عنفوانِ شباب۔۔۔اپنی اصلاح آپ کیجیے

ایک قول ہے کہ:اگر کسی میں کوئی برائی دیکھو تو اسے اپنے اندر تلاش کرو اور اگر اپنے اندر پاؤ تو فوراًختم کردو۔یہی اصلاح کا بہترین طریقہ ہے۔ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو بالکل خالی ہوتا ہے نہ کوئی اچھی عادتیں ہوتی ہیں نہ بری۔پھر آہستہ آہستہ وہ اپنی عادتیں بنانے لگتا ہے۔ماں باپ کو محسوس ہوتا ہے کہ بچہ بہت ضدی ہوگیا ہے تو وہ اس کی عادت کو فوراً سمجھا بجھا کر ختم کروانے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی عادتیں پختہ ہوتی جائیں گی۔ایک بچہ بالکل کٹھ پتلی کی طرح ہوتا ہے ماں باپ اور آس پاس کے ماحول میں جو دیکھتا ہے ویسا ویسا کرتا ہے۔مگر جوانی اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔عمر کے اس حصے میں دماغ اتنا توانا ہوتا کہ آدمی خود فیصلہ کرتا ہے کہ اسے آس پاس کے ماحول سے کیا لینا ہے اور کیا نہیں۔ کتنا سیکھنا ہے اور کتنا نہیں۔جوانی ہوش و ہواس کا وہ دور ہوتا ہے جس میں کسی کے بنا سکھائے انسان اپنے اندر بہت کچھ محفوظ کر سکتا ہے۔کسی کی کوئی عادت آپ کو نا گوار گزرے تو اسے اپنے اندر تلاش کریں اور اگر ایک فیصد بھی اس عادت کو اپنے اندر پائیں تو فوراًاپنی اصلاح کریں کیوں کہ جوانی کا اک فیصد برھاپے کا ۱۰۰ فیصد بن جاتا ہے۔جوانے کی ہر عادت برھاپے مں فطرت بن جاتی ہے ۔
حالت نزع کے بارے میں سنا ہوگا آپ نے کہ اس وقت جب موت بالکل سرہانے پہ ہوتی ہے تو اکثر لوگ عجیب وعجیب باتیں کر رہے ہوتے ہیں،وہ عجیب باتیں نہیں ہوتیں ۔وہ چند باتیں وہ چند فقرے ان کی پوری زندگی کا لب لباب ہوتا ہے۔جب آخری سانسیں چل رہی ہوتی ہیں تب انسان کا خود پہ اختیار ختم ہوجاتا ہے اس کے منہ سے بس وہی الفاظ نکل رہے ہوتے ہیں جو اس نے عمر بھر کیا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر جوانی میں کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے تو اپنی ذات کو بنائیں اور عمر کے اس سنہرے حصے میں اپنی اصلاح کریں۔کوئی کسی کو آئینہ نہیں دکھا سکتا،اپناآئینہ خود بنیں اور باریک بینی سے اپنا جائزہ لیں اور ہر وہ چیز جو آپ کو لگتا ہو کو وقت کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹی سی بر ی عادت چھوٹ جائے گی اسے ابھی ہی ختم کریں کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ عادت بڑھتی ہے۔
کھانے پینے سونے جاگنے کے کے حوالے سے آداب آپ نے پڑھے ہوں گے۔ کبھی آدابِ جوانی کا سنا ہے؟یہ وہ آداب ہیں جو جوانی سے پہلے سمجھ نہیں آتے اور جوانی کے بعد سیکھے نہیں جا سکتے۔جوانی کے چند آداب یہ ہیں:
َ۔۔۔ کسی کی بات ختم ہونے سے پہلے اپنی بات شروع نہ کریں۔
۔۔۔کسی بات کا پہلے سے علم ہو تو بھی ہاں ہاں پتہ ہے کہنے کہ بجائے خاموشی سے بات سن لیں اس میں کوئی حرج نہں ہے۔
۔۔۔کوئی آپ سے بات کر رہا ہو تو پوری توجہ دیں اسے۔
۔۔۔کوئی مشورہ دے تو اسے اہمیت دیں۔یہ نہ کریں کہ ہاں بھئی مجھے پتہ ہے کہ کیا کرنا ہے،مشورہ سنت ہے۔
۔۔۔کوشش کریں کہ کسی سے اختلاف بھی رکھتے ہو تو بھی بات کا آغازہاں سے کریں، جیسے ہاں آپ صحیح کہ رہے ہیں مگر ایسے بھی تو ہو سکتا ہے۔
۔۔۔ طنز سے بچیں،چاہے مذاق میں ہی کیوں نہ ہو۔بات کو سیدھے طریقے سے کریں۔جیسے کسی کے دیر سے آنے پہ واہ بڑے جلدی آگئے آپ کہنے کے بجائے بہت دیر سے آئے ہیں آپ کہنا مناسب ہے۔ طنز دوسروں کے نظر میں آپ کی وقعت کم کر دیتی ہے۔
۔۔۔ قیاس آرائیوں سے گریز کریں۔ ایسا ہی ہوا ہوگا ،اس نے ہی کہا ہوگا،اس نے ہی کیا ہوگا۔غلط فہمی تب بڑھتی ہے جب انسان اپنے سوالات کا خود جواب سوچ لیتا ہے۔ِ
۔۔۔ بات کرتے وقت جانچ لیں کہ سو فیصد صحیح ہے کہ نہیں۔ کسی بات کو بارہ مصالحہ لگا کر بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ محض محفل کا حصہ بننے کے لیے من گھرٹ باتوں سے پر ہیز کریں۔ اس سے یقین مانیے آپ کی عزت صفر ہو جاتی ہے۔
۔۔۔ بے بنیاد باتوں سے گریز کریں۔
۔۔۔ لوگوں کو ڈسکس مت کریں۔
۔۔۔ کوئی آپ کو پسندہے تو ضروری نہیں کہ اس کی آمد پہ آپ تعریفوں کے پل باندھنا شروع ہو جا ئیں۔ یہ جھوٹ ہے۔
۔۔۔اِس کی اُس کی ہر ایک کی خبریں جمع نہ کریں۔ خود کو انسان رہنے دیں،نیوز چینل نہ بنائیں۔
۔۔۔ ضروری نہیں کہ ہر بات میں اپنی رائے دی جائے۔ کسی بات کا آپ کو تجربہ نہیں ہے تو خاموش رہیں۔
۔۔۔ بات اگر ایک آنہ کی ہے تو اسے ایک آنہ کی ہی رہنے دیں۔
۔۔۔ جھوٹ سن کر خاموش رہنا، جھوٹی گواہی دینا جیسا ہے۔
۔۔۔ اکڑنا مردوں کی صفت ہے۔غلطی کا اعتراف کرنے میں جھجھکیے نہیں۔
۔۔۔ اپنے موڈ کو اتنا اختیار نہ دیں کہ وہ وقت اور موقع محل دیکھے بنا آپ پہ حاوی ہو جائے۔
۔۔۔ اچھا گمان رکھیں مگر خوش فہمیاں نہ پالیں۔
۔۔۔ اپنی رسموں پہ نہ اکڑے رہیں۔ ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے تو ھمارے ہاں ویسا ہوتا ہے۔
۔۔۔ لوگوں کا احترام کریں۔
۔۔۔ اپنے اندر اتنی ہمت پیدا کریں کہ اپنے نقصان کا ذمہ دار کسی اور کو نہ ٹھیرانا پڑے۔
۔۔۔ اپنے اندر لچک پیدا کریں،دوسروں کے نظریات سمجھنے کی گنجائش نکالیں۔
۔۔۔ تلخ باتوں سے پرہیز کریں۔
۔۔۔ باتوں کو اتنا مت گھمائیں کہ خود ہی راستہ بھول جائیں۔سیدھی سچی اور کھری بات کریں۔
۔۔۔ اپنے اندر ہر وقت میں میں کرتا بکرا ذبح کردیں۔
جوانی کے آداب سیکھیں۔ جوانی کے ڈھلتے ہی آداب سیکھنا محال ہو جاتا ہے۔ ہر چھوٹی چھوٹی عادت وقت کے ساتھ ساتھ بہت بڑھ جائے گی۔ابھی ہی اس کا جائزہ لیں۔ خود تجزیہ کریں۔اپنی بات کو اتنا شفاف رکھیں کے عمر کے جس بھی حصے میں ہو آپ کی بات میں ہمیشہ وزن رہے۔ آج آپ ادھیڑ عمر کے لوگوں کے درمیاں بیٹھ کر ان کی باتوں کو طول رہے ہوتے ہیں کل کو لوگ آپ کی باتوں کو طول رہے ہونگے۔لہذا اپنی اصلاح کے لیے دوسروں کی باتوں کو نوٹ کریں اور اپنی اصلاح شروع کریں۔آداب جوانی سے واقفیت آپ کو بہت سو میں ممتاز کر سکتی ہے۔

حصہ

1 تبصرہ

Leave a Reply to عرفان فاروقی