کل آپ کا ہوسکتا ہے

جہانزیب راضی نےجماعت اسلامی کی انتخابی سیاست کے حوالے سے اپنے خیالات رقم کیے ہیں،یہ ان کی ذاتی رائے ہے ۔اگر کوئی بلاگر ان کے خیالات پر کوئی تبصرہ کرنا چاہے تو  بلاگ کے صفحات حاضر ہیں۔ادارہ

آپ اخوان المسلمون کی مثال لے لیں ۔ اخوان المسلمون مصر کی اور  عالم عرب کی سب سے بڑی سیاسی  و دینی تحریک ہے ۔ امام حسن البناءنے ۱۹۲۸ میں اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تنظیم مصر سمیت سارے عرب میں سرایت کر گئی ۔ ۱۹۴۶ میں حسن البنا ءنے اپنی تنظیم پر پابندی کے خلاف حکمران وقت کو خط لکھا اور اس خط میں واضح الفاظ میں لکھا کہ اخوان المسلمون مصر کی سات کروڑ اور عالم عرب کے تیس کروڑ لوگوں کی نمائندہ جماعت ہے ۔ ہم مصر کی سات کروڑ  آبادی میں تیس لاکھ کی تعداد میں موجود  ہیں ۔

حسن البنا ءنے محض ۸ مہینوں میں ۵۵ سے زیادہ  حلقوں میں اپنی تنظیم سازی مکمل کرلی ۔ اخوان المسلمون کی پذیرائی کا یہ حال ہے کہ مصر سمیت پورا عالم عرب اس بات سے خوف کھاتا ہے کہ اگر اخوان المسلمون کو ذرا سا بھی موقع دیا گیا تو یہ پوے عالم عرب پر چھا جائے گی ۔

اس خوف کی وجہ سے پورے خلیج میں اخوان المسلمون پر شدید ترین پابندیاں ہیں جبکہ انکا لٹریچر سرے سے رکھنا ہی بذات خود ایک جرم ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اور ان شدید پابندیوں کے ساتھ اخوان کو جب جب بھی موقع  ملا انھوں نے ہر مرتبہ الیکشن میں اپنے نام اور نشان کے ساتھ حصہ لیا ۔ ۲۰۱۱ میں عرب بہار کے بعد انھوں نے “جسٹس اینڈ فریڈم پارٹی” کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی انتخابات میں گئے اور ۵۱ فیصد اکثریت کے ساتھ محمد مرسی کو صدر منتخب کروالیا ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا ۔

آ پ ترکی کو لے لیں ۱۹۹۷ میں فوج نے نجم الدین اربکان کی فضیلت پارٹی کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا ۔ نجم الدین اربکان تاحیات نظر بند کردئیے گئے  جبکہ ان کی تنظیم کے سرکردہ رکن اور استنبول کے مئیر طیب ایردوان” انتہا پسندانہ” نظم سر عام جلسے میں پڑھنے کے جرم میں تین ماہ کی قید میں ڈال دئیے گئے ۔

انھوں نے جیل کاٹی اور پھر کمال کردیا ۔ پانچ سال تک جنوں کی طرح اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے پوری امانت اور دیانتداری کے ساتھ استنبول کو دنیا کے بہترین شہروں کی صف میں کھڑا کردیا ۔ ۲۰۰۱ میں “انصاف و ترقی پارٹی” کے نام سے ایک “سیکولر” تنظیم کی بنیاد رکھ دی ۔ اب کی بار کمال دکھانے کی باری عوام کی تھی ۔عوام نے ۴۶ فیصد کی تعداد میں انھیں منتخب کر کے اسمبلیوں میں پہنچا یا اور پھر ترکی کی ترقی کا گراف آسمان کو چھونے لگا ۔۲۰۰۲ کے بعد ۲۰۰۷ پھر ۲۰۱۲ ، ۲۰۱۷ اور اب ۲۰۱۸ کے انتخابات میں ۵۲ فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر نہ صرف طیب ایردوان دوسری دفعہ ترکی کے صدر منتخب ہوچکے ہیں بلکہ ان کی پارٹی بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے ۔

تیونس میں زین العابدین بن علی کی ۲۱ سالہ آمرانہ حکومت کے بعد عرب اسپرنگ کے نتیجے میں عوام نے تیونس کی اسلام پسند جماعت النہضہ کو ۳۷ فیصد ووٹوں کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بنا کر اسمبلیوں میں بھیجا ۔ ۲۰۱۴ میں ہونے والے دوسرے انتخابات میں النہضہ ۲۷ فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر کھڑی تھی اور پارٹی کی اعلی قیادت کو بخوبی اندازہ ہوچکا تھا کہ اسلام کو نعروں سے نکال کر “عمل” کی دنیا میں لانا ضروری ہے ۔ ورنہ یہ ۲۷ فہیصد مزید ۱۷ فیصد میں تبدیل ہوجائگا یا کردیا جائیگا ۔ اور اس طرح راشد الغنوشی کی النہضہ پارٹی نے خود کو ایک” لبرل” جماعت کے طور پر تیونس کے عوام کے سامنے پیش کردیا ۔

مصر کی اخوان المسلمون ، ترکی کی فضیلت اور بعد ازاں انصاف و ترقی پارٹی ، تیونس کی النہضہ ، فلسطین کی حماس اور ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت ۲۰ سال بعد پہاڑوں میں سے واپس آکر سیاسی عمل میں شریک ہونے والی افغانستان کی حزب اسلامی ۔ نظریاتی طور پر یہ تمام جماعتیں ، طیب ایردوان سمیت حکمت یار تک یہ تمام ہی شخصیات جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلی مودودیؒ کے نظریاتی شاگرد ہیں ۔ یہ تمام جماعتیں اپنا فکری نظریہ جماعت اسلامی کے لٹریچر سے حاصل کرتے ہیں لیکن آپ ان کی دور اندیشی ملاحظہ کیجئیے ۔ ان کے تھنک ٹینکس اور ان کے ذمہ داران وقت اور حالات کے مطابق اپنے  آ پ کو ڈھالنے کا ہنر جان چکے ہیں ۔

اگر آپ سیاست میں مسلسل زوال در زوال کا شکار ہیں تو پھر آپ کو اپنے ان بھائی بندوں سے مشورہ ضرور کرلینا چاہئیے ۔ اگر آپ کی دعوت ، تربیت ، تبلیغ اور خدمت عوام کو ذرہ بھر بھی متاثر کرنے میں ناکام ہے تو اس پر سوچنا جماعت اسلامی کے تھنک ٹینکس کا کام ہے ۔پہلے آئی جے آئی پھر اسلامک فرنٹ پھر بائیکاٹ  پھر متحدہ مجلس عمل پھر بائیکاٹ پھر انتخابات اور بائیکاٹ ایک ساتھ اب  ایک دفعہ پھر اتحاد ۔

کبھی ترازو ، کبھی سائیکل ، کبھی کار ، کبھی کتاب ، کبھی پھر ترازو اور ایک دفعہ پھر کتاب ۔ مستقل مزاجی اور “فوکسڈ ” نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جماعت اسلامی سیاسی طور پر بری طرح انتشار کا شکار ہوچکی ہے ۔ لوگ آپ کی دیانتداری پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن بطور سیاسی جماعت آپ پر بھروسہ کرنے کے لئیے تیار نہیں ہیں ۔ اپنے آپ کو “انڈر اسٹیمیٹ”   کرنے “اینٹی اسٹیبلشمنٹ” بنانے اور “شارٹ کٹس” مارنے کی بے جا خواہشات کا نتیجہ یہ نکلا  کہ ۲۰۱۳ میں ایک بجے تک ترازو کے نشان پر بائیکاٹ کرنے والی جماعت اسلامی جو تین سیٹوں کے ساتھ اسمبلی میں براجمان تھی ۔ اب ان سیٹوں سے بھی ہاتھ دھو کر صرف اتحاد ، اپوزیشن اور مولانا فضل الرحمن کے سارے گناہوں کا بوجھ اپنے سر لے کر اسمبلیوں سے باہر موجود ہے ۔

خدارا ! الیکشنز کو الیکشنز کی طرح لیں ۔ ڈیولیپمنٹ اور پرفارم کرنے کے لئیے الیکشن میں جائیں ۔ اس کو حق و باطل کا معرکہ ، طاغوت کے تابوت میں آخری کیل اور کفر و اسلام کی جنگ نہ بنائیں ۔ طیب ایردوان بنیں نعروں اور حلیوں میں اسلام لانے کے بجائے عمل میں اسلام لائیں ۔ ہندووں سے لے کر مشرکوں تک آپ کو سب کے ووٹوں کی ضرورت ہے ۔ لبرلز اور سیکولرز کے جنازے نکلوانے کے بجائے انھیں محبت اور پیار کے ساتھ اپنی تحریک کا حصہ بنائیں ۔ الخدمت کو” کانٹریکٹ” پر خدمت کا ٹھیکہ دینے کے بجائے کارکنان اور ذمہ داران کو “مرجع خلائق” بنائیں ۔ الخدمت کے بجائے دعوت و تربیت پر پیسہ لگائیں ۔ الیکشن سے دو مہینے پہلے موسمی پرندوں کی طرح اڑانیں بھرنے کے بجائے کم از کم ۲۰ سال کی بھرپور منصوبہ بندی کریں اور حالات کے لحاظ سے ان میں تبدیلی لے کر آئیں ۔

اگر اتنی فکری اور نظریاتی جماعت کی یہی بچکانہ سوچ رہی تو جماعت اسلامی آنے والے الیکشنز میں “نشان عبرت” بن کر رہ جائیگی  اور آپ کا نام سیاسی اعتبار سے تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائیگا ۔ اپنے تھینک ٹینکس کو منظم کریں ۔ خود کو انڈر اسٹیمیٹ نہ کریں ۔ مستقل مزاجی کے ساتھ فوکسڈ ہوکر اپنے نام اور نشان کے ساتھ لڑتے رہیں ۔آپ میں ڈیلیور کرنے  اور  ماحول بنانے کی صلاحیت موجود ہے ۔ آپ کا کارکن محنتی ، باصلاحیت اور قابل ہے لیکن قیادت کے فیصلوں کی وجہ سے مایوس ہوچکا ہے ۔ آج نہیں تو کل ضرور آپ کو ہوسکتا ہے ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں