اوئے پومیو

بد ترین ریاستی جبر، عدالتی ہتھوڑوں کے پے در پے واروں سے کیے گئے انصاف کے بہیمانہ قتل، شرمناک دھاندلی، آزادیِ اظہارِ رائے پہ سنسرشپ کی بزدلانہ اور آمرانہ پابندیوں کے بعد بھی، تنکا تنکا اکٹھا کر کے خان صاحب کو مسندِ حکومت پر آخرکار بٹھایاہی دیا گیا۔ ابھی چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ مملکتِ خداداد کو قائد کا پاکستان اور ریاستِ مدینہ بنانے کے خوشنما دعوؤں کے بیک گراؤنڈ میوزک میں آئے اس شخص نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے، قومی وقار بلند کرنے کے مقدس مشن کی خاطر، امریکی سیکرٹری پر اپنے خاص ہتھیار ’’جھوٹ‘‘ سے حملہ کر دیا۔
لیکن عادت سے مجبور بھولے خان یہاں پر ایک بنیادی غلطی کرگئے۔ وہ اس سفارتی کال کو بھی شایدتحریکِ انصاف کا کوئی جلسہ سمجھ بیٹھے، جہاں ان کی دشنام طرازی کا حساب لینے والا کوئی نہیں ہوتا یا جہاں پکڑے جانے پر بابا جی ان کے بیانات کو سیاسی کہہ کر انہیں بچا لیا کرتے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سوچ بیٹھے ہوں کہ جھوٹ کی طاقت سے وہ سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ یا ان کی سوشل میڈیا بریگیڈمائیک پومیو کی ماں بہن سمیت تمام رشتے دار ایک کرتے ہوئے اسے اپنا بیان واپس لینے اور ان سے رحم کی درخواست کرنے پہ مجبور کر دے گی۔
لیکن وہ تو کیڑے پڑیں پومیو کو جس نے کال کا ٹرانسکرپٹ بھیج کر ہمارے جھوٹے، اوہ معاف کیجیے گا، سند یافتہ صادق و امین وزیرِاعظم کو شرمندہ کرنے کی ’’ناکام‘‘ کوشش کر ڈالی۔
مجھے تو یہ بھی میاں صاحب کی کوئی سازش لگ رہی ہے، جو جیل میں بیٹھ کر اور ای سی ایل میں نام ہوتے ہوئے بھی وار کر گئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کے میاں صاحب جاتے جاتے اپنے کھربوں کے صوابدیدی فنڈ میں سے پومیو کے ضمیر کی قیمت لگا گئے ہوں۔
نجانے خان صاحب نے کس بھولپن میں یہ سوچ لیا کہ اب کی دفعہ امریکی اس مطالبے سے دستبردار ہو جائیں گے جس کا مطالبہ وہ 17 سال سے کرتے چلے آ رہے ہیں؟ ہر کوئی آپ جیسا تھوڑا ہی ہوتا ہے جو صادق خان کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کو سابقہ رشتے داری کی بنیاد پہ سپورٹ کر دے، یا کچن چلانے، جہاز میں گھمانے اور بیوی دان کرنے کے بدلے عنایات کر دے۔ یہ امریکی ہیں جناب، جو ملکی مفاد کے سامنے کسی تعلق کو خاطر میں نہیں لاتے۔
پاکستان میں تو ویسے ہی اب خان صاحب کی ہر بات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے، ہر دم دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کہیں خان صاحب اپنی پچھلی بات سے یو ٹرن ہی ناں لے لیں۔ اب دوسرے ممالک بھی کال کرنے کے بعد پوچھا کریں گے کہ خان صاحب ابھی تک فون کال پر ہوئی بات چیت پر قائم ہیں یا ٹرانسکرپٹ بھیجیں؟
دفترِ خارجہ کے بابوؤں نے خان صاحب کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ کسی سیکرٹری کی کال لینا وزیرِاعظم کے عہدے کے شایانِ شان نہیں، لیکن وہ شاید جانتے نہیں تھے کہ یہ درویش انسان ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ خان صاحب کرکٹ کھیلنے کے فوائد گنواتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اس سے ان کی پریشر لینے کی بھی ٹریننگ ہو چکی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جو دنیائے کرکٹ کا مہان کپتان سفارتی میدان میں ایک سیکرٹری کی باتوں کا پریشر نہیں سہہ سکا، کل کلاں جب اسے ٹرمپ جیسے بددماغ کے منہ متھے لگنا پڑے گا تو کیا بنے گا؟۔ شاید اسی بارے سوچ کے انقلابی رہنما نے یو این کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ جانے سے صاف انکار کر دیا۔ لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی۔
بطور پاکستانی ہم سب کے لیے یہ شرم کی بات ہے کہ دنیا ابھی سے ہمارے آکسفورڈی پی ایم کو جھوٹا کہہ رہی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو بقول خان صاحب کے ہرے پاسپورٹ کی خدانخواستہ رہی سہی عزت بھی جاتی رہے گی۔
اس لیے ضروری ہے کہ وہ جلدازجلد اپنی ان بری عادتوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف یہ کہ کسی ماہرِ نفسیات کی خدمات حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، بلکہ اگر انہیں ترکِ منشیات کے کسی مرکز میں زنجیروں میں چند مہینے گزارنے پڑیں تو ملک و قوم کی خاطر یہ بھی کر گزریں۔
بلکہ میں تو کہوں گا کہ جو لوگ انہیں لے کے آئے ہیں وہی اب ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی کریں ورنہ کہیں یہ نہ ہو کہ لوگ خان صاحب کی صلاحیتوں کو دیکھ کر نمبر 1 کی صلاحیتوں کا اور بھی زیادہ مذاق اڑانے لگ جائیں۔
جب جب کروڑوں کی اجتماعی دانش کے مقابلے میں چند افراد کی جذبہِ انتقام میں ڈوبی سوچ جیتے گی تو ایسے ہی نمونے سامنے آئیں گے۔ اب تک کی تاریخ کا تو سبق یہی ہے کہ ان چند افراد کے فیصلوں نے ملک و قوم کو ہمیشہ مشکلات میں ہی ڈالا ہے۔ لیکن آخری خبریں آنے تک اپنی اناؤں کے غلام یہ افراد تاریخ سے کچھ بھی سیکھنے سے انکاری ہیں۔
بہرحال یہ ملک مہاتما کے جھوٹوں اور سستے نشوں کا زیادہ دیر تک متحمل نہیں ہو سکتا۔ آپ شعبدہ بازی سے اپنے لوگوں کو تو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن سفارتی معاملات میں ایسی حرکتوں سے ہمیشہ منہ کی کھانی پڑے گی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں