آئیے مستحکم پاکستان بنائیں

قیام پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ۔امسال ملک 71 سال کا ہو گیا ۔لیکن تنازعات کا نا ختم ہونے والا طوفان آج بھی ویساہے جیسے پہلے تھا۔مناظر، تصاویر کے پردوں کو ہٹا کر حقیقت سے آنکھیں ملائیں تو عجب سچائی سامنے آتی ہے کہ آخر کیا وجہ تھی جس سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ چشم تصورسے سوچیں تو یہی بات تڑپاتی ہے آخر قیام پاکستا ن کی تحریک کیوں چلی ؟ متحدہ ہندستان میں جب انگریز کی حکومت تھی تو مسلمان ،ہندو ،سکھ سب یک مشت ایک دھارے میں جی تو رہے تھے ۔گوروں سے آزادی کی جنگ میں لا مذہب ہو کر 1857 کی جنگ میں سب فرد واحد تو تھے ،پھر کیا وجہ تھی کہ اچانک60 سال بعد مسلمان بیدار ہوئے ،مسلمانوں میں آزادی پاکستان کی تحریک کی ابتداء ہوئی اور یہ تحریک دن بدن بڑھتی چلی گئی ۔نتیجہ میں چشم فلک نے روئے زمین پر ہونے والے سب سے بڑے ظلم کا نظارہ کیا ۔تاریخ کے اوراق اُن انمٹ نقوش سے بھر گئے ،جو مسلمانوں کو حصول پاکستان کی صورت ملے۔پاکستان کی خاطر مسلمانوں نے عموماً، علماء حق نے خصوصاً جو قربانیاں پیش کیں ،وہ ایسا درخشندہ باب ہے جو نسلوں تک کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کا مینارہ بناتا رہے گا۔
آزادی کے معنی و مفہوم سے ناواقفیت ہے کہ ہمارے ہی ملک کے باسی یہ طعنہ دیتے نہیں تھکتے کہ علماء دین نے تحریک آزادی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا،بل کہ مخالفت کی تھی ،لہذا انہیں حق نہیں کہ یہ ملک کا جشن آزادی منائیں ۔اعتراض کرنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔اور اس نعمت (قیامِ پاکستان ) تو من جانب اللہ تھی۔نعمت جس قدر ارفع ہو قدردانی کا بوجھ بمطابق ہوتاہے۔پھر یہ کہ جس چیز پر ہماری جان ، مال ، وقت لگا ہواس کی اہمیت تو ہمارے اندر بدرجہ اتم راسخ ہونی چاہیے ۔مگر آزادی میں اپنا سب کچھ قربان کرنے والوں کو کیا معلوم تھا کہ لازوال قربانیوں سے بننے والے پاکستان کا مستقبل اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔خطرناک طوفان اسے جکڑ لیں گے۔وہ قوم جس کا نعرہ لاالہ الاللہ تھا ،وہ نعمت کی ناشکری پہ اتر کر اپنے اسلاف کے نظریات کو ختم کر بیٹھے گی ،کفران نعمت کرکے نا شکری کے عمل کودھرا ئے گی ۔
اسبابِ قیام پاکستان پہ نظر ڈالیں تو ایک ہی نظریہ کار فرما نظر آتا ہے ،جس پہ ہندستان کے مسلمان مجتمع ہوئے اور وہ نظریہ تھا اسلامی پاکستان کا قیام ۔اسی نظریے کے جھنڈے کو پکڑ کر مسلمانان ہند نے بلا تفریق تاریخ رقم کی ۔جائدادوں کو چھوڑا ، رشتے ناطے توڑے ، گھر بار ، اپنوں پرائیوں کی محبتوں کو پاکستان کی محبت میں نچھاور کیا ۔کلمہ طیبہ کے نعرے سے مسلمانوں میں ایک مؤثر جد جہد پیدا ہوئی اور تحریک پاکستان زبردست انداز میں آگے بڑھنے لگی ۔آزادی کی اس ہوا کا رخ اس وقت بدلا جب علماء حق نے اس تحریک کی سر پرستی فرمائی ،اور قائد اعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی خاں کی حمایت میں فتوے جاری کیے۔جن کی اشاعت سے مسلمانوں میں آزادی کی آگ لگ گئی ، آزادی کی تحریک نے زور پکڑا اور بالآخر 14 اگست 1947 ء پاکستان کا وجود ومسعود دنیاکے نقشے پہ ابھرا ۔قیام پاکستان میں علماء کے کردار کے معترف خود بانیان پاکستان بھی تھے ۔اور ا س کے اثبات کا نمونہ ہے کہ مشرقی و مغربی پاکستان میں پرچم کشائی دو بڑے علماء کے ہاتھوں سے کرائی گئی ۔
عموماً علماء کرام کے بارے میںیہ نظریہ عام ہے کہ قیامِ پاکستان میں ان کاکردار نہیں تھا یا بہت معمولی نوعیت کا تھا ۔اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیے بغیر علماء کرام کے بارے مختلف عنوانات سے باتوں کا پتنگڑ بنایا جاتا ہے ،جو کہ سراسر حقائق سے لا علمی کی دلیل ہے ۔ یہ بے سروپا الزامات علماء پاکستان کہ جن کی بے شمار خدمات اس وطن کے لیے بلا غرض تھیں ،غلط پرو پگنڈا کے کچھ نہیں ۔پاکستان کا کوئی بھی تاریخی دن ہو ،اس میں علماء پاکستان کی نمائندگی ایک اساسی حیثیت کے ساتھ موجود رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کے علماء مدارس اپنے اسلاف کی اس سنت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے دینی مدارس میں 14 اگست کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں،جس کا انتظام و انصرام مدارس ہی کے مدرسین کرتے ہیں ۔علماء کرام کی طرف میڈیا کے ذریعے عوام کے نام آزادی کی مبارک بادیں دی جاتی ہیں ۔مدارس ، مساجد ، خانقاہوں میں ملکی سلامتی کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں ،اسلام کے نام پہ بننے والی پاک زمین کی خا طر معاشرے کا یہی دینی طبقہ آزادی کے دن اللہ کے حضور سربسجود ہوتا ہے۔اس کے برعکس پاکستان کا جشن آزادی منانے والے ،ملک کے لیے جان نثاری کے دعوے دار ،آزادی کے دن کیا کرتے ہیں ، اس پر لب کشائی کرنا محال ہے ۔اسی بات سے ملک سے محبت و خلش کا فرق واضح سمجھا جا سکتا ہے ۔علماء کی پاکستان سے اٹوٹ رشتے کی کئی مثالیں کتب تاریخ میں موجود ہیں ، حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’حصول پاکستان کے لیے میرے جسم کا قطرہ خون کی ضرورت ہوگی تو میں دوں گا ،اگر پاکستان کے حصول میں ہماری جانیں بھی کام آجائیں تو ہم دریغ نہیں کریں گے ‘‘۔
حکیم الامت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ پاکستان سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ کسی زبان سے پاکستان کے خلاف بات سن لیتے تو سخت ناراضی کا اظہار فرماتے۔ علماء کے کردارکو بانیان پاکستان ہمیشہ تحسینی الفاظ سے یاد کرتے تھے ۔نظامِ پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا تھا :’’جب پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی تو وہاں اسلامی دستور ہوگا ،میں نے کبھی قوم سے غداری نہیں کی اور میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کا نظام اسلامی ہوگا اور اس کا دستور قرآن وسنت کے موافق ہوگا ‘‘۔ غور کیجیے! ایسا بیان تب ہی دیا جاتا ہے جب پسِ پردہ اس نظام کے محسنین کی محنت ہو۔علماء نے پاکستان کے ساتھ ساتھ دین کی آزادی کے لئے محنتیں کی تھیں ،جس کا ادراک آج کا مسلمان خال خال ہی کر رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مقصد آزادی سے انحراف نہ کریں اور اس نظریہ پہ لوٹ آئیں جس کی خاطر ہمارے بڑوں نے باہمی مل کر لہو کے دریا بہائے تھے۔وہ نظریہ اسلامی پاکستان کا قیام تھا۔آج تہیہ کرنا ہوگا کہ علماء دین کی قربانیوں کا صلہ دیتے ہوئے ملک کو ایک اسلامی ریاست بنانے میں عملی جد جہد کا آغاز کریں گے اور بقاء دین اور مستحکم پاکستان کے لیے کسی بھی قربانی کا تقاضا ہو اتو پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں