کسی بھی معاشرے کی کامیابی و کامرانی میں نوجوان نسل کا اہم کردار ہوتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی ، مذہبی، لسانی ،قومی و دیگر تحریکیں نوجوان نسل کی حمایت سے ہی کامیاب و مقبول ہوتی ہیں۔ اسلام کی ترویج و تبلیغ میں بھی نوجوانوں کی خدمات سے سرموئے انحراف نہیں کیا جاسکتا ۔نبی اکرم ﷺ کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ نوجوانان اسلام نے اپنے وقت کی عظیم طاقتوں کو سرنگوں کیا ۔یہ نبوی تعلیم و تربیت کی برکت کا نتیجہ ہی تھا کہ ایک غیرمنظم ٹولی ایک منظم اور باشعور جماعت کی شکل اختیار کرگئی اور زمانے میں خیر کوقائم کرنے اور شرکے سد باب کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔حضرت اسامہ بن زید،حضرت خالد بن ولید ، حضرت عمروابن العاص، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ،صلاح الدین ایوبی، محمد الفاتح اور محمد بن قاسم نے اپنے زور بازو سے باطل قوتوں کو مسمار کرڈالا۔ان نوجوانوں میں جذبہ حریت ،اعتماد ،استقلال ،بلند نگاہی،درست قوت فیصلہ ،شعور و بالیدگی جیسے قائدانہ اوصاف صرف اور صرف نبوی تعلیم وتربیت کا ہی نتیجہ تھے۔ دنیا میں جتنے بھی انقلابات بپاہوئے ہیں ان کی کامیابی ا ور کامرانی میں نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ تحریک خلافت ا ور جد وجہد آزادی میں بھی نوجوان کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ نوجوانوں کی قوت کے دھار وں کو صحیح سمت ، شعورا ور قائدانہ کردار تعلیم و تربیت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔
تعلیم صرف غوغائے علم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا واضح راستہ ہے جس پر گامزن ہو کر آدمی کامیابی اور خوشحالی کو گلے لگاتا ہے۔تعلیم کسی بھی ملک و قوم کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہوتی ہے۔دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے بھی مختلف معیار ہوتے ہیں جن سے گزر کر نئی نسل یا تو ایک متوازن،سماج سے ہم آہنگ فکری سانچے میں ڈھلتی ہے یا پھر ایک غیر متوازن اور سماج سے غیر آہنگ غیر پسندیدہ شخصیت کا وجود ظہور میںآتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر تعلیم کے معیار پرہی انسانی زندگی کے دیگر معیار استوار ہوتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی معیار ہماری زندگی ،حالات اور رویوں کے معیار کاغماز ہوتا ہے۔ تعلیم اور قیادت جہاں معاشرے کو فکر ی آزادی عطا کر تی ہے وہیں یہ آدمی کو ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا کام بھی انجام دیتی ہے۔جو تعلیم اور قیادت آدمی کو ترقی ،تمدن اور تہذیب کی راہوں پر گامزن نہ کرسکیں وہ ملک و قوم کی سربلندی کا باعث نہیں ہوسکتی۔آج قیادت کا بحران صرف سیاسی میدان تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ بحران زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتاہے۔ زندگی کے مختلف شعبہ جاتمیں اچھے ماہرین پیداکرنے میں ہماری ناکامی کی وجہ بھی نئی نسل کی قائدانہ صلاحیتوں کی شناخت ،اعتراف و فروغ میں ہمارا معاندانہ رویہ ہے۔ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے مطابق لیڈر شپ اور لرننگ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ ایکٹیو ازم پر وہ زور دے کر کہتا ہے کہ تعلیمی اداروں کو نوجوانوں میں قائدانہ صلاحیتوں کے فروغکے لئیاستعمال کیاجائے۔ماضی قریب میں امریکہ میں طلبہ ایکٹیو ازم کے نتیجے میں بارک حسین اوبامہ ا سٹوڈنٹ لیڈر کی حیثیت سے سیاسی سفر کرتے ہوئے قصر ابیض (White House)کا پہلا سیاہ فام مکین (امریکی صدر)بن گیا۔ہمارے ملک کے سیاسی میدان میں جو مقبول عام نام ہیں،اُن کی بنیاد یں بھی دور طالب علمی میں قائدانہ صلاحیتیوں کے فروغ کے باعث ہی استوار ہو ئی ہیں۔ ملک کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بیشتر طلبہ اسٹوڈنٹ لیڈر شب کے ذریعیہی اصل سیاسی میدان میں داخل ہوئے ہیں۔آج کے سماجی ،سیاسی ،معاشرتی اور تعلیمی مسائل کے پیش نظرطلبہ میں قائدانہ صلاحیتوں کی آبیاری بے حد اہم ہے ۔ طلبہ میں قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ میں معاون مشاغل اور سرگرمیوں کو شامل نصاب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
تعلیمی نظام جن اقدار کو رواج دیتا ہے طلبہ اپنی زندگی میں انہی اقدار کو اختیار کرتے ہیں۔ طلبہ میں قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ اور ان کی شخصیت کیتعمیر کے لئے اسکولی سطح پر نہایت سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اسکول کی زندگی طلبہ کی ذہنی ،فکری رویوں کی تعمیر ،ترقی ، تبدیلی اور ارتقاء کا نقطہ آغاز ہوتی ہے۔ اساتذہ طلبہ کی زندگی کے اس اہم دور کو ضائع نہ کریں۔ بچوں کی قائدانہ صلاحیتوں کی نشو ونما کے ذریعے معاشرے کو امن و شانتی کا گہوارہ بنائیں۔ طلبہ کی زندگی استاد کی تعلیم و تربیت کی زیر اثر پروان چڑھتی ہے۔ طلبہ اپنی زندگی کے ہرشعبے میں استاد کی رہنمائی و رہبرئی کے محتاج رہتے ہیں۔ سکندر اعظم سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں والدین سے زیادہ اپنے استاد کی تکریم و عزت کرتا ہے۔ملاحظہ فرمائیے سکندر اعظم کا وہ جواب جوآج تاریخ کا ایک روشن مکالمہ ہے۔ ’’ والدین اولاد کوآسمان سے زمین پر لاتے ہیں جبکہ استاد اپنے شاگرد کو زمین کی پستیوں سے آسمان کی بلندیوں پر فائز کرتا ہے۔‘‘ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ کے لئے لیڈرشب کوالیٹی پروگرامس کا انعقاد ناگزیر ہے ۔ طلبہ میں قیادت کے مطلوبہ کردار کے حصول کے لئے محکمہ تعلیمات اپنا گرانقدر کردار پیش کرے ۔ اساتذہ مسائل کا شکوہ اور وسائل کی قلت کا رونا چھوڑ کر دستیاب سہولتوں اور تعلیمی نصاب کو بہتر طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے جامع منصوبہ بندی ،مناسب تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی ، مسلسل رہنمائی اور رہبری کے ذریعہ طلبہ میں قائدانہ صلاحیتوں کی نشوونما میں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور تجربات کو صرف کریں۔ کسی بھی ملک کی ترقی اورکامرانی میں قائدانہ صلاحیتیں آکسیجن کا کردار ادا کرتی ہیں۔دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی ترقی و کامرانی میں تعلیم اورلیڈرشپ (قیادت) کا کلیدی کردار رہا ہے۔ملک و قوم کی پائیدار ترقی و استحکام کے لئے طلبہ میں لیڈرشپ کوالیٹی(قیادت کے ہنر) کو فروغ دینا اشد ضروری ہے۔نئی نسل میں قیادت کے اوصاف پیدا کیئے بغیر ملک کو استحکام اور دیرپا خوش حالی فراہم کرنا بے حد دشوارہے ۔طلبہ میں علم و دانش اور قائدانہ صلاحیتوں کے فرو غ کے ذریعے ملک و قوم کے زوال کو کمال میں بدلا جاسکتا ہے۔چین کی ایک مشہور کہاوت ہے جو تعمیرو ترقی کے اسی جذبے کی عکاس ہے۔ ’’ اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہو تو مکئی اگاؤ، اگر دس سال کی منصوبہ بندی کرناچاہتے ہو تو درخت اگاؤ اور اگرصدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو اپنے عوام کی تربیت کرو انھیں بہترین تعلیم دو‘‘۔ملک کی ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کی سیاست اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر عمر رسید ہ اصحاب کا غلبہ ہے اور یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ بڑی عمر کے لوگ تبدیل نہیں ہو سکتے۔ جب تک ذہن و سوچ کا اندازہ نہیں بدلتا، حالات نہیں بدل سکتے۔ حالات کا فکری تبدیلی کے بغیربدلنا ناممکن ہے۔ اسی لئے تبدیلی کے لئے ہمیں عمر رسیدہ افراد کی طرف دیکھنے کے بجائے نئی نسل پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ سیاست اور اعلیٰ عہدوں پرعمر رسیدہ اصحاب کے غلبے کی وجہ بھی درحقیقت نئی نسل میں قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے ۔نئی نسل میں قائدانہ صلاحیتوں کے فقدان کے سبب ہی تشدد اور عدم برداشت کا رجحان فروغ پذیر ہے۔تشدد، منفی رویوں اور عدم برداشت جیسے غیر پسندیدہ رجحانات پر طلبہ میں قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے۔
قیادت کے تعمیری عناصر میں علم اور کردار کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ملک و قوم کی زمام کارنئی نسل کو سونپ نے سے پہلے انھیں ایک خدا ترس اور نیک انسان بنانا ہوگا،مستقبل سازی اور مثبت تعمیری اوصاف سے متصف کرنا ہوگا،صلاحیتوں کو سمت اور رفتا ر دینی ہوگی،احترام انسانیت کے درس کے ساتھ عزت نفس کے جوہر سے انھیںآراستہ کرنا ہوگا،شخصی مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے کی صلاحیت کو پروان چڑھانا ہوگا،ایثار و قربانی کے جذبے سے آراستہ کرناہوگا،صبر و تحمل کا مادہ پیدا کرنا ہوگا،تشکیک کی گلیاروں سے نکال کر اعتماد کے راہوں پر گامزن کرنا ہوگا،رواجی ذہن و فکر کے شکنجوں سے آزاد کرنا ہوگا،ارتقاء ،ترقی اور کامیابی کے حقیقی معنی سے انھیں آگاہ کرنا ہوگا، قوت فیصلہ اور قوت نافذہ کی صلاحیت ان میں پیداکرنی ہوگی۔معیاری تعلیم اور بہترین تربیت کے ذریعے ہی ان ناممکنہ امور کو ممکن بنایا جاسکتاہے ۔ تعمیرکے اس جذبے سے مامور انسان کو معمار قوم اور عرف عام میں استاد کہاجاتا ہے۔نصاب ایک بے جان شئے ہے اور اس میں استاد روح پھونکتا ہے۔جہاں انسان سازی کا کام انجام پاتاہے اسے اسکول ،مدرسہ یا تعلیمی ادارہ کہتے ہیں۔یاد رہے کہ تعلیم گاہیں فقط معلومات فراہم کرنے والی منڈیاں نہیں بلکہ نئی نسل کی ذہنی، جسمانی ا و روحانی تربیت کی محفوظ پناہ گاہیں ہوتی ہیں۔ حقیقی تعلیمی ادارے صرف پڑھائی نہیں طلبہ کی شخصیت و کردار کی تعمیر کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔تعلیمی اداروں کو جسمانی ،روحانی اور تربیت فراہم کرنے والے مراکز میں بدلنا اسی وقت ممکن ہے جب اساتذہ ذہنی ا و روحانی طور پر فعال ہوں۔پرائمری تعلیم سے قطع نظر ہماری تمام تر توجہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری ایجوکیشن پر مرکوز رہے جس کی وجہ سے بچوں کی غیر ہموار اور غیر متوازن شخصیت ابھر کر سامنے آرہی ہے۔یہ حقیقت ہم سبجان کر بھی انجان بنے ہیں کہ جب تک بنیاد پختہ نہ ہو کوئی بھی عمارت مضبوط اور پائیدار نہیں ہوسکتی۔پرائمری سطح پر مدارس میں ایسی سرگرمیاں شامل نصاب کی جائیں جن سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں اور قائدانہ اوصاف کو جلا مل سکے۔
ہندوستانی طلبہ میں قیادت و سیاست کی مقبولیت کارجحان برطانوی نو آباد یاتی نظام کے خلاف آزادی کے شعور اور جدوجہد آزادی کی بدولت پروان چڑھا۔ تحریک آزادی میں طلبہ نے ہر اول دستے کا کام کیا۔ آزادی کے بعد طلبہ قیادت و سیاست نظریاتی بنیادوں پر دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم ہو گئی۔طلبہ میں سیاسی شعور کی آبیا ری اور قومی شعور کو بیدار کرنے والی سیاست آج اپنے جارحانہ غیر تعمیری اور پرتشدد رویوں کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو بیٹھی ہے۔ تعلیمی اداروں کی غلط پالیسیوں، پر تشدد ماحول، آمریت پسندی، مذہبی،لسانی اور علاقائی بنیادوں نے طلبہ میں تخریبی مزاج کو پھلنے پھولنے کے خوب مواقع فراہم کئے جس کے سبب تعلیمی اداروں کے معیار کو کافی نقصان پہنچا ۔ تعصب اورنفرت کے اسی بطن سے عدم برداشت،صوبائی عصبیت اور انتہا پسندی نے جنم لیا۔ تعلیمی اداروں کے غیر صحت مند ماحول سے تعلیمی اداروں میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں محدود ہو تی چلی گئیں اورنوجوانوں کی غیر نصابی صلاحیتوں نکھرنے کے بجائے ٹھٹر کر رہ گئیں۔ میڈل کلاس طبقے کے افراد کے لئے قومی سیاست میں داخلے کے مواقع سیاست میں اقرابا پروری،موقع پرستی اور نظریاتی بیگانگی کی وجہ سے محدودہوتے گئے جس کی وجہ سے قیادت کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا گیا۔ آج ہماری نئی نسل میں قائدانہ صلاحیتوں کاجو بحران یافقدان دکھائی دیتا ہے اس کی وجہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے نئی نسل کی عدم تربیت اور تعلیمی اداروں کی جانب سے دوران تعلیم ان کے سیاسی شعورکی آبیار ی کا فقدان ہے۔
قائدانہ اوصاف کا علم طلبہ کو جب بہم نہ پہنچایا جائیتو سماجی تال میل کا فقدان،متشدد رویہ،سماج کے تیءں فکر مندی کا خاتمہ،مصنوعی وطن پرستی،فرائض کی ادائیگی میں غیر ذمہ دارانہ پن اور دیگر متصادم رویے ظہور پذیر ہونے لگتے ہیں۔مطالعہ،کھیل کود اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی سے طلبہ میں موثر طریقے سے قائدانہ اوصاف پیداکیئے جاسکتے ہیں۔ طلبہ میں تعلیم ،اعلیٰ اوصاف جیسے ایک اچھے شہری ہونے کا احساس،سماجی اقدار سے گہری واقفیت اور دوسروں کی رہبری جیسی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہے۔کھیل کو د کی دنیا میں دوسروں کے لئے جو شخص ایک نمونہ یا ماڈل ہوتا ہے اسے قائد یا لیڈر کہاجاتا ہے۔ایک قائد کا یہ اہم وصف ہے کہ وہ دوسروں کے لئے ایک مثالی نمونہ ہو اور ان میں تحریک ،جوش و ولولہ پیدا کرے۔ایک قائد کی جامع تعریف اور عام فہم تعریف یہ ہے کہ ’’قائد ایک ایسے شخص کا نام ہے جسے نہ صرف راستے کا علم ہوتا ہے بلکہ وہ دوسروں کی رہنمائی کرتا ہے اور خود اسی راستے پر گامزن رہتا ہے۔۔‘‘(A leader is a person who knows the way,shows the way and goes the way)سماجی مفکرین و ماہرین تعلیم مدارس پر زور دیتے ہیں کہ وہ بچوں میں اوائل عمری سے ہی دیگر افراد کو متاثر کرنے والے قائدانہ اوصاف اور انسانی قوت کے سر چشموں کو اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے مناسب طور پر استعمال کرنے کا داعیہ پیدا کریں۔ قائدانہ صلاحیتوں کی شخصی اور سماجی اہمیت کے پیش نظر اساتذ ہ طلبہ میں مطلوب قائدانہ کردار کو پروان چڑھانے،ان کے شخصی اوصاف و کردار کو صحت مند و سماج کے لئے پسندیدہ بنانے میں ایک اعلیٰ فرض شناس رہبر و رہنما کا کردار انجام دیں۔اساتذہ کی جانب سے کیئے جانے والے یہ اقدام نہ صرف طلبہ میں قائدانہ اوصاف پیداکرنے کا سبب بنتے ہیں بلکہدیگر افراد کے لئے رہنمایانہ اصول کا کام کرتے ہیں نتیجتاً شخصی ترقی،مثالی تمدن اوربہترحکمرانی کی خصلتوں کو از خود فروغ حاصل ہوتا ہے۔
یہ نظریہ بالکل درست ہے کہ ہر آدمی اچھا قائد یا لیڈر نہیں ہوتا،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر کوئی اچھا لیڈر بننے کی کوشش ضرور کرسکتا ہے۔سعی و کاوش کے باوجود بھی اگر اچھا لیڈر بننے میں وہ ناکام ہوجائے پھر بھی یہ امر یقینی ہے کہ وہ اپنی قائدانہ اقدار کے باعث کسی بہتر قائد کا پیرو ضرور بن جائے گا۔ نوجوانوں کی شخصیت کو ہر مقام اور ہر محفل میں موثر و متاثر کن بنانے کے لئے ان میں چند عملی قائدانہ خصوصیات کو راہ دینا ضرور ہوتا ہے۔طلبہ افتراق و نفرت سے اعراض کرتے ہوئے ،محبت و موددت کو فروغ دے کر،جہلا سے اپنا دامن بچاتے ہوئے،حق و سچ کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی شخصیت کو دلکش اور اثر انگیز بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ طلبہ کی ایسی فکر سازی و ذہن سازی کریں کہ راستے میں حائلدشواریوں سے وہ خوفزدہ ہونے کے بجائے بلند ہمتی سے کام لیں۔ فکر ی استقامت اور بلندحوصلہ قیادت کے اہم اوصاف گردانے جاتے ہیں۔ایک بہترین قائد کی پہچان اس کی ذہنی بالیدگی ،حوصلہ و ہمت ،بلند نگاہی اور اس کے جرات مند اقدامات سے ہوتی ہے۔ اساتذہ طلبہ کو ایسے عظیم رہنماوں و قائدین کی زندگیوں سے سبق فراہم کریں جن کی قائدانہ صلاحیتوں نے معاشرے کا رخ ہی بدل دیا، زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ زمانے کی تغیرات و تبدیلیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سماجی اقدار کی پاسداری کو ملحوظ رکھتے ہوئے مستقبل کی قیادت کی تیاری بلاشبہ تعلیمی نظام اور اساتذہ کے لئے ایک بہت بڑا چیالینج ہے۔بچوں کی ابتدائی عمر میں اساتذہ ان کی ذات و ذہن میں قیادت کے بیچ ڈال کر اس کی مناسب آبیاری و نگہداشت کے ذریعے معاشرے کی حقیقی تعمیر کاکام انجام دے سکتے ہیں۔ایک عظیم استاد معلومات کی منتقلی کے بجائے اپنے علم وفضل اور تجربے کے ذریعے شعور و آگہی سے متصف، علم و دانش کے ایک ایسے پیکر کو تراشتا ہے جو خدا ترس،ایماندار،سچا،انسان دوست،قانون کا پاسدار،جہدکار،ایثارو قربانی کا پیکر،کمزور اور محروموں کا ہمدرد،اساتذہ بزرگوں اور خواتین کا احترام کرنے والا شخص ہوتا ہے جس کے اندر گفت و شنید کے آداب ہوتے ہیں،نامساعد حالات میں بھی آگے بڑھنے کی لگن پائی جاتی ہے، جس کے اندر بحث و مباحثہ کا سلیقہ ہوتا ہے،وہ فیصلہ سازی کے فن سے واقف ہوتا ہے،مسائل پیدا کرنے کے بجائے وہ مسائل حل کرتا ہے،مخالفت کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے،مزاحمت کے آداب جانتا ہے،اولوالعزم ہوتا ہے،حوصلہ مندی،جرات،حق گوئی و بے باکی کی مثال ہوتا ہے ظلم کے خلاف پامردی سے کھڑا رہتاہے۔ایسے انسانوں کی تعمیر کے باعث ہی استاد کو قوم کا معمار کہاجاتا ہے۔اساتذہ اپنے پیشے کی عظمت کا پاس و لحاظ رکھیں تاکہ انھیں دنیا و آخرت میں سروخروئی حاصل ہو۔
(جاری ہے)
اہم بلاگز
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...