اک معمہ ہے سمجھنے کا نا سمجھانے کا

ہماری عقلِ ناتواں تو ابھی تک اس بات کا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر ہے کہ جس بنی گالہ کو خان صاحب سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پہ خیر آباد کہہ کر وزیرِاعظم ہاٶس، اوہو معاف کیجیے گا، ملٹری سیکریٹری کے گھر منتقل ہوۓ تھے،  اب اسی بنی گالہ میں روزانہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔

ملک کے تمام اداروں کا اختیار ہونے کے بوجود حکومتی وزیر وزیرِاعظم ہاٶس سے بنی گالہ تک کا ہیلی کاپٹر کا خرچہ گوگل سے پوچھتے پھر رہے ہیں۔ ویسے تو ہم ذہنی غلام ابھی تک یہی نہیں سمجھ پا رہے کہ جب خان صاحب وزیرِاعظم ہاٶس میں رہتے ہی نہیں تو ہیلی کاپٹر کے خرچہ کا حساب وزیرِاعظم ہاٶس سے بنی گالہ تک کیوں کیا جا رہاہے؟ فواد صاحب کو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا کہ اب وہ حکومت میں ہیں، اور انہیں گوگل کی بجاۓ سول ایوی ایشن کا نمبر ملانا ہے۔

الیکشن مہم میں ایک چھوٹے ہیلی کاپٹر کے لیے ٥ لاکھ فی گھنٹہ ادا کرنے والے اب کہہ رہے ہیں کہ حکومتی ہیلی کاپٹر کا خرچہ تو چند سو یا ہزار ہے۔ اب یا تو الیکشن مہم میں پارٹی فنڈ میں خرد برد کی گئی ہے اور یا یہ لوگ عوام کو بیوقوف اور ٤٥ فیصد والا سمجھ رہے ہیں۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں ہمارے قابلِ فخر ”سینسدان“ آغا وقار کی مشہورِ زمانہ پانی والی ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہو۔ اور فواد صاحب ابھی بھی ”بےشرم و بےشرمی“ ٥٥ روپے فی کلومیٹر کہہ رہے ہوں۔ خان صاحب کو فواد چوہدری کی اس غلط بیانی کا فوری طور پہ نوٹس لینا چاہیے۔ جب پانی کا کوئی خرچہ ہی نہیں، تو خان صاحب پہ ٥٥ روپے کا الزام لگانے کا مطلب یہ ہوا کہ فواد صاحب تبدیلی کے راستے میں ٹانگ اڑا رہے ہیں، اور انکا تعلق ”سٹیٹس کو“ کے ان کرپٹ عناصر سے ہے جو اب اپنی اربوں کھربوں کی کرپشن پکڑے جانے کے خوف سے ایسا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ یہ ابھی جانتے نہیں ”کھپ تان“ کو۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں