ترک معیشت کو خطرات ،پاکستانی میدان میں آگئے

پہلے اقوام جنگیں لڑ کر اور بے تہاشا خون کی ندیاں بہا کر جنگ میں فتحیاب ہوا کرتی تھیں مگر اب موجودہ دورمیں کسی بھی ملک کی معیشت کو تباہ کرکے آپ بآسانی اس کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں جیسا کہ ہم افغانستان میں نام نہاد حکومت کا حال دیکھ رہے ہیں۔سپرپاور وہاں اپنی مرضی کے حاکم لاتی ہے جسے وہ خود چاہتی ہے نہ کہ عوامی امنگوں پرچنے گئے حکمران مگر گزشتہ 17سال سے امریکا کی جنگ میں صرف 49فیصد حصہ پر افغان حکومت کے ساتھ قابض ہوسکی ہے جبکہ 51فیصد علاقے اب بھی افغان طالبان کے پاس ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جنگیں ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے ہی نہیں بلکہ عزم و حوصلے سے بھی لڑ ی جاتیں ہیں جو امریکی عوام اور ان کے حکمرانوں کے پاس نہیں،گزشتہ دنوں ترکی جانب سے بغاوت کے جرم میں ایک امریکی پادری کو سزا سنائی گئی، جس پر امریکا تلملا اٹھا سپرپاورنے نہ صرف ترکی کو دھمکی دی اور ترک حکومت پر بھرپور دباؤ ڈالا جس کا کوئی فرق نہ ترک انتظامیہ پر پڑا اور نہ عالم اسلام کے مقبول ترین لیڈر طیب اردگان پر ۔
امریکی انتظامیہ کی جانب سے پادری برونسن کی رہائی کی کئی کوششیں کی گئیں، جب ترک حکومت نے اس معاملے کو نظر انداز کیاتو عالمی سپر پاور نے ترکی پر معاشی پابندیاں لگاناشروع کر دیں،جس سے راتوں رات ترک کرنسی”لیرا”عالمی منڈی میں شدید گراوٹ کا شکار ہوگئی اور ترک معیشت کو شدید نقصان پہنچا ،امریکاکے اس اقدام پر ترک حکومت سیخ پاہوگئی اور اس نے سپرپاور کو دو ٹوک پیغام دیا اور پھر دنیانے دیکھا کہ ترکی نے امریکا کو ترکی بہ ترکی جواب دیا اوریوں معیشت کی اس جنگ کا آغاز ہوگیا۔
اصل بات کیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے ،امریکااس وقت بھی دو بڑی سپر پاورزسے لڑرہا ہے جن میں چین اور روس شامل ہیں جبکہ ترکی کے ساتھ امریکا کی بے جا اقتصادی جنگ امریکاکو کئی نقصانات کا پتہ دے رہی ہے ترکی امریکا کا نیٹو اتحادی بھی ہے یاد رہے کہ امریکا کے بعد ترکی واحد ملک ہے جس کی سب سے زیادہ فوج نیٹو میں شامل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اقدام سوچا سمجھا ہے امریکااب تک اپنے انہی دوستوں پر حملہ آور ہواہے جس نے ابھی تک عالمی جنگوں اور نیٹو میں اس کا ساتھ دیا ہے امریکا بیک وقت 4ملکوں سے اپنے تعلقات خراب کر چکا ہے ان میں ایران سرفہرست دوسرا نمبر چین،تیسرا نمبر ترکی جبکہ چوتھا اور آخری نمبر روس کا ہے ۔
امریکاکا خفا ہونا کیا ایک پادری کیلئے ہے یا کچھ اور؟ توترکی کے خلاف پابندیوں کو اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا کہ جس کے تحت اس سے پہلے روس اور ایران کے خلاف پابندیاں عائد کی گئیں۔ اردگان کی حکومت اپنی خارجہ پالیسی کو ان خطوط پر استوار کر رہی ہے جس سے مشرق وسطیٰ کے علاقے میں امریکی مفادات کو کسی حد تک نقصان پہنچ رہا ہے۔ ترکی نے شام میں روس اور ایران کے ساتھ تعاون کرکے جنوبی سرحد پر اپنے مفادات کو یقینی بنا لیا ہے۔ ترکی کے بار بار اصرار کرنے کے باوجود امریکہ، شام میں اپنی پراکسی ’’شامی کردش YPG ملیشیا‘‘ کو استعمال کرتا رہا۔ ’’شامی کردشYPG‘‘ ترکی میں ’’کردشPKK‘‘کی اتحادی ہے، ترکی اس تنظیم کو غیر قانونی قرار دے کر اس کے خلاف فوجی کارروائی بھی کرتا رہا ہے، جبکہ ترکی کی حکومت روس سے S_400 میزا ئیل سسٹم بھی خرید رہی ہے۔ ترکی کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف پابندیوں کی پروہ نہیں کرے گا، کیونکہ ترکی اپنی توانائی کے لئے بڑی حد تک ایران پر انحصار کرتا ہے۔
روس کے ساتھ ساتھ ترکی، چین کے ساتھ بھی کئی طرح کے اہم معاشی معاملات میں منسلک ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہیں وہ اہم وجوہات جن کے باعث امریکہ، ترکی کے خلاف پابندیاں عا ئد کر رہا ہے، انہی وجوہات کے باعث امریکہ نے 2016ء میں ترکی میں اردگان کا تختہ الٹنے کی در پردہ حمایت بھی کی تھی۔یہی وہ اقدام ہیں جو بظاہر ترکی پر دباؤ ڈال رہے ہیں جس کی وجہ سے ترکی کی کرنسی شدید مشکلات کا شکار ہے۔ ایک جانب پاکستان سمیت عالم اسلام کے دیگر ممالک بھی ترکی کا بھرپور تعاون کررہے ہیں وہیں امریکا مخالف اقدامات بھی شروع کردیئے گئے ہیں یاد رہے کہ ترکی روہنگیائی مسلم ، فلسطین میں دوریاستی حل، شامی مہاجرین کی امداد اور امریکا کا بیت المقدس میں سفارت خانے کھولنے کے اقدام قابل ذکر ہیں جس کی وجہ سے ترک حکومت تقریبا تمام عالم اسلام میں مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے۔
ایک جانب ترک حکومت کو امریکی چیلنج درپیش ہے تو دوسری جانب شامی مہاجرین جن کو یورپی ممالک نے دھکے دیئے تو ترک حکومت نے اپنے گھر کے دروازے کھولے اور پناہ گزینوں کے زخموں پرپھایا رکھا ،طاقت کے نشے میں چور امریکی انتظامیہ جو خود کو دنیا کا رہبر بتاتے ہیں مگر خود امریکی عوام ان کو اپنے اوپر مسلط کئے گئے حاکم بناتے ہیں۔
پاکستان میں ترکی حکومت کو سپورٹ کرنے کیلئے اپنے تئیں ہر بچہ بوڑھااور جوان تیارہے مگر اسے پاکستانی حکومت کی طرف سے اپنے دوست ملک کے لیے ابھی تک کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو کراچی یونین آف جرنلسٹ دستور گروپ نے ایک باقائدہ کمپین کا آغاز کیاجس کو عوام میں خوب مقبولیت ملی۔سوشل میڈیا کے ذریعے شروع کی گئی امریکا مخالف اور ترک عوام سے پیار کی تحریک اس وقت ہر گھر تک پہنچ چکی ہے۔کراچی پریس کلب کی جانب سے ترکی پر عائد بے جا پابندیوں پر امریکاسے احتجاج کرتے ہوئے ٹرکش لیرا اور ترک مصنوعات کی خریداری کی جبکہ امریکی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا،عوام میں شعور بیدار کرنے کیلئے مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ترک حکومت کے ساتھ دینے کی مہم کو مزیدتیزکردیا گیا ہے۔
اب نظریں ترک حکومت کے اوپر مرکوز ہیں کہ وہ کیسے عالمی سامراج سے ٹکراتا ہے اور اس کوشکست کے کس دھانے پر پہنچاتا ہے سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ترکی امریکا کی معاشی جنگ کی بھینٹ چڑھ جائے گا یا نہیں۔۔۔

دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں