پاکستان ! ۱۹۶۵ کے جذبے سے لبریز

زندگی میں ترتیب کی اہمیت بہت کم لوگ سمجھ پاتے ہیں ، اکثریت تو ترتیب بناتے بناتے دارِ فانی سے کوچ ہی کرجاتے ہیں اور سب کچھ ویسے ہی بکھرا پڑا رہ جاتا ہے۔ کسی بھی فیصلے کی کامیابی یا ناکامی میں وقت اور حالات کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ لیکن بہادروں کے فیصلے وقت اور حالات کو خود ہی موافق بنالیتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت بھی بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔ بہادر وہ ہوتا ہے جو حالات و واقعات کا محتاج نا ہو اور وقت کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے۔ ۱۹۴۷ میں جب پاکستان بنا تو دشمن نے پیٹھ پر وار کئے اور جانی و مالی نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایک ہجرت مکہ سے مدینے ہوئی تھی جب مسلمان مکہ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک آفاقی مقصد کی تکمیل کیلئے ہمارے پیارے نبی ﷺ کیساتھ مدینے کی جانب ہجرت کی، مقصد کی نوعیت قدرے مشترک تھی جب پاکستان کی تحریک چلائی گئی جس میں جان، مال ، عزت و آبرو ہر چیز کو داؤ پر لگا دیا گیا پھر کہیں جاکے پاکستان حاصل ہوا۔ پاکستان جدید دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی پہلی نظریاتی ریاست ہے، جس کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے۔ پاکستان اپنے وجود میں آنے سے لیکر آج تک دشمنوں کی آنکھ میں چبھتا ہی رہا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے جہاں دیدہ لوگ جو مسلمانوں کی تاریخ سے واقف ہیں یہ جانتے ہوں کہ کس طرح سے ہمارے پیار ے نبی ﷺنے مدینہ آباد کیا اور پھر کس طرح سے آدھی سے زیادہ دنیا پر ان کے چاہنے والے اسلام کا جھنڈا لیے پھیل گئے۔
ملک کے داخلی حالات کتنے ہی خراب کیوں نا ہوں ہم پاکستانیوں نے خارجی مداخلت کو ہمیشہ منہ توڑ جواب دیا ہے۔ یہ مداخلت خطے میں موجود دشمن کی جانب سے کی جانے والی ہو یا پھر کہیں سے مطلب پرست دوست نما دشمن کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہو۔ ہم پاکستانی یک جان کھڑے ہوجاتے ہیں اور دشمن کو ہمیشہ ہی منہ کی کھانی پڑ ی ہے۔
ہم پاکستانیوں کی پاکستان سے محبت کی ایک بہت بڑی وجہ ہماری افواج ہے جوسرحدوں پر ہماری حفاظت کیلئے ایک ایک لمحہ چاک و چوبند کھڑے رہتے ہیں ، ہم پر آئی مشکل کی ہر گھڑی میں مشکل کا سامنا کرنے کیلئے ہم سے آگے کھڑے ہوتے ہیں۔ افواج پاکستان محدود وسائل کے باوجود اپنی بین الاقوامی شناخت بنانے میں کامیاب رہی ہے ۔ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے ہر مشن کا آغاز کرنے والے ، وطن عزیزکے ذرے ذرے کے پاسبان ہیں۔ قربانیوں کی ایک طویل داستانیں جو ابھی بھی رقم ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں دنیا کی کسی فوج نے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اتنی قربانیاں نہیں دیں جتنی کا پاکستانی افواج نے دی ہیں ۔ اس کا اعتراف تقریباً دنیا کا ہر ملک ہی کر چکا ہے ۔ ہم نے کبھی اپنی قیمتی جانوں کی پروا اس وطن کی خاطر کی ہی نہیں۔
ہماری افواج کا ایسا کردار ہے کہ ہر پاکستانی افواج پاکستان کا احسان مانتے ہیں۔
نیلم احمد بشیر صاحبہ نے اپنی کتاب کا نام ستمگر ستمبر امریکہ میں ہونے والے حملوں کی مناسبت سے رکھا ہے لیکن مجھے تو ستمبر کی ستمگری کسی اور پر پڑتی دیکھائی دیتی ہے ، ستمبر جب بھی آتا ہے تو دشمن کو اپنے خوابوں کے ٹوٹنے کی آوازیں کانوں میں گونجتی سنائی دیتی ہوں گی اور ان کی کرچیاں اپنی آنکھوں میں کھبتی محسوس ہوتی ہونگی، دشمن نے پاکستان کو تر نوالہ سمجھ لیا تھا لیکن یہ ایسا کرار ا تھپڑ بن گیا جو کہ انکے کانوں میں گونجتا رہے گا۔ پاکستانی افواج نے اپنے جذبے سے عوام میں ایسا جذبہ بیدار کیا کہ فوج اور عوام میں فرق معلوم کرنا مشکل ہوگیا۔ بھارت نے ۶ ستمبر ۱۹۶۵ کی رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا جسکا بھرپور جواب پاکستانی افواج نے دیا اوراس وقت کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے وہ الفاظ جو اکثر ٹیلیوژن پر سنائے جاتے ہیں کہ دشمن نے سوتے ہوئے شیر کو جگایا ہے۔
ایک فوجی کی تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم لیتے ہیں معاوضہ بھلا بتاؤ ۔۔۔لہوبھی کہیں بکتا ہے کیا؟ (یہ ان لوگوں سے سوال ہے جو کہتے ہیں کہ فوج کا احتساب کون کرے گا پہلے اپنے آپ کو تو پیش کردو پھر فوج سے سوال کرنا۔
آج ہماری افواج کی قربانیوں کی گواہی ساری دنیا ہی دے رہی ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ ہم پاکستانی آج جس گھمنڈ سے جس غرور سے اپنے وطن میں رہ رہے ہیں اس کا خراج ہمارے شہیدوں نے اپنے لہو سے دیا ہے ۔ ہمارے شہیدوں نے سمجھایا ہے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے شہید کا لہو ہے وہ قوم کی زکوۃ ہے ۔ پاکستان کی افواج نے اپنی اہلیت ، حکمت سازی اور معاملہ فہمی سے ساری دنیا کی افواج کو باقاعدہ طور پر پیچھے چھوڑدیا ہے۔ دوسری طرف ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ جمہوری حکومت، فوج اور عدلیہ ایک ہی راستے پر ایک ہی منزل کی متمنی ساتھ پیش قدمی کررہی ہوں۔ قوم آج پھر اسی جذبہ ایمانی و حب الوطنی کیساتھ اکھٹی دیکھائی دے رہی ہے ، آج پھر افواج پاکستان کے سرخ روح ہونے کا دن ہے ، آج پھر دشمن کو مار بھگانے کا جذبہ زور و شور سے قوم میں دیکھا جا سکتا ہے اور قوم پاکستان سے بدعنوانی اور بے ایمانی کو شکست دینے کیلئے کمر کس چکے ہیں اب بہت جلد پاکستان اپنے حقیقی معنوں سا ہونے والا ہے یعنی پاک صاف جگہ۔پاکستانی افواج کی دی گئی ترتیب کارگر ثابت ہوئی ہے ملک نے ستر سالوں کے بعد منزل کی جانب پیشقدمی شروع کی ۔ ترتیب کی اہمیت سمجھنے والے اب سب اداروں میں ہونگے تو ملک ایک منظم اور مستحکم ادارے کی مانند چلے گا۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں