوگوں پر بدترین لاٹھی چارج کیا گیا ۔ اس دن اتنی آنسو گیس استعمال کی گئی کہ کئی درختوں میں آگ لگ گئی ۔ جماعت اسلامی کے دفتر میں آنسو گیس کے شیل پھینک دئیے گئے ۔ 12 سال  کے کم عمر بچوں تک کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور 1500 سے زیادہ کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا ۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

12 اکتوبر 1999 کو نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ۔ میاں صاحب لانڈھی جیل کراچی منتقل کردئیے گئے ۔ان تنہائی کے لمحات میں شاید کہیں کسی ” احساس گناہ ” نے ان کو ملامت کیا اور انھوں نے قاضی حسین احمد مرحوم  سے خط لکھ کر معافی مانگی اور اپنی حرکتوں پر ” شرمساری ” کا بھی اظہار کیا ۔اللہ تعالی نے 2013 میں ایک دفعہ پھر میاں صاحبان کو موقع دے دیا ۔ لیکن اقتدار ایسی چیز ہے کہ بڑوں بڑوں کے ایمان اور ہوش و حواس گم کردیتا ہے ۔

17 جون 2014 کو ایک دفعہ پھر میاں شہباز شریف کے ” بہادر جوانوں ” نے عوامی تحریک کے دفتر واقع ماڈل  ٹاؤن میں 14 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ بدترین تشدد کی مثال قائم کرتے ہوئے 100 سے زیادہ لوگوں کو زخمی کیا ۔ شریف اور باپردہ مرد و خواتین کے گھروں کی چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے گھروں میں گھس کر خواتین کو ہراساں کیا اور مردوں کو مارتے پیٹتے گرفتار کیا ۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے :

” یہ دنوں کے ہیر پھیر ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان کرتے ہیں ” حضرت علی نے فرمایا ” کفر کا معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے مگر ظلم کا معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا ” ۔ آج پھر حالات 360 ڈگری پر گھوم گئے ہیں ۔ آج بڑے میاں صاحب اپنی بیٹی ، داماد کے ساتھ ٹھیک اسی طرح جیل میں پڑے ہیں جس طرح کل انھوں نے بے گناہ لوگوں کو آنے والے حالات سے بے خبر ہوکر جیلوں میں ڈالا تھا ۔ آج ٹھیک اسی طرح میاں صاحب بکتر بند گاڑی میں ” قید ” کر کے احتساب عدالت لائے جاتے ہیں ، ڈھائی ڈھائی گھنٹے بٹھائے جاتے ہیں جیسے انھوں نے لوگوں کو ذلیل و رسوا کیا تھا ۔

13 جولائی کووہی پنجاب پولیس تھی اور وہی شہباز شریف لیکن آج شہباز شریف اپنی ہی بنائی گئی پولیس کے سامنے بے بس تھے اور اگلے ہی دن دوبارہ تڑیاں لگارہے تھے ۔ آج آپ کو جیل کا باتھ روم بھی ” گندہ ” لگتا ہے  اور بستر بھی آلودہ ۔ میاں صاحب اس کو مکافات عمل کہتے ہیں ۔ آپ نے جو کچھ اور جتنا کچھ اقتدار کے نشے میں دھت ہوکر کیا تھا وہ سب کا سب ایک ایک کر کے سود سمیت آپ کے سامنے آئیگا ۔ شاید یہ سارا نہ بھی آئے کیونکہ اللہ تعالی نے آخرت کا دن بھی رکھا ہے ۔وہیں پر سب کچھ ہونا ہے لیکن آثار یہیں سے نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔

سید ابولاعلی مودودی نےکہا تھا کہ ” گناہ بانجھ نہیں ہوتے ہیں یہ بچے دیتے رہتے ہیں ” ۔ اس لیے خدا سے توبہ کیجیے کیونکہ اب آپ کے گناہ بھی ” صاحب اولاد ” ہوتے جارہے ہیں ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں