’’اذان کا احترام کیجیے‘‘

احکامِ الٰہی سے محبت کسے نہیں ہوتی؟ مذہب کی مناسبت سے ہر وہ حکم جسے عملی طور پر پر بجا لانے کا حکم ہے ،اس پہ عمل نہ کرنا ترک حکم کے زمرے میں آتا ہے۔اللہ نے اپنے بندوں سے دین کی پیروی چاہی اور اپنی عبادت کا حکم دیا ۔اس راستے کے راہی صرف اللہ کی خوش نودی کو مد نظر رکھتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج مغربیت نے ہمیں اس قدر کھوکھلا کر دیا ہے کہ ہم اپنے تو نہ رہے ،دین کو بھی بیگانہ کردیا۔یہاں تک کہ تکریم شعائر اللہ کرنا ایک طرف ہم بڑی ہمت ،جواں مردی سے اور خو ف خد اکو پس پشت ڈال کر شعائر اللہ کی توہین کرنے سے باز نہیں آتے ۔روز مرہ کی زندگی میں تھوڑا گیرائی سے مشاہدہ کریں تولوگوں میں ایسی حرکات و سکنات دیکھنے کوملتی ہیں ،جن کو بظاہر غیر نقصان دہ عمل سمجھ لیا گیا ہے اور جن کے بارے یہ سوچ لیا گیا ہے کہ ان کے بارے سوال نہیں کیا جائے گا ۔دوسرے مذاہب کے پیرو کار مذہبی عبادات کی چیزوں کا بے حداحترام کرتے ہیں۔ہندو مذہب میں بھگوان کی پوجا کی جاتی ہے ۔پتھر کی بے جان مورت کو نقش و نگار کرکے سجایا جاتا ہے۔عیسائی اپنے چرچ میں طمطراق سے داخل ہوتے ہیں ۔ مگر اسلام جو لا فانی مذہب ہے کے ماننے والے عین مسجد کے گیٹ پہ سیگریٹ کاآخری کش ہوا میں چھوڑیں گے اور بدبو پھیلاتے اللہ کے گھر میں داخل ہو جائیں گے۔پان ،گٹگا چبانے والے اور نسوار کے عادی تو ان سے دو قدم آگے ہیں ،وہ مسجد کے وضو خانہ میں منہ صاف کریں گے ۔اس عمل سے ایک تو مسجد انتظامیہ سمیت صفائی کرنے والے خادمین کو مشکل پیش آتی ہے ،تو دوسری طرف نمازیوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔
یقیناہمیں دین سے تعلق رکھنے والا تو کہا جا سکتا ہے ،لیکن دین پہ چلنے والا نہیں کہا جا سکتا۔دین کی بہت سی باتوں پہ عمل کرنا ہمارے اعمال کے میزان کو بھاری کردے گا ، مگر ہمیں تو گناہوں کا بوجھ اٹھانا ہے۔اذان کا جواب دینا بہت بڑانیک عمل ہے ،مگر کون ہے جو کام دھندا چھوڑ کر اذان کا جواب انہماک سے دیتا ہو۔ایک رسمی سی کارروائی کی جاتی ہے کہ اذان ہوتے ہی کام روک لیا جاتا ہے ،لیکن نماز پڑھنے کے لئے دکان بند نہیں کی جاتی ۔اذان کے ادب کرنے پہ ایک واقعہ یاد آگیا ،واقعہ کی سند تو مضبوط نہیں مگر عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی کے مصداق اگر اس واقعہ سے خیر تلاش کرنا چاہیں توہماری زندگی بھی گل گلزار بن سکتی ہے۔ایک گاؤں سے دینی جماعت کا گزر ہوا تو پتا چلا کہ یہاں کے لوگ بے دین ہیں۔انہیں کلمہ تک نہیں آتا،حلال و حرام کی تمیز نہیں ، خدا رسول کا نام نہیں سنا ۔ ان اللہ کے بندوں نے انہیں دین کی دعوت دینے کا سوچا اور وہاں پہنچ گئے۔گاؤں والوں نے اس شرط پہ بات سننے کی حامی بھری کہ ہمارے ہاں ایک خاتون کا انتقال ہوگیا ہے ، لہذا اسے سپرد خاک کریں۔جماعت والوں نے کفن دفن کا ضروری انتظام کیا اور جنازہ پڑھا، ایک جگہ کو قبرستان کا نام دے کر خاتون کی تدفین کردی گئی۔
دوران تدفین جماعت کے ایک ساتھی کے ضروری کاغذات قبر میں گر گئے۔کاغذات اہم تھے اس لئے قبر کشائی کا فیصلہ ہوا۔اس صورت حال میں میت کے گھروالوں سے اجازت لی گئی ۔ان کی اجازت سے قبر کو کھولاگیا تو دیکھتے ہیں قبر روشن اورنور سے پُر ہے ، ہر طرف پھول بکھرے پڑے ہیں ۔میت کا پورا جسم گلاب کی پتیوں سے ڈھکا ہوا ہے، ایک سرخ گلاب میت کے ہونٹوں پہ رکھا ہے جس سے قطرہ قطرہ پانی میت کے حلق میں جا رہا ہے۔قبر کھلتے ہی ہر طرف خوشبو پھیلنے لگی لہذا جلد ہی قبر کو بند کر دیا گیا ۔کیوں کہ ایسے معاملات اللہ اور بندے کے درمیان راز ہوتے ہیں۔میت کے گھروالوں کواس عظیم نعمت کی خوشخبری سنائی گئی اور ساتھ ہی اس کی وجہ بھی پوچھی گئی۔ خاتون کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی اسے کوئی نیک عمل کرتے نہیں دیکھا ، ہاں ایک چیز جو وہ اکثرکیاکرتی تھی اورجسے ہم نے اسے ساری زندگی اُس ایک عمل کو کرتے دیکھا ۔جماعت والوں نے اس کے عمل کے بتانے کا اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ اُس کی عادت تھی کہ وہ کبھی بھی اذان کی آواز میں بیت الخلاء نہیں جاتی تھی ۔شدید حاجت بھی ہوتی تو ادب کی خاطر انتظار کر لیتی تھی کہ اس حالت میں اذان کی آوازکانوں میں نہ آئے۔
آج ہمارے مسلم معاشرے کی حالت یہ ہے کہ گھروں میں بڑوں سے چھوٹوں تک کوئی اکادکا ہو جو اذان کے لفظوں کا ادب کرتا ہو۔ اسے معلوم ہو کہ اذان میں مؤذن رسول اللہ نے کیا کہا ہے ۔اس کو پتا ہو کہ اس اعلان کے معنیٰ کیا ہیں ۔ اس پکارنے والے نے کس کے حکم کی تکمیل کرکے مسلمانوں کو کامیابی کی طرف بلایا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس بات پہ بھی ناراضی کا اظہار فرمایاتھا کہ ایک صحابی رسول نے روشن دان ہوا کی غرض سے رکھوا لیے تھے ۔بعدازاں ان کی نیت اذان کی آوازکی ہوئی توپھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے ۔عام سی بات ہو گئی کہ اذان کے وقت ٹی وی کی آوازتو بند کر دی جاتی ہے،مگر ٹی وی بند نہیں کیا جاتا، یہ صورت بھی کم دیکھنے کو ملتی ہے عموماً ایساہر گھر میں ہوتا ہے کہ اذان کے وقت ٹی وی کی آواز تک بند نہیں کی جاتی ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھروں میں طرح طرح کے مسائل و بیماریاں پید اہوگئی ہیں ۔کاروبار میں نقصان ہو جاتا ہے ۔کیا انسان کی تخلیق کا مقصدصرف اپنی ذات کے لیے سب کچھ کرنا ہے،کچھ اس ذات کے لیے بھی کر کے دیکھیے۔احترام شعائر اللہ کے ساتھ احترام دین کلی بھی ہم سب پہ لازم ہے ۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں