’’نئے پاکستان سے امیدیں ‘‘

خوشی کس چڑیا کا نام ہے؟ آپ کہیں گے کہ یہ بھی کوئی بات ہوئی ،خوشی توخوش ہونے سے ملتی ہے ۔جب تک آپ خود کو خوش نہیں رکھتے،ہنستے، مسکراتے نہیں خوشی آپ سے کوسوں دور رہتی ہے ۔ہنسنا ،مسکرانا ،باموقع نہ ہو تو پاگل کہلائے جانے کا قوی امکان ہے۔مثلاََ2013کے الیکشن کے بعد اسمبلیاں لیگیوں سے بھر گئیں ۔ خاں صاحب نے 90 دن اسلام آباد کو گھیرے رکھا۔لیگی کہتے تھے اس کی عقل گھاس چرنے گئی ہے یا اس کی مت ماری گئی ہے ۔ہماری دادی جان کہا کرتی تھیں ہر وقت سڑا ہوا منھ مت بنایا کرو ،اللہ ہماری دادی جان کو جنت میں بانیان پاکستان کا ساتھی بنائے تاکہ ہماری دادی جان جوجب تک حیات رہیں نئے پاکستان کے نعرے سنتی رہیں مگرنئے پاکستان کو دیکھنے سے قبل ہی اجل کو سدھار گئیں،وہ ہم سے اکثرپوچھاکرتیں کہ یہ مویا عمران ہے کون؟ اور ہم خان صاحب کی سرسری سی تشریح کر دیتے۔آخیر عمر میں انہیں یقین ہو چلا تھا کہ یہ بندہ کام کرے گا۔ اب نئے پاکستان کااحوال جنت میں بانیان پاکستان کو سنا رہی ہوں گی۔دادی جان مرحومہ مغفورہ کی سنانے کی عادت دلچسپ تھی۔کسی بھی بات کو چھیڑ دیتیں تو اس میں حقیقت کا رنگ بھر دیتیں۔کاش کہ وہ آج زندہ ہوتی تو خواب کی تعبیر بزبان عمران خان سنتیں ۔
آج بھی حسب معمول صبح گھر سے نکلاتو وزیر اعظم صاحب کا قوم سے کیا گیا پہلا خطاب اور سحر انگیز تقریر کانوں میں گونج رہی تھی۔ہلکی سے خنکی ہوا میں محسوس ہوئی اور الفاظ تتلیوں کی مانند رنگ بکھیرنے لگے ۔سوچنے لگا کہ کیا واقعی ایسا چل رہا تھا ،مجھ سمیت کتنے پاکستانی تھے جنہیں پتا ہی نہیں تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس 11 سو کنال پہ محیط ہے۔524 ملازم ہیں ،80 گاڑیاں جن میں 33 بلٹ پروف کاریں ہیں۔ایک کار کی قیمت 5 کروڑ سکہ رائج الوقت ہے۔سر دھننے کی بات ہے ۔اتنی آؤ بھگت ایک انسان کی اس ملک میں جہاں تھر کے تپتے ریگستانوں میں بچوں کو ایک میٹر کپڑا نہیں ملتا ۔ماں کے پاس دس روپے نہیں ہوتے کہ اس کی چھاتیوں میں خوراک نہ ملنے کی وجہ سے دودھ نہ رہا۔اور وہ ان رپیوں سے اپنے لخت جگر کو ڈبہ دودھ پلا دے۔ابھی یہ سب سوچ کر دماغ پھٹتا کہ اس سے پہلے ہماری موٹر سائکل کا ٹائر پھٹ گیا۔گھسیٹتے ’’چاچا بخشو ٹائر پنکچر‘‘ کی دکان پہ لائے ۔چاچا بھی مست ملنگ انسان ہیں ۔ ایک عرصہ سے سلام دعاہوتے انسیت پید اہوگئی ہے۔زرداری صاحب کے دورمیں پنجاب سے یہاں پدھارے۔عمر میں زیادہ مگر چستی شیخ رشید صاحب والی نظر آتی ہے۔حال ہی میں بیٹی کی شادی کرکے آئے ہیں تو آتے ہی پنکچر کے پیسے بڑھا دیے۔ہمارے پوچھنے پہ تھوڑی تیوری چڑھائی اور بولے۔بھولے مانس ! تمہیں کیا پتا غریب شادیوں کا بوجھ کیسے جھیلتا ہے۔اتنا سارا خرچہ ہوگیا ہے ۔میں مقروض ہوگیا ہوں ۔جہیز کے سامان کے لیے گورنمنٹ کو عرضی جمع کرائی تھی ۔ایک سال بعد گورنمنٹ نے پچاس ہزار کے فنڈ میں دس ہزارروپے دیے۔ہم نے حیران ہو کر پوچھا ایسا کیوں؟ چاچا بخشو بولے بیٹا !کیا بتاؤں یہ کوئی بارش کا پانی تھوڑی ہے جو آسمان سے جیسا آتا ہے ویسازمین کو تر کردیتا ہے۔یہاں کفن میں بھی منافع خوری کی جاتی ہے۔گورنمنٹ کے دیے پچاس ہزار روپے میں سے کچھ کلرک نے کھائے ،کچھ ہمارے نمبر دار نے حقہ ،سیگریٹ کا خرچہ لیا ،کچھ سیکرٹری نے چائے پانی لیا، یوں پچاس ہزار بن گئے دس ہزار ۔
ہم نے چاچا بخشو کو تھپکی دینی چاہی تو وہ چہک کر بولے اب کوئی غم نہیں ۔چاچا کی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔ مسرت ان کے چہرے سے عیاں تھی ۔کیا تمہیں پتا ہے ہمارے وزیر اعظم کے ارادے کیا ہیں ؟ہم نے بھی اس کے دل کے تار ہلائے ،اور چاچا سے کہا :’’ آپ بتائیں ‘‘۔ چاچا کے ضعیف ہونٹ ہلے تو ہم دم بخود رہ گئے ۔وہ کہتے جارہے تھے ہمارے ملک کا سردار کہتا ہے کہ وہ غریبوں کو خوش حال بنائے گا ۔وہ ہمیں ہمارا کھویا مقام دلائے گا ۔وہ عزت جو ہمارے ملک کے بزرگ غریب کو دینا چاہتے تھے اس کی تعبیر ہو چلی ہے۔ستر سالوں سے غریب کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔سیاست دانوں نے غریب کو ووٹ کا ذریعہ بنائے رکھا ۔اس کا استحصال کیا ۔عوام میں شعور بیدار کرنے والے عمران خان ہیں ،جن سے غریب کو ایک امید ہو چلی ہے کہ اب اس کے دکھوں کو مداوا ہوگا۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں