جاری رہے سفر

بچپن کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں سنی باتیں اکثر سمجھ نہیں آتیں مگر یاد رہتی ہیں۔ اُن زخموں کی طرح جن کا درد جاتا رہا مگر نشان رہ گیا۔ میرے ایک استادِ محترم مولانا عبدالرحمن صاحب اکثر مجھے کہتے  کہ “سفر ہزار تالوں کی ایک کُنجی ہے”۔ اور یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہ آتی۔ آتی بھی کیسے، سکھر جیسے شہر میں جہاں زندگی اپنے محدود وسائل کے ساتھ زندہ رہنے کا نام ہو وہاں بھلا کون سفر جیسی عیاشی کا سوچ سکتا تھا۔ میرے استاد کہتے، جب رزق بند ہو جائے تو سفر کرو، جب عقل بند ہو جائے تو سفر کرو، جب علم رک جائے توسفر کرو، جب چین چھن جائے تو سفر کرو، جب خُدا چھٹ جائے تو سفر کرو۔

 آج سالوں بعد اور دنیا کے درجنوں ممالک گھومنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی ہے۔ ابن بطوطہ کہتا تھا کہ سفر پہلے آپ سے قوتِ گویائی چھین لیتا ہے اور پھر آپ کو داستان گو بنا دیتا ہے۔

 جب، جہاں، جتنا ہو سکے سفر کریں۔ قرآنِ مجید میں کم از کم 27 جگہ سفر کرنے یا اُس سے متعلق کسی بات کا ذکر ہے۔ اسلام علم کے حصول سے لے کر تجارت تک اور گزری قوموں کے حالات سے عبرت پکڑنے سے لے کر اللہ کی نشانیاں دیکھنے تک سفر کی ہمت افزائی کرتا ہے۔

 آپ آئی فون کے بدلے نوکیا لے لیں اور ان پیسوں سے دبئی، سری لنکا یا آذرنائیجان کا چکر لگا آئیں۔ آپ بہت کچھ سیکھیں گے۔ اجنبی زمین نہیں ہوتی، لوگ ہوتے ہیں۔ نئے لوگ، نئی ثقافت، نئے طورطریقے، نئی زبان اور نئے چال چلن سے بہت کچھ سیکھنے اور سکھانے کا موقع ملے گا۔ آپ دنیا گھوم کر اللہ کی صناعی کی داد دیں گے تو دنیا آپ سے مل کر اللہ کے بندے کو جانے گی. دونوں طرف سے ہی ون-ون سچوئیشن ہے۔

ویسے آپ کو آپس کی ایک بات بتاوں؟

منزل ہمیشہ بےوقوفوں کو ملتی ہے، عقلمند تو ہمیشہ سفر میں رہتا ہے۔

بقول شاعر

رہِ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے

شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے

آوارہ اور مسافر میں ایک ہی تو فرق ہے۔ آوارہ کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں جا رہا ہے اور مسافر کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے آرہا ہے۔ سفر کرتے رہیں، دور تک چلے جائیں۔ ایک دن آپ کی آپ سے ملاقات ہو ہی جائے گی۔

سفر کی کئی اقسام ہیں اور ساری ہی اچھی ہیں۔ ایک سفر دنیا کا ہوتا ہے کہ آپ گھوم پھر کر دنیا کے لوگ، مذاہب، ثقافت اور طور طریقے دیکھتے ہیں۔ یقین جانیے، دنیا میں سب سے خوبصورت شئے دنیا ہی ہے، اسے دیکھنا چاہئیے۔ ایک سفر آدمی اپنے اندر کرتا ہے اس کی تلاش میں جس نے یہ سب کچھ بنایا۔ ایک سفر مزاج کا ہوتا ہے، خود پرستی سے بےبسی تک اور یہ ہم سب کرتے ہیں۔ ایک سفر اخلاقیات کا ہے جس میں بغیر راہبر چلنا بہت دشوار ہے کہ پاؤں یہاں پھسلا کہ وہاں پھسلا۔ ایک سفر ‘میں’ سے ‘تو’ کا ہے کہ بندہ اپنی ذات سے بچھڑ کر تُو ہی تُو کی گردان کرتا ہے۔ اور معراج بھی تو ایک سفر ہے کہ خُدا نے اپنے محبوب کو سب سے توڑ کر اپنے لئے چن لیا۔ اور موت بھی تو ایک سفر ہے جو ساری حقیقتوں کو سراب اور سراب کو حقیقت کر دیتی ہے۔ آخر میں آپ کو کچھ یاد نہیں رہے گا، نہ آفس میں گزارے جانے والے گھنٹے، نہ شاپنگ کی فہرست، نہ رخت سفر،نہ ہمسفر، نہ منزل، نہ قافلہ۔ ہاں! وہ لمحے جو کٹے سفر میں، وہ ضرور یاد رہیں گے۔

سفر عین الیقین کا مقام ہے۔ ہزار بار کسی شئے کے بارے میں سننے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک بار اسے دیکھ لیا جائے۔

آپ دیکھیں گے کہ لوگ کیا کھاتے ہیں، کیا پیتے ہیں، کیا پہنتے ہیں، کیسے سوتے ہیں، کیسے رہتے ہیں اور یہ سب کچھ آپ میں شکر پیدا کرے گا۔ سفر سے آپ یاداشتیں لے جاتے ہیں اور نقشِ پا چھوڑ جاتے ہیں۔

بقول شاعر

گو آبلے ہیں پاؤں میں پھر بھی اے رہرود

منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر

آپ دیکھیں گے کہ آپ سفر میں نئی زبان بڑی تیزی سے سیکھتے ہیں یہ ماحول کا اثر ہے۔ ہمارے آس پاس بھی اگر خشیتِ الہیٰ اور معرفت کا ماحول ہو تو بندگی بھی آہی جاتی ہے۔ یاد رکھئیے، جنہیں ساحلوں سے نظریں ہٹانے کی ہمت نہ ہو انہیں نئے جزیرے نہیں ملا کرتے۔ آپ ہمت کریں اور روز کی ایک نئی دنیا پا لیں۔

 سفر کے دوران مجھے کثرت سے امریکی لوگ ملتے ہیں۔ بڑی عجیب قوم ہے۔ دور دراز، سرمایہ لگا کر ایشیاء، ساؤتھ امریکہ، میکسیکو میں اُنہی لوگوں کو وارفتگی سے دیکھتے ہیں، ان کی ثقافت کو داد دیتے ہیں جنہیں اپنے ہی ملک میں انسان سمجھنے کے روادار نہیں۔

سفر کبھی آسان نہیں ہوتا، اس میں مشکلات، تکالیف اور پریشانیاں آتی ہی ہیں۔ یہ ناگہانی مصیبتیں آپ کو درد دیتی ہیں، توڑتی ہیں، پر اپنا نشان اور یاد چھوڑ جاتی ہے۔ آپ ان سے سیکھتے ہیں اور جواب میں کچھ سیکھا جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتے رہنا چاہئیے۔

ہرملک کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اسے سمجھنا چاہئیے۔ کہیں آپ کو پیسوں کی ریل پیل دکھے گی، کہیں بیماریوں کا ڈیرا، کہیں جسم زوال پذیر ہونگے تو کہیں افرا تفریح۔ یہ سارے موسم ہمارے اندر بھی چلتے ہیں۔ سیکھنا چاہئیے کہ ان موسموں کو دوام دینا کیسی تباہی لاتا ہے۔

 ہر شخص سفر سے اپنی طلب کے مطابق پاتا ہے، کسی کو بےخودی ملتی ہے تو کسی کی روح نکھرتی ہے۔ کوئی گناہوں کی پوٹلی سمیٹتا ہے تو کوئی شکر کا ٹوکرا اٹھا لاتا ہے۔

کبھی میری طلب کچے گھڑے پر پار اترتی تھی

کبھی محفوظ کشتی میں سفر کرنے سے ڈرتا ہوں

 آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں؟ آپ کو بھی یہ بات میرے بچپن کی طرح سمجھ نہیں آئے گی مگر سن لیں، جلدی کیا! زندگی پڑی ہے۔

صحیح سمت میں کھو جانا، غلط سمت میں پا لینے سے بہتر ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو صحیح سمت میں سفر کی توفیق عطا فرمائیں، آمین!

حصہ
ذیشان الحسن عثمانی ایک منجھے ہوئے قلم کار،کسک،جستجو کا سفر،فل برائٹ اورآئزن ہاور فیلوسمیت متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ معاشرتی وسماجی، کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور دیگر متنوع موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں اور ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسرکے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں

1 تبصرہ

  1. لفظ بہ لفظ، حرف حرف اترگئی تحریر روح میں۔۔۔
    “انسان سفرسےطلب کےمطابق حاصل کرتا ہے”
    ۔واہ۔۔!! قلم سلامت رہے۔

جواب چھوڑ دیں