چھ ستمبر۔۔۔ جرأت و بسالت کی داستانیں

تکبر، ظلم اور مکر ۔۔۔ اللہ تعالی کو یہ تینوں سخت ناپسند ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا پڑوسی دشمن ان تینوں بیماریوں کا بُری طرح شکار ہے۔ خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لیے دوسروں کے حق پر ڈاکہ مارنے سمیت ہر ظلم روا رکھتا ہے۔ مسلمانانِ برصغیر کا امن و سکون سے رہنا اس کی نظروں میں ازل سے کھٹکتا ہے۔ چانکیہ کے نام لیوا منہ میں رام رام جپتے ہوئے اچانک پیٹھ میں چھری گھونپ دیتے ہیں۔ وطنِ عزیز کے قیام کے ساتھ ہی اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور اِس ہندو قوم نے سازشیں شروع کر دیں۔ حیدر آباد دکن، جونا گڑھ ، مناوادر کی ریاستوں پر زبردستی قبضہ ہو یا مہاراجہ کشمیر سے ساز باز ہر موقع پر مسلمانوں کو زِک پہنچائی۔ 1965ء کی جنگ بھی اسی سازش کی ایک کڑی تھی۔ 6ستمبر کی ایک رات چوروں کی طرح پاکستانی حدود میں داخل ہوئے اور ڈنر جم خانہ لاہور میں کرنے کا اعلان کر دیا۔ اللہ تعالی کو ان کا یہ تکبر پسند نہیں آیا۔ اس منتقم ذات نے کمزور قوم کے ہاتھوں اس مست ہاتھی کی شکست لکھ دی۔ صرف 14 میل کا فاصلہ پُل صراط بن گیا جسے طے کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ بی آر بی اور بیدیاں ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ گئے۔ بالآخر سترہ دن کی مرمت کے بعد خفت اٹھائی اور گھر واپس لوٹ گیا۔
انڈیا کا خیال تھا ، پاکستان فی الحال ایک نوزائیدہ ریاست ہے۔ قوت، طاقت ، دفاع اور سازو سامان کی کمی کے باعث اسے دو چار دن میں زیر کر لیا جائے گا۔ لیکن سیالکوٹ کا محض 6میل کا فاصلہ لوہے کا وہ چنا ثابت ہوا جسے اُگلے بغیر کوئی چارہ نہ رہا۔ انڈین پالیسی سازوں نے جنگی نقشہ یوں تیار کیا کہ وسط میں لاہور ، شمال میں ’’جسٹر‘‘ اور جنوب میں ’’قصور‘‘ پر حملہ کیا گیا۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کی زیرنگرانی پچیسویں ڈویژن ٹینکوں اور توپ خانے سمیت لاہور کی جانب روانہ کر دی گئی۔ جہاں پاکستان کی محض 7 بٹالین فوج تعینات تھی۔ یہ محاذ 50میل لمبا تھا۔ دشمن پوری طاقت خرچ کر کے بھی صرف تین میل پیش قدمی کر سکا۔ پاک فوج نے بی آر بی نہر کو دفاعی لائن تصور کیا اور ایک جوان نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اس نہر کا پُل اُڑا دیا۔ ڈائنا میٹ نصب کرتے وقت گولے اس نوجوان کے آس پاس سے گزر رہے تھے۔
وار خالی جاتے دیکھ کر دشمن نے محاذ کو وسعت دینا شروع کر دی تاکہ پاک فوج کو مختلف مقامات پر الجھا کر اپنا اُلّو سیدھا کر لیا جائے۔ برکی، باٹا پور، بھینی اور چونڈہ غرض ڈیڑھ ہزار میل لمبی سرحدکی بساط پر جنگ پھیلا دی۔لیکن دشمن یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کس قوم سے الجھ رہا ہے؟ یہ تو ایسی قوم ہے جو تین سو تیرہ ہو کر ہزاروں کے مقابلے میں ڈٹ جایا کرتی ہے۔ اس قوم میں عزیز بھٹی، اصغر خان، نورخان، سرفراز رفیقی، منیرالدین، علاؤالدین، ایس ایم حسین، ایم ایم عالم، سجاد حیدر، ابرار حسین اور حمید گل جیسے شہباز موجود ہیں۔ جو محض لہو گرم رکھنے کے لیے جھپٹتے، پلٹتے اورپلٹ کر جھپٹتے ہیں۔ جن کے سینوں میں ایمان کی طاقت اور ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے۔ اس قوم کی مائیں پیٹھ پر گولی کھانے والوں کو اپنا دودھ تک نہیں بخشتیں۔جن کی بہنیں اپنے ہاتھوں سے کفن تیار کر کے بھائیوں کے کاندھوں پہ رکھ دیتی ہیں۔ جنہیں اپنے وطن کی مٹی کی حرمت جان سے بڑھ کر ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو گھاس کھا لیتی ہے لیکن قرآنی حکم واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ پر عمل ضرور کرتی ہے۔ وطن سے محبت اس قوم کی نس نس میں رچی ہے۔ اسے زیر کرنے والا ابھی تک کوئی مائی کا لعل پیدا نہیں ہوا۔
چھوٹے چھوٹے محاذوں پر ہوتی شکست دیکھ کر دشمن نے بڑی گیم کھیلنا شروع کر دی۔ چونڈہ کے محاذ پر 500ٹینک اور پچاس ہزار جوان لے آیا۔ مقابلے میں 125ٹینک اور نو ہزار جوان تھے۔ بظاہر یہ مقابلہ مضحکہ خیز تھا۔ لیکن پاک فوج کے جوانوں نے دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ جیتنے کا تمغہ اپنے نام کر لیا۔ اس محاذ پر دشمن کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی۔ میجر ابرار حسین کی زیرنگرانی ایک معرکے میں دشمن کی 2 بٹالین اور ایک آرمرڈ رجمنٹ کے صرف ایک سو پانچ سپاہی زندہ بچ سکے، جنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ پٹھان کوٹ کا ہوائی اڈہ مکمل تباہ کر دیا گیا۔ یہاں 12جنگی اور دو ٹرانسپورٹ طیارے ناکارہ کر دیے گئے۔ پاک فضائیہ نے وہ کارنامے سر انجام دیے جنہیں دنیا ایک معجزہ قرار دیتی ہے۔ مثلا ایم ایم عالم نے اپنے خستہ حال جہاز کے ذریعے چند منٹوں میں پانچ انڈین طیارے مار گرائے۔ سرفراز رفیقی نے دشمن کے علاقے میں گھس کر ان کا ہوائی اڈہ تباہ کر دیا۔ موضع نور کی چوکی صرف ایک بٹالین فوج نے اپنے قبضے میں کر لی۔ موناباؤ کا علاقہ صرف سترہ گولے فائر کر کے ہتھیا لیا گیا۔ کھیم کرن تک کا سولہ سو کلومیٹر کا علاقہ فتح کر لیا گیا۔ پاکستان نیوی کی محض ایک آبدوز ’’غازی‘‘ نے دشمن پر ہیبت طاری رکھی۔ انڈین قلعہ ’’دوارکا‘‘ کا ریڈار سسٹم پاکستان کے خلاف جاسوسی کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ نیز ایک جہاز ’’تلوار‘‘ ہمہ وقت اس کی حفاظت کر رہا تھا۔ لیکن نیوی کے جوانوں نے پی این ایس غازی کی مدد سے یہ سسٹم صرف بیس منٹ میں تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ ’’تلوار‘‘ جان بچانے کی غرض سے اس سارے قضیے سے لاتعلق کسی گوشے میں چھپا رہا۔انڈین جہاز ’’سرسوتی‘‘ کئی دن تک پاکستان نیوی کے قبضے میں رہا۔
اس جنگ میں دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ جنگ سترہ روز جاری رہی، انڈیا نے کل 13بڑے حملے کیے۔ پاکستان کے جوابی حملوں میں دشمن کے 35 طیارے مختلف مقابلوں میں اور 43 طیارے زمین پر تباہ کر دیے گئے۔ جبکہ 32طیارے توپوں کا نشانہ بنے۔ کل 110طیارے، 149ٹینک، 200بڑی گاڑیاں اور 20توپیں تباہ ہوئیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے صرف 19 طیارے کام آئے۔ یوں بھارتی کمانڈر انچیف جنرل چودھری کا جم خانہ کلب لاہور میں ڈنر کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
یہ جنگ زورِ بازو سے نہیں بلکہ اللہ پر ایمان، جذبے، ایثار ، محبت اور اتحاد کے بل بوتے پر جیتی گئی۔پورے عرصے میں ساری قوم یکجان ہو گئی۔ اس سارے عرصے میں پورے ملک میں کوئی واردات نہیں ہوئی۔ قائد اعظم کا فرمان سچ ثابت ہوا: ’’پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے میں آپ میں سے ہر ایک کو اپنی الگ الگ جگہ انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے لیے آپ کا یہ نعرہ ہونا چاہیے ’’ایمان، اتحاد، ایثار‘‘۔ آپ اپنی تعداد کے کم ہونے پر نہ جائیے۔ اس کمی کو آپ کی ہمت و استقلال اور بے لوث فرض شناسی سے پورا کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ اصل چیز زندگی نہیں ہے۔ بلکہ ہمت، صبر وتحمل اور عزم مصمم ہیں جو زندگی کو زندگی بنا دیتے ہیں۔‘‘
آج بھی اس فرمان پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیوں کہ اب یہ خطرہ تو نہیں کہ دشمن ہم پر دندناتا ہوا حملہ آور ہو جائے گا لیکن عیار دشمن اب زیادہ گھناؤنا وار کر رہا ہے۔ وہ ہمارے خلاف چومکھی لڑائی لڑ رہا ہے۔ ایک جانب وہ ہماری جمعیت توڑنے کی کوشش میں ہے اور دوسری جانب ہمارے ایمان و عمل پر تہذیبی و ثقافتی طور پر حملہ آور ہے۔ اپنی فلمیں اور مشرکانہ ثقافت دکھا دکھا کر ہمیں دین سے دور کر رہا ہے۔ گویا ہماری نظریاتی سرحدوں کا شیرازہ بکھیر رہا ہے۔ ہمارے ایمان و اخلاقیات کا جنازہ نکال رہا ہے۔ جب کہ ہم خاموش تماشائی بنے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ کوئی ہے جو دشمن کو ان خطوط پر شکست سے دوچار کر سکے؟؟؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں