انتخابات 2018،صحافتی اقدار ہوئے پامال

ملک بھر میں اب سے دو ہفتے قبل عام انتخابات ہوئے معذرت سلیکشن ہوئے تو صحافی برادری کو الیکشن کمیشن کی جانب سے دو روز قبل صحافتی ذمہ دریاں نبھانے اور تعاون کرنے لیے خصوصی کارڈ دیا گیا جس کا مقصد الیکشن کی شفافیت دکھانے اور اس کو مثبت انداز میں پیش کرنا تھا ،الیکشن کمیشن نے اپنے تئیں یہ کام بخوبی سر انجام دیا مگر کچھ خلائی مخلوقوں کو یہ عمل کسی صورت نہ بھایا کیوں کہ جب ارادے نیک نہ ہوں پیغمبری پیشہ بھی برا لگنے لگتا ہے اور پھر دنیا جانتی ہے ایک صحافی ہی ہے جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر عوام کو آگاہی فراہم کرتا ہے اوران تک سچی خبر پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اس کام کی انجام دہی میں کئی صحافی اب تک اپنی جانوں کی قربانی دے چکے اور دیتے چلے آرہے ہیں ۔
اب انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو اس مخصوص جماعت یا سیاسی تنظیم کو جتوانے کے لیے جتنے جتن کئے گئے اتنے اگر صرف اس عمل کی شفافیت پر کرتے تو شاید اس ملک کے عوام اور تمام شکست خوردہ سیاسی جماعتیں ہار تسلیم کر کے اس مخصوص تنظیم کا ساتھ دیتیں اور ان میں صحافی صف اول میں شمار ہوتا ،تاہم کچھ انتخابی سرگرمیاں گزشتہ انتخابات کی نسبت بہت اچھے تھے ،وہ اس لیے کہ ہم نے نہ کسی پولنگ اسٹیشن پر ٹھپے لگتے دیکھے نہ ہی سیاسی تنظیموں کی ایک دوسرے کے ساتھ دھینگا مشتی ،مگر انتخابات کے عمل کو اس وقت نقصان پہچا جب صحافی برادری نے انتخابات میں صورتحال جاننے کے لیے مختلف پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا تو کسی اسٹیشن پرپاک فوج کے جوانوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ کیمرے اور صحافی کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں آپ باہر سے رپورٹ کریں ،تو کہیں پریذائڈنگ آفیسر نے تعاون نہ کیا ،صحافتی شکایات اور مسلسل خبروں کے باوجود نہ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس بات کا نوٹس لیا اور نہ ہی نگراں حکومت نے ،صحافی پورا دن اپنے اپنے حلقوں میں مار پیٹ اور شدید عدم تحفظ کاشکار رہے ۔
صحافی برادری کے ساتھ عدم تعاون اس بات کا ثبوت ہے عام انتخابات میں ایک مخصوص انداز سے جس طرح ایک سیاسی تنظیم کی رہنمائی کی گئی ہے مجھےکو میرے ادارے کی جانب سے کراچی کے حلقے این اے 242سے رپورٹنگ کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں جو سہراب گوٹھ ،عباس ٹاؤن،پیراڈائز بیکری ،ملک سوسائٹی ،رضوان گوٹھ ،بکھرگوٹھ، ابوالحسن اصفہانی روڈ ،گلشن معمار سمیت نئی سبزی منڈی تک پر مشتمل ایک بڑا علاقہ شامل تھاجس میں تقریبا 98کے قریب پولنگ اسٹیشنز موجود تھے جبکہ صرف تین پولنگ اسٹیشنز پر انتظامیہ کی جانب سے تعاون کیا گیا جبکہ باقی مانندہ پولنگ اسٹیشنز پر پولیس ،فوجی جوانوں اور الیکشن کمیشن کے عملے نے نہ تو رپورٹنگ کے فرائض انجام دینے دئیے اور نہ ہی کیمرے اور موبائل فون کا استعمال کرنے دیا جس کی وجہ یہ بتائی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئی ہیں۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن ذرائع سے معلومات حاصل کی گئیں تو ان کا موقف بالکل اس کے برعکس تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صحافیوں پر جبری پابندی عائد کی گئی جو جمہوریت میں کسی صورت قابل قبول نہیں ۔جمہوریت کا دعویٰ کےکرنے والوں نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ جب انتخابات اتنے شفاف اور پر امن تھے تو کراچی کے مختلف علاقوں سے آج بھی بیلٹ پیپرز کیوں مل رہے ہیں ،کیوں ان کی تصدیق یا تردید نہیں کی جارہی ،فارم 45 تا فارم 47 کیوں کسی بھی پولنگ ایجنٹ کو نہیں دیا گیا ،وہ کون سی ہدایات تھیں جس پرپریذائڈنگ آفیسر نے عمل کرتےہوئے فوجی افسر کے ساتھ اکیلے ایک مخصوص جماعت کے پولنگ ایجنٹ کو بٹھایا اور باقی تمام جماعتوں کے افراد کو اندر کردینا، یہ سارے سوال وہ ہیں جس کا جواب آنا باقی ہے۔25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کیا واقعی انتخابات تھے یا صرف اور صرف سلیکشن، یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب نہ خلائی مخلوق کی جانب سے اب تک دیا گیا ہے اور نہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے؟۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں