عیدِقربان،  معاشی نظر میں

گزشتہ چودہ سو سال سے زائد کے عرصے سے دنیا بھر میں مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت کو ادا کرنے کے لیے ہر سال  ذوالحج کی دس تاریخ کو آج سے ڈھائی ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ پیش ہونے والے واقعے کی یاد میں مناتے ہوئے آرہے ہیں، بظاہر تو یہ محض ایک مذہبی فریضہ نظر آتا ہے لیکن درحقیقت اِس سے سماج میں موجود بے شمار معاشی مسائل میں اُلجھے لوگوں کی آمدنی کے بہت سے اسباب بھی کھلتے نظر آتے ہیں۔

سب سے پہلے اگر ہم صرف اسلام کے اہم رکن حج پرنظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر سے تقریباً تیس لاکھ افراد حج کے فرائض کی ادائیگی کرتے ہیں جس کے لیے مجموعی طور پر لاکھوں روپے کی رقم خرچ ہوتی ہیں، اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں افراد جو کہ ٹریول ایجنسیوں کے ذریعے روزگار کا حصول کرتے ہیں، ان کی آمدن میں حج کے موقع پر اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح جن ائیر لائن کمپنیوں سے سفر کر کے حاجی اپنی منزل پہنچتے ہیں اُن کمپنیوں کی اسپیشل حج سروس سے ائیر لائن کی سالانہ آمدن بڑھتی ہے جس سے وہ تمام ادارے معاشی طور پر مزید مستحکم ہوتے ہیں، مزید یہ کہ لاکھوں کی تعداد میں یہ حجاج کرام جب مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پہنچ کرجن رہائشی ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں اس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار چلتا ہے، جس سے ملازمین سے لیکر ہوٹل مالکان تک کی آمدن مستحکم ہوتی ہے اور کھانے پینے ، ٹرانسپورٹ  کے استعمال اور دیگر اشیاء کی خریداری سے پیسہ مارکیٹ میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ آتا ہے جس سے معیشت میں بہتری آتی ہے، پھر ان حجاج کے لیے قربانی کے جانوروں کا بھی خاص اہتمام ہوتا ہے جس کی خرید و فروخت سے لے کر کٹائی تک کے معاملات سے لوگوں کی خاصی تعداد اپنے روزگار کا پہیہ چلانے میں مصروف عمل رہتی ہے، یہ تو سنّت ابراہیمی علیہ السلام کا صرف ایک معاشی پہلو ہے جو کہ حج کی ادائیگی سے عمل میں آتا ہے۔

دوسری جانب جو مسلمان حج کی ادائیگی کے لئے نہیں جا سکتے وہ اپنے رہائشی مقام پر ہی قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، یوں دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان قربانی ادا کرتے ہیں، اگر ہم بات کریں صرف اپنے ملک پاکستان کی تو یہاں امیر طبقے سے لے کر غریب طبقہ تک قربانی کے اس موقع سے معاشی طور پر مستفید ہوتا نظر آتا ہے، سب سے پہلے بات کی جائے قربانی کے جانوروں کی تو گائے، بکرے اور اونٹ کی قربانی کے لیے پہلے صرف بیوپاری حضرات جانور مویشی منڈیوں میں فروخت کیا کرتے تھے لیکن بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث اس کاروبار میں بڑی تعداد میں  عام لوگوں نے حصہ بھی لیا، جس میں باقاعدہ طور پر کیٹل فارم کھول کر خریداروں کی فرمائش کے مطابق جانوروں کو پورے سال پالا جاتا ہےاور عیدِ قرباں کے دنوں مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے، گائے ہوں یا بکرے تمام مویشیوں کی وزن اور خوبصورتی کے حساب سے قیمتیں لگائی جاتی ہیں، مجموعی طور پر اس کاروبار سے وابستہ تمام حضرات معاشی ترقی پاتے ہیں اور آئندہ کسی کاروبار میں حصہ لینے کے لیے مزید مستحکم ہوتے ہیں، جبکہ ملکی سطح پر بات کی جائے تو پاکستان اب بھارت سے مویشی جانوروں کی درآمد بھی کرتا ہے اور عرب ممالک میں قربانی کے جانوروں کی برآمد بھی کرتا ہے، جو کہ ملکی معیشت کے لیے ایک فائدہ مند عمل ہے، مزید آگے بڑھتے ہیں تو جانوروں کی خریداری کے بعد انہیں مویشی منڈی سے رہائشگاہ تک لانے کے لیے گاڑیاں موجود ہوتی ہیں جو کہ منہ مانگے دام وصول کرتی ہیں اور موقع کی مناسبت سے یہ ڈرائیور حضرات بھی خوب روزگار جمع کرتے ہیں، ٹرانسپورٹ کی یہ سہولت فراہم کرنے والے حضرات عمومی طور پر لوئر و مڈل کلاس سے وابستہ ہوتے ہیں۔

جانوروں کے چارے کی خریداری :

اب آتے ہیں جانوروں کے لیے چارے کی طرف، تو ملک میں موجود کروڑوں جانوروں کے لیے ہر شہر کی تقریباً ہر گلی میں چارے اور جانوروں کے لیے دیگر ضروریات کے سامان کی فراہمی موجود ہوتی ہے، ان میں بیشتر لوگ مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور حسبِ معمول یہ لوگ بھی سیزن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے روزگار میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور نسبتاً ان کی معیشت میں بھی بہتری آتی ہے،۔

کٹائی کے لیے قصاب :

 عید کے دن سب سے زیادہ ضرورت لوگوں کو جانور قربان کرنے کے لئے قصاب کی ہوتی ہے، پروفیشنل سے لے کر اناڑی قصائی ہر کوئی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ہُنر کا اظہار کرتا ہےاور روزی کماتا ہے، یوں اسکی معیشت کی سا  ئیکل بھی چل پڑتی ہے۔

جانور کی کھالیں :

کٹائی کے بعد قربانی کے جانوروں کی کھال وہ اہم چیز ہے جو ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے، ملک بھر میں قربان ہونے والے کروڑوں جانوروں کی کھالوں سے ٹیکسٹائل کمپنیوں کا پہیہ مزید تیزی سے چلتا ہے جس سے اوڑھنے، پہننے سمیت دیگر استعمال کی چیزیں بنائی جاتی ہیں اور اندرون ملک سمیت بیرونی ممالک میں فروخت کی جاتی ہیں، سب سے اہم چیز جو معاشی طور پر فائدہ مند ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ بیرون ملک مقیم لاکھوں پاکستانی باہر سے قربانی کے لیے رقم کی منتقلی کرواتے ہیں جو کہ ملک کی سالانہ آمدن میں معمولی اضافے کا باعث بنتی ہیں.

دوسری جانب اللہ کی رضا کے لیے جذبہ ایثار کے ذریعے قربانی کا گوشت اُن لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے قربانی کرنے سے محروم ہو تے ہیں، یہ عمل معاش کی مساوی تقسیم کے اصول کو اجاگر کر کے احساس محرومی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو تا ہے۔

باربی کیو پارٹی :

اب ایک نظر ڈالتے ہیں عید کے دنوں میں منعقد ہونے والی دعوتوں پر تو ایک طرف جہاں لوگ اپنے عزیز رشتہ داروں کے گھروں کا رُخ کرتے ہیں،اسی طرف انہی دعوتوں میں کھانا بنانے کے لیے آج کل ریسٹورنٹ نے عوام کو سروس دینا شروع کر دی ہیں، قربانی کا گوشت ریسٹورنٹ والوں کو دینے پر تیار شدہ مختلف اقسام کے کھانے کی ڈشیں بھاری رقم کے عوض وصول کی جاتی ہیں، اور اس سے ریسٹورنٹ والے حضرات بھی معاشی طور پر مستفید اور کاروباری لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیں۔

اب آتے ہیں شہر بھر میں صفائی کی جانب، تو  آلائشوں اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کے لئے شہری و صوبائی انتظامیہ نے گزشتہ سالوں سے یہ کام مختلف نجی اداروں کو ٹھیکے پر دینا شروع کر دیا ہے، تاہم اب بھی یہ ذمہ داری حکومتی اداروں کی ہی ہے، لیکن ٹھیکہ پر دینے سے بہت سے نچلے طبقے کے افراد کو روزگار مل جاتا ہے اور وہ چند روز تک اپنی ضروریات کے اخراجات بآسانی کرپاتے ہیں۔

یہ روداد صرف ایک مُلک پاکستان کی ہے، اسی طرح کی معاشی سرگرمیاں دنیا بھر کے مُسلم ممالک میں عیدِ قُرباں کے محض چند دنوں میں باقاعدہ دیکھی جاتی ہیں اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ سنّتِ ابراہیمی علیہ السلام فقط ایک عبادت ہی نہیں بلکہ اپر کلاس و مڈل کلاس سے لے کر لوور کلاس تک کے تمام طبقات کی معیشت کو مضبوط کرنے اور روزگار میں اضافے کا نظام ہے کہ جس کے ذریعے ربّ کائنات اس دنیا میں موجود کروڑوں لوگوں کے رزق کا اہتمام بظاہر نظر آنے والی اِس چھوٹی سی عبادت میں محفوظ کر دیتے ہیں۔

اُوپر بیان کی جانے والی تمام کاروباری سرگرمیوں میں بعض اوقات بد نظمی و غفلت کی وجہ سے کچھ لوگوں کو خسارے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن بحیثیتِ مجموعی اِن تمام چیزوں سے زیادہ تر لوگ فائدہ مند اور معاشی طور پہ مستحکم ہوتے نظر آتے ہیں جبکہ بعض چیزوں میں اگر ریاستی و انتظامی مداخلت بہتر انداز میں کی جائے اور نظام کو بہتر بناتے ہوئے عوام کو سہولیات فراہم کی جائیں تو کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ تمام صارفین کو بھی برابر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں